تحریر: اعظم معراج
اس نے رات 8 سے 9 کے ٹاک شو کے بعد 9 سے 9.45تک پارٹی لیڈر کے گھر کھانا کھایا مزید دو پروگراموں میں شمولیت کے لئے راہنمائی لی ..گھر پہنچی تو 10سے 11 اور 11سے 12والے چینلز کی ٹیمیں پہنچ چکی تھی۔اس نے گھر بیٹھے دونوں پروگراموں میں شمولیت کی ۔اینکر نے جو بھی سوال کیا اس نے اپنی فن تقریر کی مہارت سے مخالف پارٹی کے شرکاء کے چھکے چھڑائے اپنی راہنماہ کو مہان ثابت کیا۔ صبحِ نو سے رات 12تک وہ مسلسل مصروف تھی ۔تین بار تو وہ میک کروا چکی تھی ۔ اس نے فریش ہونے کے بعد آرام دے کپڑے پہنے اور اپنی گھریلو ملازمہ کو آواز دی سمئیہ آنا ذرا میرے کندھے تو دبانا ۔ جب سمئیہ کندھے دبا رہی تھی ..تو اسے اچانک سمئیہ کا خیال آیا جو صبح اس سے بھی پہلے بیدار ہوئی تھی ۔اور ابھی تک جاگ رہی تھی ۔
غریب کے گھر پیدا ہوئی ۔غربت میں بچپن گزرا ۔غلاموں کی طرح جوانی گزری اب ادھیڑ عمری اب اتران پہن کر جوٹھن کھا کر خؤش تھی ۔۔مصروف تو وہ بھی صبح سے تھی ..لیکن دس خدام اور کینزیں اسکی خدمت میں تھیں۔
کسی نے اسکی ڈائری پکڑی ہوئی تھی..کوئی فون سن رہا تھا. کوئی گاڑی چلا رہا تھا۔ میک اپ کرنے والی ٹیم مسلسل ساتھ تھی۔ اچانک وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سمئیہ بھاگی اور بیڈروم سے اسکے میاں کو آٹھا لائی۔ اس نے آتے ہی پوچھا کیا ہؤا بیگم؟ کسی نے کچھ سخت کہہ دیا۔ تمہیں کہا ہے.. ٹاک شوز میں ہاتھ ہولا رکھا کرو۔ جب تم کچھ کہو گئی تو جواب تو آئے گا۔۔ میاں نے بڑی مشکل سے چپ کروایا سمئیہ نے پانی پلایا۔ وہ کچھ سنبھلی تو میاں نے پھر پوچھا کچھہ بتاؤ تو صحیح کیا ہؤا ہے۔ اس نے کہا علی بتاؤ کیا میں انسان کہلوانے کے قابل ہوں؟ میں پنجاب کی تقریبا آدھی آبادی ساڑھے سات کروڑ خواتین کی صنفی شناخت پر ایم پی اے بنی ہوں. لیکن جب مجھے خیال آتا ہے. کہ حرام ہے، جو میں کبھی ان میں سے کسی ایک کے حقوق کے لئے کسی ٹاک شو ،میں کسی پریس کانفرنس میں کسی پارٹی میٹنگ میں آواز اٹھائی ہو۔ سارا دن جب میں اس مظلوم مخلوق کو دیکھتی ہوں. کہ ان کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کی شناخت پر مجھ جیسی 192خواتین حُکمرانی کے مزے لے رہی ہیں۔ یہ کہہ کر وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی بتاؤ علی کیا میں انسان ہوں؟ کیا میرے جیسی وہ سب جو ان کروڑوں کی شناخت پر مراعات و بھاری تنخواہیں لیتی ہیں۔
ہم انسان جو اس مظلوم مخلوق جن کے لاکھوں مسائل کی ہزاروں کہانیاں روز سنی اور دیکھی جاتی ہیں ہم ان کے لئے کچھ نہیں کرتیں بس اپنے اپنے پارٹی لیڈروں کی امیج بلڈنگ کرتی ہیں۔ میاں کہنے لگا پھر چھوڑ دو یہ سب۔ وہ روتے روتے کہنے لگی چھوڑ بھی نہیں سکتی۔ انھی مراعات اور آسائشوں کے لئے میں نے کیا کیا ذلیتں نہیں سہی ،ٹاک شوز ،میں بے عزت ہوئی ہوں. لوگوں کی کیا کیا باتیں نہیں سنی۔ حکمران خاندان کی کس کس سطح کی خوشامد کی ہے۔ کتںی پارٹیاں بدل چکی ہوں۔ اب کیسے چھوڑ دوں- یہ سب ؟ میاں نے کہا پگلی پھر ان غریب محنت کش عورتوں کا سوچنا چھوڑ دو۔ سمئیہ نے کہا ہاں باجی چھوڑوں رونا دھونا اتنی تو آپ اچھی ہو۔ پچھلے مہینے میں جب آپ کے دیئے ہوئے پرانے کپڑے پہن کر گاؤں گئی تو پورے گاؤں کی عورتوں نے میرے کپڑوں کی تعریف کی تھی۔ کسی نے یہ گلا تو نہیں کیا کہ تمہاری باجی ہمارے حقوق کی بات کیوں نہیں کرتی؟ اور باجی انھیں تو پتہ بھی نہیں تم ان کی شناخت پر مخصوص نشستوں والی ہو۔ وہ تو تمہیں بڑی دلیر ،وفادار ،جانثاراور اصلی لیڈر سمجھتی ہیں۔
نوٹ: یہ قصہ پاکستانی سیاست کی 192 مخصوص نشستوں پر ایوانوں تشریف فرما ہر اس خاتون کی سیاست سے ماحوذ ہے۔ جسے یہ پتہ تو ہے کے اسے ایم این اے ،ایم پی اے بنانے والوں کے ساتھ اس کے افکار ،اعمال پر انکا بھی اتنا ہی حق ہے. جن کی شناخت پر انھیں پہلے نمائندگی اور پھر حکومتی عہدے ملتے ہیں۔ لیکن وہ آسائشوں مراعات کی کشش میں اپنے کچوکے لگاتے ضمیروں کو سلائے رکھتی ہیں ۔