تحریر: اعظم معراج
وہ اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا اسکے کانوں میں اس نوجوان مزدور مسیحی کی زہریلی ہنسی میں بجھا سوال گونج رہا تھآ۔ ان بزرگوں کی ہمدردی میں چھپے فرینڈلی فائر کے زخم کی کسک تھی ۔۔ اس فرینڈلی فائر کو اور کسی نے تو محسوس بھی نہ کیا تھا ۔۔ یہ دوستانہ حملہ اسکا سینہ چیر گیا تھا۔ ہؤا یوں تھا آج جب وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ شہر کے نواح میں مسحیوں کی بستی میں اپنے آقاؤں کے لئے ووٹ مانگنے گیا تواس نوجوان نے کہا تھا “صاحب ووٹ تو آپ کے کہنے پر ہم اسی خاندان کو ہی دیں گے۔ لیکن میں عاجزی سے آپ سے ایک دو سوال کرنا چاہتا ہوں ۔مُجھے بتائیں اگر آپ کے نام کے ساتھ میرے جیسے چالیس لاکھ لوگوں کی شناخت نہ جڑی ہوتی تو کیا یہ خاندان اپنا سارا زور لگا کر بھی آپ کو ایم این اے بنا سکتا تھا ۔؟ اس نے جینھپ کر کہا” نہیں ” نوجوان بولا اچھا اگر ایسا ہے ۔ تو پھر کیا کبھی آپ نے میرے جیسے چالیس لاکھ مسیحیوں کی خدمت کرنے کا بھی ایسے سوچا ہے ۔۔جیسے اس خاندان کی کر رہے ہو ۔۔؟ وہ بولا یہ سب اسی لئے ہی تو کر رہا ہوں ۔۔تاکہ تم جیسوں کے لئے کچھ حاصل کرسکوں ۔ نوجوان نے زہر میں بجھے ہوئے لیکن شکست خوردہ لہجے کہا تھا ” چھوڑو صاحب آپ تو پچھلے پانچ سال سے ایک ہی خاندان کے لئے بار بار ووٹ مانگنے آرہے ہو۔ آپ تو اس خاندان کے منشی بن کر رہ گئے ہو چلو یہ بتاؤ تم بڑے سیانے ہو ۔۔کیا کبھی ہمیں بھی ہماری شناخت پر کوئی بھٹو ، یا عمران نصیب ہوگا ؟ جو ہماری عزتِ نفس کی بحالی ،شعور کی ترقی دے کر شان سے حقوق مانگنے کا درس دے سکے۔ وہ لاجواب ہو چکا تھا۔ لیکن نوجوان کے چاچے بابوں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی بیوقوف شرم کرو
۔صاحب تمھارے ہمارے لئے انکی خوشامد غلاموں کی طرح کرتے ہیں ۔ ورنہ یہ بھی انھی کی طرح کے انسان اور ایم این اے ہیں ۔۔۔
وہ غریب مسکین مسیحی اپنی نظر میں اسکی حمائیت کر رہے تھے۔۔ لیکن وہ شرم سے زمین میں گڑھا جارہا تھا اس نے غور سے ان بزرگوں کے چہرے دیکھے کہیں طنز تو نہیں کر رہے۔ لیکن وہاں محرومیوں کی لیکروں اور لاعلمی کی سب سے بڑی دین معصومیت کے سوا کچھ نہ تھا ۔ یہ ہی معصومیت اسے بار بار خواب میں نظر آتی اور ڈراتی ۔ لوگ انھیں منہ پر بھی پیٹھ پیچھے بھی کبھی جمہوری غلام کبھی ،بھیک کی سیٹوں والے ،کبھی سلیکٹڈ کہتے رہتے لیکن وہ دلیلیں دیتا ہمارا کیا قصور؟ نظام کا قصور ہے؟ جب کوئی کہتا کے نظام بدلو وہ کہتا ہم نظام میں تبدیلی کی بات اسمبلی میں کر رہے ہیں ۔ اور اس نے کی بھی لیکن یہ معصومیت تو اسکی روح کو گھائل کر گئی تھی ۔ وہ جب سے اس بستی سے ہو کر آیا تھا ذہنی مریض بن کر رہ گیا تھا۔اس کی انکھون میں بابے کا جھریوں بھرا , کالا سیاہ، محرومیوں کی لیکروں سے اٹا پڑا چہرا نظر آتا جو انتہائی عقیدت سے کہتا
صاحب تمھارے ہمارے لئے انکی خوشامد غلاموں کی طرح کرتے ہیں ۔ ورنہ یہ بھی انھی کی طرح کے انسان اور ایم این اے ہیں ۔۔۔