بدھووں کا آوا…….. اور فل کورٹ

 

تحریر: اعظم معراج

کل 3 جون کو مخصوص نشستوں کے مسئلے پر فل کورٹ سماعت کرے گا۔ یہ مخصوص نشستوں کی بھی عجب کہانی ہے۔ بظاہر مقننہ، کے بڑوں نے اقلیتوں کے مطالبے پر انھیں مذہبی شناخت اور خواتین کو بن مانگے صنفی شناخت پر ایوانوں میں نمائندگی دینے کیلئے مخصوص نشستوں کا ایک نظام بنایاہواہے۔ لیکن وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ یہ نظام مقنہ کی کوکھ سے جنم لینے والی انتظامیہ کی بے لگام طاقت میں مزید بڑھاوے کا سبب بناہے۔ جس سے ایسے ایسے جمہوری لطیفے بنے کہ خدا کی پناہ جس میں سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے۔ کہ ایک کروڑ اقلیتوں کی مذہبی اور 12 کروڑ خواتین کی صنفی شناخت پر چار پانچ مقنوی اور انتظامی اشرفیہ کے افراد 226 جمہوری غلام اور کینزیں منتخب کرتے ہیں۔ کچھ دنوں سے جاری اس ضمن میں پیدا ہونے والی پے در پے بے درد قسم کی مضحکہ خیزیوں کو کم کرنے کیلئے اب عدلیہ کے بڑوں نے فل کورٹ بنا کر موجودہ صورتحال سے قوم کو نکالنے کا عندیہ دیا ہے۔ دیکھیں کل کیا ہوتا ہے؟ لیکن اپنے تینوں آئینی ریاستی ستونوں کے رکھوالوں کی اب تک کی کارکردگی سے امید کی جاسکتی ہے، وہ کنوئیں سے کتا نہیں صرفِ پانی ہی نکالنے کی صلاح دیں گے ۔ جبکہ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر عدلیہ اس مسلئے کے قلیل المیعاد حل (کنویں سے پانی نکالنے ) کے ساتھ اگر دوسرے دونوں اداروں مقننہ اور انتظامیہ کو اس نظام میں تبدیلی (مردہ کتا نکالنے) کا بھی مشورہ دے۔ جس سے آئندہ ایسے المناک آئینی لطیفے بن ہی نہ سکیں۔ میں نے اس ضمن میں دوسرے دونوں آئینی ستونوں کے رکھوالوں (وزیر اعظم ،چیرمئین سینٹ ،اسپیکیر قومی اسمبلی انکے پارٹی راہنماؤں کے علاؤہ چیف جسٹس صاحب کو کچھ دن پہلے خط بھی لکھے ہیں۔ جن خطوں کے لنک اس پوسٹ کے کمنٹ میں پڑھیں جاسکتے ہیں۔کیونکہ عدلیہ کا موجودہ اقلیتی و خواتین کیلئے مخصوص نشستوں کے بانٹنے والے انتحابی نظام سے بظاہر کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ اسلئے امید کی جا سکتی ہے۔ کہ شائد وہ اپنے دیگر ساتھی اداروں کی کچھ راہنمائی کر دے ۔
گو کہ کچھ بدگماں سمجھتے ییں کہ موجودہ بحران کے نتیجے میں ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ جس سے موجودہ ایوانوں کے زریعے ایسی آئینی ترمیم کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ جس سے موجودہ چیف جسٹس کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں مانتا پچیس کروڑ کو انصاف پہنچانے کی ذمدار شخصیت اپنے ایسے چھوٹے مفاد کیلئے کوئی غیر جمہوری، غیر انسانی، غیر قانونی، غیر آئینی عمل کرسکتی۔ اقلیتوں کے مسلسل پچھلی دو دہائیوں سے موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام کی خامیوں پر احتجاج کرنے کے باوجود اس نظام کو وضع کرنے اور آس میں تبدیلی کرنے کا اخیتار رکھنے والے دونوں اداروں کے ذمداروں کا رؤیہ کمال بے حسی اور لاپرواہی کا ہے۔ اس نظام کے زریعے جمہوری غلام بننے کی/کے شوقین خواتین و حضرات جو تقریبآ 13 کروڑ کی صنفی و مذہبی شناخت پر یہ غلامی ہنس ہنس کر قبول کرتے ہیں۔ انکی بھی اپنی ہی سوچ کی سطح ہے۔ ان رضآ کار جمہوری غلاموں اور انکے رفقاء محرمیوں کے سوداگروں اور شعبدے بازوں جو بظاھر اس نظام کے متاثرین 13 کروڑ کی نمائندگی کرنے کے/کی دعویدار ہیں۔ ان کا رویہ اول الذکر ہم وطنوں سے بھی شرم ناک ہے۔ عام 12 کروڑ خواتین میں سے اکثریت کو تو پتہ ہی نہیں کہ انکے نام پر کون سا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ جب کہ جن کے مفادات وابستہ ہیں. انھیں کیا ضرورت ہے؟ اس نظام میں تبدیلی کی بات کرنے کی۔ حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کا بھی یہ مسلہ ہی نہیں ہے۔ رہ گئی اقلیتوں کی بات تو 98 فیصد اقلیتی شہری اس نظام میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ جنکی حقیقی نمائندگی کرنے والے نیک نیت گروہ ایسے ہیں جو اپنے کچھ ایسے شناختی، فکری ،انتظامی اور معاشی بحرانوں کی بدولت وہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ مؤثر طور پر اس مسلئے کی ذمدار، بے حس، وبے شرم اشرفیہ تک مسائل پہنچا نہیں پاتے۔ باقی اقلیتوں کے ریاستی حکومتی اور دانشور اشرفیہ تک رسائی رکھنے والے اقلیتی زعماء ہیں۔ ان کی تین قسمیں ہیں۔جمہوری غلام ، محرومیوں کے سوداگر اور مزہب کے ٹھیکیدار ان میں سے دوسرے نمبر والے دونوں فریقوں کے براہ راست مفاد وابستہ ہوں نہ ہوں لیکن انھیں باقی 98 فیصد کو درپیش مسائل اور ان کے ممکنہ حل کا کوئی ادارک نہیں ہے۔ یعنی آوے کا آوا ہی صرفِ بگڑا نہیں ہوا بلکہ بدھووں کے آوے کا غلام بنا ہؤا ہے۔ اور بدھو کے آوے کے مجاور تو اس برصغیر کی ایک بہت ہی طاقتور ریاست کو کھا چکا ہے۔ ہمارے یہ زمہ دار و متاثرین کس کھیت کی مولی ہیں۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading