تحریر: اعظم معراج
اقلیتی ایوانوں کے نمائندوں اور متوقع امیدواروں کو سرگودھا کے گرد نواح میں پھیلی ضرب الامثل کے مترداف شک پڑ گیا ہے۔ کہ تینوں ریاستی ستونوں کے رکھوالوں و عمران، زرداری، نواز اور دیگر ایوانوں میں اثر ورسوخ رکھنے والی سیاستدانوں کا غیر تحریری معاہدہ ہوچکا ہے۔ کہ اقلیتوں کو شفاف انتحاہی نظام نہیں دینا چاہے دنیا بھر کہیں منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اور ملک کو بھی مزید ذلیل کروالیں۔ اسلئے اقلیتی ایوانوں کے 24 نمائندگان و باقی 10 نشستوں کے 10ہزار امیدوار اپنے ان لوگوں سے منہ چھپاتے پھر رہےہیں۔ جو اس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ لیکن اپنے لوگوں کو سچ نہیں بتاتے۔ کہ اس موضوع پر بات کرنے سے میری نمائندگی بھی جاسکتی ہے۔ اور عمران ،نواز اور زرداری اس بات سے اتنے مشتمل ہو جاتے ہیں کہ وہ مجھے پارٹی سے بھی نکال سکتے ہیں۔
جبکہ محرومیوں و مذہب کے سوداگروں میں سے ایک مخصوص طبقہ ایک مخصوص اقلیت جو اپنے آپ کو اقلیت نہیں مانتی کے مفادات کے تحفظ کیلئے موجودہ انتحاہی نظام کے بارے میں در پردہ قیصدہ گوئی کے پروگرام منعقد کروا رہا ہے۔ اب اگر سیاسی اقلیتی نمائندگان و امیدوار برائے نمائندگی اپنے لوگوں کو بتائیں تو لوگ انھیں بتائیں کے ایسا نہیں ہوسکتا ریاستی، حکومتی، سیاسی اور دانشور اشرفیہ اقلیتوں کو لے کر اتنی بے رحم نہیں ہوسکتی یہ آپکا بلاوجہ بلکہ گھوڑی والا شک ہے۔ لیکن وہ بتائیں تو تب نہ عام اقلیتی شہریوں کا یہ کہنا ہے۔ کہ جو اقلیتی قومی سیاست کرتے ہیں ان سے تو کوئی گلہ نہیں لیکن جو اقلیتی ونگز کے زریعے اقلیتی کوٹے والی نشستوں پر جمہوری غلام بننے کے شوقین ہیں انھیں یہ شک دور کرنا چاہیے کیونکہ وہ تو سیاست کرتے ہی اقلیتی مسائل پر ہیں۔ اور اقلیتی انتحاہی نظام کا غیر منطقی، غیر جمہوری اور غیر انسانی طریقہ سلیکشن اقلیتوں کا بڑا مسئلہ ہے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔