تحریر: اعظم معراج
پانچ جولائی 1977 کی چھاپ پاکستان کی قوم پر اتنی گہری ہے ۔۔کہ اسکے بعد کوئی بھی پانچ جولائی ائے لوگوں کا دھیان اسی طرف جاتاہے۔ سوائے ملک وقوم اور جمہور کے وسیع تر مفاد میں صلح 1988 کے معاہدے کی بدولت کھرب پتی بننے والے چند عظیم جمہوریت پسند خاندانوں اور انکے رفقاء کو لگتا یوں ھے۔۔ کہ پانچ جولائی 1977 کے منفی اثرات عام پاکستانی کیلئے اس معاشرے پر تا قیامت رہے گے۔ لیکن ہمارا موضوع 5جولائی 2024 ہے۔ پاکستان میں1973 کے متفقہ آئین کے اعتبار سے اقلیتیں دوسرے نمبر پر اور آئے دن معاشرتی رویوں کی بھینٹ چڑھنے والے اقلیتی افراد کی بدولت اکثر یہ تقریبا ایک کروڑ شہری اپنے آپ کو ملک کے دس نمبر کے شہری محسوس کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں چھٹے مقامی مسیحی اور ساتویں غیر مسلم کے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی نے پاکستان بھر کی اقلیتوں اور روشن خیال شہریوں اور خصوصاً مسحیوں میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔ یقیناً ایسی خبریں جہاں پاکستان کا انتہائی روشن چہرہ دنیا کو دکھاتی ہیں۔ وہی ایسی مثبت خبریں پاکستان کی اقلیتوں میں ایک عزم اور حوصلہ پیدا کر کے انھیں معاشرے سے جوڑنے کا سبب بنتی ہیں۔ ایسی خبریں قوم کی اجتماعی نفسیات پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔ میں اور میرے ساتھی 2013 سے پاکستان کے مذہبی مسیحی راہنماؤں جن کے زیر انتظام مسحیوں کے تعلیمی ادارے چلتے ہیں۔ انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایسی معلومات کو سیاق وسباق کے ساتھ اپنی موجودہ اور آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔
افواج پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک مقامی مسیحی دو ستارے والے جرنیل یا اسکے مساوی ایر فورس اور نیوی میں ان عہدوں پر ترقی کرنے والے افسران کی تعداد 6چھ ہوگئی۔ 5 جولائی کے آرمی پرموشن بورڈ میں جن بائیس بریگیڈئر کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ان میں ایک مسیحی بھی ہیں۔ انکا نام میجر جنرل معظم جولین ہے۔ یہ تیس بہادری کے اعزاز لینے والے چوبیس شہداء غازیوں اور محافظان وطن مسحیوں میں سے ایک ہیں۔ یہ پہلے پاکستانی مسیحی ہیں۔ جنہوں نے ایس۔ایس۔ جی کمانڈو بٹالین میں شمولیت کی ہے۔ اور وار آن ٹیرر کے دوران بہادری سے لڑتے ہوئے زخمی ہوئے تمغہ بسالت حاصل کیا اس جھڑپ کی تفصیل اور انکا مکمل پروفائل کتاب
“چوبیس چراغ “میں ہے۔ جب کہ ایک اور دو ستارے والے افواج پاکستان کے مسیحی جرنیلوں کی مجموعی تعداد 34 ہوگئی. جب یہ کتاب ” افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل” چھپی تو اس وقت یہ تعداد انتیس تھی۔ میں کئی سالوں سے کاتھولک چرچ اور باقی جن چرچوں کے پاس ہمارے مشنریوں کے بنائیں ہؤے اسکولوں کا انتظام ہے۔ سے گذارش کر رہا ہوں۔ کہ ان معلومات کو اپنے مسیحی بچوں تک پہنچانے کا انتظام کریں تو یہ تعداد دس سال میں 34سے 3400 نہیں تو 134 تو ہو سکتی تھی۔ لیکن کارڈینل سے فادروں اور بشپوں سے پادری تک جی جی، ہاں ہاں کرتے ہیں۔ایک دہائی گزر گئی۔ لیکن نتیجہ زیرو شائد بیچارے ڈرتے ہیں۔ یا تو ان میں ایسے کام کرنے کی استعداد نہیں یا پھر یہ بہت چالاک ہیں۔ اور ڈرتے ہیں کہ ایسے کاموں سے مذہب فروشی اور محرومیوں کی سوداگری کی صنعت بیٹھ سکتی۔ حالانکہ اگر یہ ایسا سستا اور منظم کام کرلیں تو اس سے ان کی نیک نامی ہوگی اور نیک نامی ہمشیہ کاروبار میں ترقی کا باعث بنتی ہے۔ لیکن یہ دؤر اندیش نہیں بیچارے۔ میجر جنرل معظم جولین کی ترقی اس قوم اور پاکستان کی اقلیتوں خصوصاً مسحیوں کیلئے بہت اچھی خبر ہے۔
اہل وطن کو مبارک ہو۔ سیپر ہارون ولیم شہید اور سیپر روفن شہید کی شہادت والے دن سے مُجھے اس متوقع ترقی کی اطلاع تھی۔ اس شاندار خبر پر یہ بشپ ،فادر پادری اور محرومیوں کے سوداگر ڈھول تاشے دوسرے مسحیوں سے بھی زیادہ بجائیں گے۔ لیکن ان معلومات کو منظم طریقے سے آنے والی نسلوں کیلئے کارآ مد بنانے کا طریقہ نہیں اپنائیں گے۔ خدا ان کو ہدایت دے آمین۔ جو بہت سادہ سا کام ہے کہ مسیحی بچوں کو مذہب کے پیرڈز میں ایک آدھ دن انھیں ان کی یہ قابل فخر شناخت پڑھائیں۔ ان ہیروز کی تصاویر اپنے اسکولوں میں لگائیں۔ میں نے اور میرے ساتھیوں جن میں نمایاں نام کرنل (ر) عظیم ، کرنل (ر) البرٹ کمانڈر (ر) میتھیوز فادر عنایت برناڈ ،زریں منور ، صائمہ انور، شہباز چوہان اور دیگر سیکنڑوں تحریک شناخت کے رضاکاروں نے ہر مسیحی مسلک کے ہر سطح کے کارڈینل سے سسٹروں اور بشپ، ماڈریٹروں سے نکے پادریوں تک مختی فوج کے گورے ٹیریٹورییل کمانڈر سے چھوٹے موٹے کپتان پادریوں تک کے لوگوں کو قائل کرنے کی سر توڑ کوشش کی ہے۔ لیکن یہ ایسے ہٹ دھرم، ناعاقبت اندیش، اور کند ذہن ہیں۔ کہ بس کچھ نہ پوچھیں اسکے کیلئے ہزار کوششوں میں سے ایک کا لنک کمنٹ میں ہے۔ یہ بیچارے عزتِ مآب بشپ کوٹس کو لکھا گیا خط ہے۔ وہ گھنٹوں اس موضوع پر مجھ سے گپ شپ کرتے ان کی عاجزی کے وہ خؤد کو تحریک شناخت کا رضاکار کہتے لیکِن عملی طور پر بطور بشپ کچھ نہ کرسکے۔ پھر انھیں کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ میں انھیں کہا کرتا تھا بابا جی تاریخ بنانے کے مواقع روز روز نہیں ملتے۔ لیکن بس جی جی اور ہاں ہاں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کے پاکستان کے مسحیوں کے پاس جو کچھ ہے موجودہ مذہبی لوگوں کے دؤر اندیش، نیک نیت مسیح کے سچے پیروکار پیش روں کی بدولت ہے۔ لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ آج مسحیوں کے پاس جو کچھ ہو سکتا تھا۔ وہ بھی ان عظیم ہستیوں کے ان کم استعداد، کند ذہن جانشینوں کی بدولت نہیں ہے ۔ لیکن کبھی بھی دیر نہیں ہوتی اگر انسان درست سمت میں سفر شروع کر دے تو منزل ذرا دیر سے سہی مل ہی جاتی ہے۔ لیکِن ان بیچاروں کی پہلے تو شعوری و زہنی استعداد نہیں دوسرے انکے قریب وہ لوگ ہوتے ہیں۔ انکے ان سے مفادات وابستہ ہیں.بایک ڈگریوں کے اعتبار سے انتہائی پڑھے لکھے اور گرجے کے زیر اہتمام چلنے والے ادارے میں خاصے بڑے عہدے پر فائز مسیحی کے بچے کی شادی تھی۔ میں نے ایک مشترکہ جاننے والے دوست سے پوچھا کل تم وہاں شادی پر نہیں تھے ۔۔میرے خیال میں اسے وہاں ہر حال میں ہونا چاہیئے تھا۔ پہلے وہ ٹال گیا اور بولا بیچارہ بھول گیا ہوگا۔ میں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ ہنس کر بیچارگی سے بولا اسکے باس بشپ کو میں کوئی سخت بات منہ پر کہہ دی تھی۔ اب بیچارا جتنا مرضی عالم ہو جائے نوکری تو بشپ کی ہی کرتا ہے۔ اسے خوش کرنے کیلئے نہیں بلایا تھا۔ تیسرے انتحائی معصوم عقیدت مند لوگ یہ تینوں قسم کے لوگ انکو کیا سمجھا سکتے ہیں۔ سیدھی بات کے جواب میں انکا رؤیہ فرعونوں جیسا ہوتا ہے۔ سارا سال اس رویئے کے ساتھ جب ایسٹر کے دنوں میں یہ عام آدمی کے پاؤں دھلواتے ہیں ۔ تو عجیب منافقت بھرا منظر ہوتا ہے ۔
افواج پاکستان کی تاریخ قیام سے لیکر ہی بڑی منفرد رہی ہے ۔ پہلے دو آرمی چیف ،چار ایر چیف ،ایک نیول چیف برطانوی مسیحی تھے۔ مقامی مسیحیوں نے بھی افواج پاکستان میں مسیحیوں کے اس کردار کی وارثت کو جاری رکھا ہؤا ہے بریگیڈئر ہیلن کی ترقی کے بعد ایک اور دو ستارے مقامی مسیحی جرنیلوں کی تعداد 34 ہوگئی ہے۔ جس میں سے بریگیڈئر معظم کی ترقی کے بعد دوستارے والے جرنیلوں کی افواج پاکستان میں تعداد چھ ہوگئی ہے جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔
۔1 ایر وائس مارشل ایرک جی ہال ستارہ جرآت ،ستارہ بسالت
۔2 ایر وائس مارشل مائیکل جان اوبرائن تمغہ جرآت ،ستارہ بسالت
۔3 ریر ایڈمرل نارمن من گون ستارہ بسالت ،ستارہ امیتاز ملٹری
۔4 میجرجنرل مرحوم پیٹر جولین
۔5میجرجنرل( ر )و سابقہ سفیر نوئیل اسرائیل کھوکھر
۔6 میجرجنرل معظم جولین
اسکے علاؤہ افواج پاکستان کو ایک قومی فوج کی شناخت اور ترقیوں کے نظام کا رنگ، نسل، مذہب، مسلک سے اوپر ہونے کا ثبوت یہ بات بھی ہے۔ کہ ایک پارسی پاکستانی
میجر جنرل( ر) کازید مانک سپاری والا
بھی دو ستارے والے جرنیل بن کر ایک ڈویژن کمانڈ کرچکے ہیں ۔
دفاع پاکستان میں مسیحیوں کے کردار کی تفصیلات میں نے شان سبز و سفید نامی کتاب میں یکجا کی ہیں ۔ جسکو طلب علموں کی سہولت کیلئے پانچ کتب میں ترتیب دیا
شہداء وطن ،چوبیس چراغ ، افواج پاکستان کے مقامی مسیحی جرنیل، حیدران کے مسیحی ساتھی، بل دا لیجنڈ مقصد یہ ہی تھا۔ کہ کسی طرح یہ شاندار قابل فخر شناخت ہماری نوجوان نسلوں تک پہنچے لیکن قابلِ رحم ہیں میرے نوجوان طالب علم جنکی راہوں میں انکے مذہبی راہنماہ اندھیرے پھیلانے میں جٹے ہیں۔اور انھیں خؤد آگاہی خؤد شناسی کے سبق سے روشناس کروانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ کمال یہ ہے، کہ یہ تمام لوگ مختلف قسم کی ہم آہنگی؛ کے نام پر سیمنار، ورکشاپ، سمپوزیم اور پتہ نہیں کیا کیا کرواتے ہیں لیکن تحریک شناخت کے دنیا بھر کی اقلیتوں کے لئے انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی وبقاء کی فکر سے خوف کھاتے ہیں۔ جو کہ معاشرتی ہم آہنگی کے حصول کا انتہائی سستا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اور لاکھوں طالب علم ان کی زرا سی کوشش سے اپنی اجتماعی قابل فخر شناخت سے متعارف ہو کر
بقول اقبال
جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
تو کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
یہ غلاموں پر اسرار شہنشاہی کھلنے ہی نہیں دینے چاہتے ۔
خدا انھیں ہدایات دے.امین ہم نے ایک دہائی مسلسل انھیں قائل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں مایوس نہیں لیکن نام سیاسی سماجی اور مذہبی ورکروں کی ایسے کاموں میں دلچسپی ہے جن سے مسحیوں کی اپنے اجداد کی سرزمینوں پر شان سے رہنے کے اسباب پیدا کئے جاسکے کیونکہ انھیں محرومیاں ،مذہب فروشی اور اپنے جمہوری آقاؤں کی جمہوری غلامی سے فرصت نہیں ۔۔ انکی بے حسی سے بات یہاں تک پہنچ گئی ہے۔۔ کہ ان کے زیر انتظام اور انکے سابقہ ملازمین و تربیت یافتہ این جی اوز / محرومیوں کی سوداگری کی صنعت سے وابستہ کئی افراد تو مسحیوں کی ایسی کامیابیوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔کہ جب تک پاکستان کا آئین انکے ڈونرز ممالک جیسا نہیں ہو جاتا اقلیتوں کو ایسی انفرادی کامیابیوں پر خوشیوں کا بھی اظہار نہیں کرنا چاہیئے ۔ بلکہ ان کی خواہش یہ ہے سارے معاشرے کے دوسرے شعبے چھوڑ کر انکی محرومیوں کی سوداگری کی صنعت کا ایندھن بن جائیں ۔
لہٰذا اے عام مسیحیوں اگر آپ ایسے شہر میں رہتے ہیں۔ جہاں گورا ٹیریٹورییل کمانڈر ،ماڈریٹر ، بشپ ،کارڈینل یا ایسا کوئی فیصلہ کرنے والا بیٹھتا ہے ،جس کے زیر انتظام کوئی تعلیمی ادراہ ہے ،تو دو تین یا زیادہ ہم خیال ساتھیوں کے ساتھ وفد کی صورت میں ان سے ملیں اور صرف ایک بات ان سے پوچھیں اپنی اجتماعی شناخت اپنے اسکولوں میں اپنے نوجوانوں کو منظم طریقے سے بتانے میں کیا حرج ہے ۔۔؟ اگر کوئی ہرج نہیں تو پھر ان سے گزارش کریں یہ کم خرچ بالا نشیں منصوبہ فوری شروع کریں ،تاکہ مستقبل میں زیادہ سے زیادہ مارٹن سموئیل برق ( سابقہ سفیر ) دلشاد نجم الدین، (سابقہ آئی جی)جنرل ر کھوکھر ،جنرل مرحوم پیٹر ، میجر جنرل جولین تمغہ بسالت یا ایسے روشنی کے مینار ہر شعبے میں زیادہ سے زیادہ پیدا کئے جا سکیں۔۔۔
ریٹائرڈ فوجی افسران اس میں پہل کریں تو یہ مہم بہت پراثر ہوسکتی ہے ۔۔ باقی عام آدمی جنکے روزگار ان سے وابستہ نہ ہوں یا وہ جو اندھی جہالت نما عقیدت سے زرا اوپر شعوری سطح کے حامل ہوں ۔ ۔ وہ بھی اس بے ضرر آسان کام میں حصہ لے سکتے ہیں ۔۔یہ کام بہت آسان ہے بس اس بات کا اجتماعی ادارک ہونا ضروری ہے ۔کہ اگر پچھلے سو سال میں صرفِ پچاس ہزار کے قریب لوگ ترقی یافتہ ممالک میں ہجرت کر سکیں ہیں۔تو 45لاکھ لوگ آنے والے کتنی صدیوں میں ہجرت کریں گے ۔ جن کے لئے وہ راہ دستیاب ہے ضرور ترقی وبقاء کے لئے اختیار کریں ۔لیکن 45لاکھ لوگ دائمی فرار کی ذہنی کفیت میں زندگی نہیں گزار سکتے ۔نہ مسلسل صدمے کی کیفیت میں۔۔ نہ ایک کروڑ لوگوں میں سے چند ہزار لوگ اپنے ڈونرز ممالک کے کہنے کے مطابق 23کروڑ لوگوں کو انکے طریقے سے زندگی گزارنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔۔۔اس لئے اجتماعی طور پر اپنے آبا کی سرزمین پر شان سے جینے کی متبادل راہیں بھی ہموار کرنی پڑیں گی ۔ ترقی وبقاء کے لئے بیک وقت قلیل المیعاد ،وسط المیعاد اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنی پڑے گی ۔۔ میں نے اپنی زندگی بھر کے مشاہدے۔ اور پھر 1997 سے تحریک شناخت کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے کتب کا مواد جمع کرنے کے لئے دنیا بھر میں پھیلے مسحیوں سے رابطوں کی بدولت میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دیار غیر میں بھی سکھ سے محنت کش مسیحی ہیں یا وہ جو جنہوں نے یہاں بھی شان سے جینے کے لئے مسلسل محنت لگن ،صبرِ والی راہوں کا انتحاب کیا ۔۔ باقی محرومیوں و مذہب کے سوداگر اور جمہوری غلام پر سکون معاشروں میں بھی بے چین اور بے سکونی کی زندگیاں ہی گزار رہے ہیں ۔ اور اگر مادی آسائشیں ہیں بھی تو شعوری و فکری طور پر وہی کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے ۔۔ایسی ہزاروں مثالیں ہے ۔ایک یہاں ایک مثال حاضر ہے ۔۔افواج پاکستان کی تنیون اکیڈمیوں میں اعزازی تلوار حاصل کرنے والے تینوں مسیحی امریکہ ،کیینڈا اور نیوزی لینڈ میں وہاں کے معاشروں کے حساب سے بھی بڑی عزتِ دارانہ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ یعنی اگر آپ معروضی حالات سے مقابلہ کرتے یہاں مقام بناتے ہیں۔ تو دیار غیر میں بھی شان سے جینے کی راہیں ہموار ہونے کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔۔(یہ میرے مشاہدے اور ذاتی علم کی بنیاد پر قائم کیا گیا نقطہء نظر ہے آپ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
میجر جنرل معظم جولین کی ترقی اہل وطن کو مبارک ہو بے شک 5 جولائی 2024 اس ملک وقوم اور مسحیوں کی ترقی و بقاء کے لئے ایک اہم سنگِ میل ہے ۔
تحریک شناخت زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔