تحریر: اعظم معراج
وہ مخصوص نشستوں پر پچھلی دو دہائیوں سے مختلف عہدوں پر رہا۔ پڑھا لکھا تھا ،شعلہ بیان مقرر تھا ، مالی آسودگی نے پر اعتماد بھی بنا دیا تھا ۔کسی قومی دن پر مسحیو کے اجتماع میں بطور مہمان خصوصی مدعو تھا ۔ وہاں کے منتظمین روائیتی منافقانہ رویے سے اس کے آگے پیچھے بچھے جا رہے تھے ۔۔لیکن سپاس نامے میں کچھ باغیانہ جملوں کی کاٹ تھی. گو کہ سپاس نامے والے نے لفظوں کا چناؤ بڑی زہانت سے کیا تھا .لیکن ،اسے اس میں وہی روائیتی اشاروں کنایوں میں جمہوری غلام ،خیراتی نشستوں والے ،لاٹری والے لفظوں میں طعنوں مینوں کی بو آرہی تھی ۔گوکہ باقی میزبانوں نے خؤب خؤب تعریفوں کے پل باندھ کر اسے خؤش کیا ۔۔ وہ پچھلے بیس سال سے ان لفظوں کا عادی تھا لیکِن آج اسے یہ کچھہ ژیادہ ہی چھب گئے تھے ۔۔اس کی تقریر کرنے کی باری آئی تو اس نے اپنی کمیونٹی سے سچ بولنے کا فیصلہ کیا ۔اس نے کہا آج میں آپ لوگوں سے سچ بولوں گا ۔۔ میرا خاندانی پس منظر سب کو معلوم ہے ۔بتاو موجودہ اقلیتی انتحاہی نظام نہ ہوتا تو میں کہیں این جی او کا نوکر ہوتا، کسی کم پڑھے لکھے فادر سے گالیاں کھا رہا ہوتا ۔ زیادہ سے زیادہ اپنی این جی او بنا لیتا آپکی گالیاں کھا رہا ہوتا۔ اب کئی سالوں سے اچھے پیسے کما رہا ہوں ۔ بچے باہر پڑھا لئے ہیں ۔ باہر سیٹل کرلئے ہیں۔ مُجھے پتہ ہے، آپ لوگ ہمیں بے ضمیر ، بے حس ،بے شرم ،ہماری شناخت پر عیاشی کرنے والے،اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے ہو ۔یہ غلط نہیں ۔۔لیکن کیا کریں ،تم میں سے اکثریت ان مراعات کا تصورِ بھی نہیں کر سکتے ۔ شروع شروع میں تو کئی کئی دن اس سرور کی وجہ سے نیند ہی نہیں آتی تھی۔ ہمیں پتہ ہے ۔ہم نے آپ کی اجتماعی شناخت کا بھی جنازہ نکالا ہے ۔جب ہم خوشامد کی حدیں پار کرتے ہیں تو لیکِن کیا کریں ہمارے اسٹیک بہت بڑے ہیں ۔ جب ہم اپنے اپنے لیڈروں کے لئے کھوکھلے نعرے لگاتے ہیں ۔۔تو آپ سے زیادہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے ۔۔میرے لیڈر نہ تمہاری میری اجتماعی شناخت کے لئے تُمہارے بچوں تمہاری نسلوں کے لئے اجتماعی طور پر کچھ نہیں کیا ۔۔ لیکن ہم مخصوص نشستوں کی تگ و دو والوں کو یہ پتہ ہوتا ہے ۔کہ اگر اس خوشامد کے زور پر میری لاٹری نکل آئی اور میں سینٹر ،ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی بن گیا یا گئی تو میری نسلیں بدل جائیں گی ہاں ہم کرتے ہیں خوشامد دیتے ہیں دھوکا اپنے آپ کو ،اپنے لیڈر کو، اور سب سے بڑا تم سب کو جنکی شناخت پر یہ سب حاصل ہوتا ہے ۔۔ لیکِن بتاؤ کیا کریں ۔۔؟ جو تمھارے نام پر سیاسی جماعتیں بنا کر بیٹھے ہیں وہ اس مسلئے کو لیکر کوئی منظم تحریک کیوں نہیں چلاتے ،یقین مانے جس دن کوئی منظم تحریک چلی ہم بھی اس میں شامل ہو جائیں گے ۔۔ جب تک آپ لوگ فکری طور پر مظبوط اور عملی طور پر متحرک نہیں ہوتے۔ ہمیں یہ کروڑوں کی لاٹری ٹکٹ/ ترجیحی فہرستوں کے لئے ذلیل ہونے دو ۔۔ ہمیں پتہ ہے ہم کیا بیچ کر کیا خرید رہےہیں ۔ ۔ ہمارے ساتھی بھی تو لائنوں میں ہی لگے ہیں ۔۔ دیکھا ہے آج کل ایک جماعت کے لوگ اپنے اپنے ناموں کے اگے پیچھے ہونے سے کیسے لڑ رہےہیں ۔۔ اس میں سے کوئی نظام بدلنے کے لئے متحرک ہؤا ہے کبھی ۔۔ جب کہ سب جانتے ہیں یہ نظام برا ہے نہ انصافی پر مبنی ہے جمہوریت کی روح کے منافی ہے ۔۔اج یہاں ہی دیکھ لو سب میری خوشامد کر رہےہیں ۔۔ ایک آدھ نے ڈھکے چھپے لفظوں میں بس اس نظام کی مذمت کی ہے ۔۔۔ میں سلام کرتا ہوں۔ اس بزدل باضمیر کو ۔۔ خدارا جب تک تم سوئے ہو ہمیں مال بنانے دو ۔ کیونکہ میں یا اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے جانتے ہیں۔کے ہر قومی پارٹی میں ان 38 سیٹوں میں سے ہمارا حصّہ 13یا 14 ہی ہے۔ قومی پارٹیوں میں 1400 چودہ سو خواتین و حضرات کہیں نہ کہیں خوشامد یا سازش کر رہے ہوتے ہیں ۔۔ہندوں، سکھوں کا بھی یہ ہی حال ہے ۔سکھ تو اس چکر میں اپنا ایک بندہ قتل بھی کر چکے ہیں ۔۔ ہمیں پتہ ہے ۔۔یہ نا انصافی پر مبنی نظام ہے ۔اپ کے ساتھ ظلم ہے ۔۔ہم آپکی شناخت پر کروڑ بلکہ ہم میں سے ایک آدھ تو ارب پتی بھی بن چکے ہیں ۔ہاں ہم بے غیرت ہیں.بے ضمیر ہیں ۔۔ہم جمہوری غلام ہیں۔ہم اپنے جمہوری آقاؤں کے مزاج کے خلاف چوں بھی نہیں کرتے کہ کہیں ناراض ہو کر اگلی دففہ ترجیحی فہرست میں نام ہی نہ آئے۔۔تمیں کیا پتہ ہمیں اپنے جمہوری آقاؤں کے کن کن نوکر چاکروں کی بھی خوشامد کرنی پڑتی ہے۔۔۔لیکن عمل پسندی کا یہ ہی تقاضا ہے ۔۔ مجھے پتہ ہے، یہ نظام بدلے گا۔دیکھ لیجے گا انھی بے شرمی سے کمائے ہوئے پیسوں سے ٹکٹیں بھی ہمیں ہی ملے گی۔ ٹکٹ نہ ملی تو انھی وسائل سے ہم آزاد الیکشن لڑیں گے، انھی پیسوں سے ہم ہی پارٹیاں بھی بنائیں گے۔ ۔۔ہم یا کم از کم میں تو گاندھی ،قائداعظم، نیلسن ،سوبھاش چندر بوس ،بھگت سنگھ نہیں ہوں ۔میں تو بھٹو،عمران خان بھی نہیں ہوں میں عام انسان ہوں مجھے جو ابھی اسٹیج سے بڑا راہنماہ کہا گیا ہے ۔۔ وہ سب جھوٹ ہے ۔کہنے والوں کو بھی پتہ ہے، مجھے بھی پتہ ہے ۔۔ بس جب تک یہ نظام ہے ہمیں بلکہ مُجھے مال بنانے دو ۔ ورنہ میں بھی انقلابی بن کر اقبال، جالب یا فیض کی باتوں میں اکر روتا پھروں گا اور مرزا محمود سرحدی کی طرح روتا گلی گلی گاتا پھروں گا
ہم نے اقبال کا کہا مانا اور
فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں
ہم خودی کو بلند کر تے رہے
جب اس کی یہ تقریر ختم ہوئی تو لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔پھر تالیاں بجنے لگی کچھ سر پھرے جو سخت سوالات کرنے کا سوچ کر آئے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے ساتھیوں کو کہنے لگا
بھائی جو بندہ آتار لے لوئی، تو اسکا کیا کرے گا کوئی۔ اس لئے چپ کرکے یہاں سے نکل چلو اور آگاہی پھیلاتے رہو تاکہ ان کو اسی طرح سچ تو بولنا پڑے ۔
یہ ایک غیر سیاسی افسانچہ ہے ۔کسی بھی سیاسی کردار سے مماثلت اتفاقیہ ہوگی
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔