نیزا بازی کی قدیم افریقی کہانی

 

تحریر: اعظم معراج

پرانے وقتوں کی بات ہے۔افریقہ کی ایک ریاست کیلستان میں قحط پڑا ہؤا تھا۔لوگ روز مرہ کے کھانے پینے کے لئے ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے۔آئے دن کی بغاوتوں نے انارکی اور شاہی خاندانوں کے اللے تللوں نے ملک کو جہنم بنایا ہؤا تھا۔ انھی ہی دنوں یونان میں نیا نیا اولمپکس کے مقابلوں کا انعقاد ہؤا تھا۔ ایک محنت کش کیلستانی کا نوجوان بیٹا جو ملک بھر میں بھی نیزا بازی میں سب سے بہترین تھا۔ وہ نیزا پھیکنے کے مقابلوں میں افریقہ کے تمام ملکوں میں بھی سب سے آگے تھا ۔وہ بھی بھوک سے تنگ اپنے استاد کے ساتھ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یونان پہنچا وہاں اس نے دنیا بھر سے آئے ہوئے نیزا بازوں سے دؤر نیزا پھیکنا، جب یہ خبر اسکے دیس کیلستان پہنچی تو سردار نے ملک بھر میں جشنِ کا اعلان کر دیا۔ بھوک سے مر تے لوگوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ لوگ اپنے گاؤں دیہاتوں ،کھیت کھلیانوں میں رقص کرنے لگے بادشاہ جو بہت پریشان تھا۔ اس نے جشن کے دورانیے میں اضافہ کر دیا ۔شاہی سواری اس محنت کش کے گھر روانہ کردی۔ اس کے ماں باپ کو محل میں بلا لیا۔ اسے انواع اقسام کے کھانے کھلائے جاتے، ساتھ ہی اس نے اس خاندان کے لئے سو بکریوں، دوسو گائیں دینے کا بھی اعلان کر دیا ۔ مقامی سرداروں کو کہا وہ یہ مال مویشی مہیا کریں۔ مقامی سرداروں نے صاحب حیثیت لوگوں سے بکریاں گائیں اکھٹی کی۔ لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پھر شہزادی نے پانچ سو گائیں اور ہزار بھیڑوں کا اعلان کر دیا۔ لوگ اور خؤش ہوگئے۔ کہ چلو ہمارے کسی محنت کش کو بھی قومی خزانے سے کچھہ ملا۔ ایک اور مقامی سردار نے انعام و اکرام کا اعلان کر دیا ہر طرف سے انعام و اکرام کے اعلانات ہونے لگے۔ ایسے میں سیانے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے یہ تو ہمارے سرداروں نے قدیم رومنوں والا کھیل کھیلنا شروع کردیا ہے۔ ہمیں جشن میں لگا کر لگان بڑھائے جارہے ہیں ۔ہمارے ہی مال مویشی چھین کر اس محنت کش خاندان کو دینے لگے ہیں۔ بادشاہ کےایک مشیر نے اسے کہا بادشاہ سلامت لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے ہیں اب بس کردو، ورنہ ہمارا یہ قومی ہیرو بھی متنازعہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جشنِ کے سرور سے فارغ ہوکر جب ان لوگوں کی آنکھیں کھلی تو لوگوں نے پھر رونا پیٹنا شروع کر دینا ہے۔ بغاوت بھی ہو سکتی ہے۔ بادشاہ نے رعونت سے کہا اے بوڑھے دانشمند تم سٹھیا گئے ہو۔ دیکھتے نہیں یہ خبر آنے سے پہلے ہماری کیا حالت تھی؟ اس کے بعد کیا ہے؟ یہ سب بھول بھال کر جشن میں لگ گئے ہیں۔ یہ چند ہفتے گزر جانے دو پھر میں قرضے کے لئے وفود بھیجنے کا اعلان کردوں گا۔ پھر وہ اس آس آمید میں لگ جائیں گے ۔۔ پھر وہ نوجوان نیزا باز بھی پہنچ جائے گا۔ تم تیاری کرو اسے ملک بھر میں شاہی سواری میں لے کر جانا۔ یہ اسکے استقبال میں لگ جائیںگے۔ تب شہر شہر نئے جشن کا آغاز کردیں گے۔ بس تم دیکھتے جاؤ ہمارے خاندان والے ہزاروں سالوں سے ان کیڑے مکوڑوں کو اسی طرح کبھی قبائل ،کبھی زبان کبھی علاقوں کے رسم رواج کے نام سے لوٹتے آئے ہیں۔ آئندہ بھی بھی یہ چلتا رہے گا۔ دعا کرو جب یہ سب ختم ہو گا تو بارش کا موسم شروع ہونا ہے۔ بارش اچھی ہو جائے تو پھر یہ اپنے لئے مکئی، گندم اور جو کا آٹا اور اپنے مویشیوں کے لئے گھاس جمع کر لیں۔ پھر یہ ہمیں کچھ نہیں کہتے۔ اور ہاں جب انھیں پتہ چلے گا۔ کہ یہ سب تو انھی کے مال مویشیوں کے سر پر ہؤا ہے۔ تو تم بوڑھا کونسل سے کوئی ہیرو کو پوجنے پر دیوتاؤں کے خؤش ہونے کی اچھی سی خبر تیار رکھو۔ جسکی بنیاد پر بوڑھا کونسل سے دس سال بعد کی خوشحالی کی پیشگوئی کروا دنیا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ بلاوجہ پریشان مت ہؤا کرو بوڑھے دانشمند نے جھک کر بادشاہ کو سات فرشی سلام کیا اور بادشاہ کے محل سے باہر نکل آیا ۔۔
نوٹ یہ افریقی ادب سے چرائی ہوئی ایک قدیم کہانی ہے ۔ دور حاضر کسی قسم کی صورت حال سے مماثلت اتفاقیہ ہوگی ۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading