تحریک انصاف پر پابندی حکومتی خواہش یا ملکی ضرورت۔۔۔

 

تحریر: ڈاکٹر عادل غوری

سپریم کورٹ اف پاکستان سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ تحریک انصاف کہ حق میں آنے کے بعد عمران خان اور بشری بی بی کے نکاح کیس کا فیصلہ انکے حق میں آنا پھر صنم جاوید کی فوری رہائی عدالتوں کا بڑا ریلیف پاکستان مسلم لیگ ن کیلئے اضطرابی کیفیت کا سبب بن گیا اور حکومت نے تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیاں محدود کرنے کے لئے اس پر پابندی عائد کرنے کی ٹھان لی انتہائی عجلت میں اتحادی جماعتوں سے مشاورت کیے بغیر لیگی رہنما عطا تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں اس کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔

لیکن اس وقت غبارے سے ہوا نکل گئی جب اپوزیشن جماعتوں سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی اسے ناپسندیدہ عمل قرار دیا بادی النظر میں بھی یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ ایک ایسی مقبول ترین جماعت جسے ملک کے تمام صوبوں میں نمائندگی حاصل ہے جو قومی اسمبلی میں سب سے بڑی نشستوں والی جماعت ہے اسے ملکی سیاسی عمل سے خارج کر دیا جائے یہ کسی کی ذاتی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن آئین اور قانون عوامی امنگوں کے منافی ہے
1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے ہی اس ملک کو کبھی بھی اچھے طریقے سے جمہوریت راس نہیں آئی اور ہر دور میں طاقت کے ذریعے مقبول سیاسی جماعتوں کا گلا دبانے کی کوشش کی گئی ہے. تاریخ بتاتی ہے کہ قیام پاکستان کے آٹھ سال بعد ہی جولائی 1954 میں کمونسٹ پارٹی پر پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی پاداش میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

اسی طرح ہر دور میں ظلم زیادتی ناانصافی کے خلاف برسر پکار سڑکوں پر دھرنے دینے والی منظم مذہبی سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کو بھی زیر عتاب لایا گیا 1964 میں ملٹری ڈکٹیٹر ایوب خان نے جماعت اسلامی کو غیر ملکی فنڈنگ کہ الزام میں بین کر دیا عوامی مقبولیت کی وجہ سے یہ جماعت زیادہ دیر تک معطل نہ رہ سکی بلکہ سپریم کورٹ نے اسے عوامی مفاد میں بحال کر دیا۔

تاریخ میں اور آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ جسے زبردست عوامی پذیرائی حاصل تھی اسے 26 مارچ1971 میں ملٹری ڈکٹیٹر جنرل یحیی خان نے کالعدم قرار دے دیا عوامی نیشنل پارٹی کو آٹھ سال میں دو دفعہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا اس جماعت پر پابندی کسی فوجی ڈکٹیٹر نے نہیں بلکہ جمہوریت کے دعویدار ذوالفقار علی بھٹو نے1971 میں عائد کی آج اسی تاریخ کو دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا ملبہ وزیراعظم شہباز شریف اپنے سر لیں گے
سطور بالا میں جتنی سیاسی پارٹیوں پر پابندی کا ذکر کیا گیا ہے ان سب جماعتوں کا قصور سیاسی مقبولیت اور حاکم وقت کی غلط پالیسیوں کے خلاف سرا پا احتجاج ہونا تھا ہر دور میں پس پردہ ملٹری ڈکٹیٹرز نے اپنے بغل بچہ سیاست دانوں کو نوازنے کیلئے مقبول سیاسی جماعتوں کا گلا دبایا ہے جس کی رمک حالیہ پابندی پروگرام میں بھی پس منظر میں نظر آتی ہے گویا ہر دور میں جمہوریت کا قتل جمہوری نمائندوں کے ہاتھوں سے ہی ہوا ہے.
تحریک انصاف پر فارن فنڈنگ اور مذہبی انتہا پسند جماعتوں سے رابطے کے الزامات ہیں میرے خیال میں پاکستان کی کوئی بھی بڑی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے کہ جس کے مذہبی انتہا پسند اور عسکریت پسند جماعتوں سے روابط نہیں ہیں جن کو فارن فنڈنگ حاصل نہیں رہی ان کے فارن اکاؤنٹ منظر ہم پر ہیں
جس طرح بانی پی۔ٹی۔آئی عمران خان کو جیل میں رکھ کر سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش ناکام ہوئی ہے اسی طرح تحریک انصاف کو بین کر کے اسے سیاست سے خارج کرنے کی توقعات پوری نہیں ہو سکیں گی بلکہ اس کی مقبولیت اور حکومت کے خوف میں اضافہ ہوگا پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا تجربہ ماضی میں ناکام رہا ہے مزید یہ بھی ہے کہ پابندی والی جماعت انہی چہروں اور اسی پالیسی کے ساتھ کسی نئے نام سے منظر عام پر ا جاتی ہے اور اس کے پسند کرنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں آتی حکومت کو اختیارات کی تجاوز سے نہیں ووٹ کی پرچی سے مقابلہ کرنا چاہیے. کیا ماضی میں پابندی کا شکار ہونے والی سیاسی جماعتیں عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی آج ملکی سیاسی عمل کا حصہ نہیں۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading