تحریر: ڈاکٹر عادل غوری
کس نے پھر مانگ لیا ہے خون کا اخراج
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
سرگودھا میں ہونے والے ناخوشگوار واقعہ سے متعلق موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق لازر مسیح جس پر قران پاک کے چلائے جانے کا الزام ہے انتہائی تشویش ناک حالت میں مقامی ہسپتال میں زیر علاج ہے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ملزم لازر مسیح کے خلاف متعلقہ پولیس اسٹیشن نے مقدمہ نمبر 24/435 بجرم A
295 اے 295 بی اسی دن با وقت صبح سات بجے درج کر لیا تھا درج .جب کہ ملزم پر بہیمانہ تشدد کرنے اس کا گھر اور کارخانہ جلانے والوں کے خلاف دہشت گردی یا اقدام قتل کا مقدمہ 24 گھنٹے کی تاخیر سے درج گیا ہے. پولیس کا یہ رویہ اقلیت اور اکثریت کے درمیان اہمیت کہ فرق کا واضح ثبوت ہے
میرا دل و دماغ اس بات کو قطعی طور پر تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ کوئی مسیحی قران پاک کی توہین کا مرتکب ہو سکتا ہے. خدا نخواستہ کوئی نہ عاقبت اندیش اگر ایسی ناپاک جسارت کرتا بھی ہے تو اس کیلئے قانون موجود ہے جس کے تحت ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں سزا کیلئے پیش کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود اس بات کی تصدیق کیے بغیر کہ الزام درست ہے یا اس کے پیچھے الزام لگانے والے کے کوئی ذاتی مقاصد ہیں ہجوم مسیحیوں کی بستیاں جلا دیتا ہے چرچز مسمار کر دیتا ہے اور اکثر اوقات ملزم کو ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے
یہ سرگودھا کا واقعہ دیکھ کر مجھے کچھ اور واقعات یاد آرہے ہیں جیسے کچھ سال پہلے قصور میں مسیحی جوڑے شمع اور شہزاد پر توہین مذہب کا الزام لگنے کے بعد انہیں زندہ جلا دیا گیا اب کیسے ثابت ہوتا کہ وہ اس جرم میں گناہ گار تھے یا بے گناہ یا جنہوں نے دو بے گناہ انسانوں کو زندہ جلادیا
میں سمجھتا ہوں کی سزا شمع اور شہزاد کو نہیں بلکہ ان کے بے گناہ بچوں کو دی گئی ہے جن سے ان کے والدین اور ان کا بچپن چھین لیا گیا جو کم سن رشتہ داروں کے گھروں میں یتیمی کی زندگی گزار رہے ہیں
اسی طرح سیالکوٹ میں پرانتھا کمار ا کی لاش کا جلایا جانا پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا سبب بنا ایسے واقعات میں ملوث اشتعال انگیز افراد دین کی سربلندی کیلئے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیتے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی بدنامی کا سبب بنتے ہیں لازر مسیح کے کارخانے کو جب آگ لگائی جا رہی تھی تو اس وقت کچھ لوگ پورے جوش و جذبے کے ساتھ آگ لگانے میں مصروف تھے جب کہ کچھ لوگ ڈبوں میں بند جوتے نکال کر اپنی پسند اور سائز تلاش کر رہے تھے اس سے انکی قوت ایمانی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.
توہین مذہب کا قانون کوئی نیا نہیں ہے بر صغیر پاک و ہند میں جب انگریزوں کی حکومت تھی اس وقت بھی یہ قانون موجود تھا تا ہم مقدمات کے اندراج میں اس قدر شدت نہیں تھی سالوں بعد کبھی کوئی ایک مقدمہ درج ہوتا تھا آج کی دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک امریکہ اور یورپ میں بھی توہین مذہب کا قانون موجود ہے لیکن مقدمات کے اندراج نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ پاکستان میں ہر سال توہین مذہب کے درجنوں مقدمات درج کیے جاتے ہیں گزشتہ سال 2023 میں صرف سرگودھا کے اندر دو مہینوں میں توہین مذہب کے پانچ مقدمات درج کیے گئے آج ہونے والے اس نہ خوشگوار واقعہ سے پہلے اگر اس بات کی تحقیق کی جاتی کہ ان مقدمات کے پیچھے کون سی طاقت ہے تو شاید آج یہ واقعہ پیش نہ آتا۔
جب بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو حکومت مسیحیوں کو دلاسے دینے آجاتی ہے جس میں ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما بھی شامل ہو جاتے ہیں لیکن اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد پھر ایک نیا سانحہ جنم لیتا ہے.
توہین رسالت اور توہین مذہب کے قانون کو مزید موثر اور صاف شفاف بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس میں یہ اضافہ کیا جائے کہ اس مقدمے میں اگر مدعی مقدمہ اپنا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہے تو ان دفعات کے تحت دی جانے والی سزا ہی اسے بھی دی جائے تاکہ کوئی بھی شخص کسی ذاتی رنجش ذاتی مفاد کے حصول کیلئے اس کا سہارا نہ لے سکے۔ اب تک کئی ایسے مقدمات آئے ہیں جن میں استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا لیکن ملزم بے گناہ ہونے کے باوجود کئی سال تک جیل میں رہے نہ صرف وہ بلکہ ان اہل و عیال بھی شدید پریشانی کا شکار رہے
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔