شیشے کا استعمال فیشن کیوں بن گیا؟

 

دھواں دار ماحول

تحریر: ڈاکٹر دیا چوہدری

میں نے اپنی زندگی میں کرکٹ کے میدان میں ہار اور جیت دونوں دیکھی ہیں۔ میدان جنگ میں بھی کوئی ایک فریق دوسرے فریق کو شکست فاش دے دیتا ہے۔ لیکن یہ بات پڑھ کر آپ لوگ حیران رہ جائیں گے کہ میں نے ایک قوم کو کس بھی مقابلے کا سامنا کیے بغیر مکمل طور پر ہارتے ہوئے دیکھا ہے اور اس ہار پر اس قوم کو کوئی شرمندگی یا ندامت محسوس نہیں ہوتی۔
میرا بچپن ایک بہت زیادہ پسماندہ علاقے میں گزراجہاں پر میں نے بہت سارے لوگوں کو سگریٹ اور حقے کے کش لگا کر دھواں اڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔اسکول اور کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے یہ شعور حاصل ہوا کے سگریٹ اور حقہ کا دھواں انسانی صحت کا انتہائی خطرناک دشمن ہے۔اس وقت تک میرا خیال یہ تھا کہ تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث لوگ اپنی زندگی کے قیمتی سرمائے کو دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں مگر میری سوچ کو ایک نیا زاویہ اس وقت ملا جب میں نے یونیورسٹی میں اپنا پہلا قدم رکھا۔بڑے بڑے لیڈروں کے دھواں دار خطاب تو بہت سن رکھے تھے لیکن سگریٹ اور شیشے کے استعمال کی وجہ سے سے اس قدر دھواں دار ماحول پہلی بار دیکھا تھا۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا دس فیصد حصہ ہی ایسا ہے جو یونیورسٹی کی دہلیز پار کر پاتا ہے اور ملک و قوم کی ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔ انہیں دس فیصد نوجوانوں کی اکثریت ماڈرن فیشن کے نام پر سگریٹ کو سٹائل اور جدید حقے کو شیشے کا نام دے کر اپنی جسمانی اور دماغی صلاحیتوں کو برباد کرتی نظر آتی ہے۔ ان میں سے کچھ تو اس کمال میں اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ منشیات کے استعمال کو بھی اپنی یونیورسٹی لائف کےلئے لازم سمجھتے ہیں۔ حالانکہ میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ آپ کے موبائل فون کی سکرین پر ہر چیز کے بارے میں انفارمیشن موجود ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سگریٹ اور شیشے کا انسانی صحت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا بلکہ انکے کش لگانے والا انسان دھواں اندر کھینچتے ہوئے اپنی اور باہر نکالتے ہوئے دوسروں کی صحت برباد کرنے کا باعث بنتا ہے۔جدیدتحقیق یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ سگریٹ اور شیشے کا دھواں پھیپھڑوں کی خرابی کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے دل اور دماغ تک آکسیجن کی سپلائی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے اور انسان لاتعداد بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ قوت مدافعت (immunity system) کمزور ہو جاتا ہے اور انسانی سوچ میں منفی خیالات (negative thoughts) پروان چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں. یوں جن لوگوں نے پاکستان کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانا تھا وہ خود ہی مایوسی کسی اور نا امیدی کے گہرے کنویں میں جا گرتے ہیں۔ میرے مشاہدے کے مطابق اکثر نوجوان اپنے فارغ وقت کو گزارنے کیلئے انجوائمنٹ اور انٹرٹینمنٹ کے نام پر تمباکو نوشی کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں۔اور اس کے بعد پوری زندگی چاہ کر بھی اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔
گورنمنٹ آف پاکستان کی طرف سے ٹی وی چینلز پر سگریٹ کے اشتہار کے ساتھ یہ پیغام بھی دیا جاتا ہے کہ تمباکو نوشی صحت کیلئے مضر ہے۔ گورنمنٹ کا یہ منافقانہ رویہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔جس چیز کے مضر ہونے کا پیغام آپ لوگوں کو دے رہے ہیں اگر خود اس پیغام پر عمل کر لیں تو سگریٹ کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ مگر عرصہ دراز سے عوام کی زندگیاں برباد کر کے منافع کمایا جارہا ہے بربادی کے ذمہ دار بھی خود عوام ہی کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔اگر تھوڑے سے شعور کا استعمال کرتے ہوئے عوام کے بھلے کے بارے میں سوچا جائے تو یہی منافع کسی مثبت چیز کی خرید و فروخت سے بھی کمایا جا سکتا ہے۔ بہت سارے لوگ یہ گلہ کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ ہم تمباکو نوشی شروع تو کر چکے ہیں لیکن اپنی خواہش کے باوجود اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پا رہے۔ان لوگوں کیلئے میرا پیغام ہے کہ اگر عادت چھوٹ نہیں سکتی تو بدلی ضرور جا سکتی ہے۔آپ کو اپنی ول پاور (will power) کا استعمال کرتے ہوئے صرف اتنا کرنا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے کے اوقات میں خود کو کسی مثبت کام میں مصروف کرنا ہے۔ایسا کرنے سے کچھ عرصے بعد نہ صرف آپ تمباکو نوشی چھوڑ چکے ہوں گے بلکہ کسی مثبت اور تعمیری کام کے عادی بن چکے ہوں گے۔ میرے ارد گرد بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں ہیں جنہوں نے اپنی ول پاور کے ذریعے اپنی اس جان لیوا عادت کو مثبت (positive) عادت میں تبدیل کیا اور آج انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے نہایت ہی اہم کام میں مصروف ہیں۔
یاد رکھئے انسان تمباکونوشی کے ذریعے اپنی صحت کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے ماحول کو دھواں دار اور زہریلا بنا دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ جانے کتنی زیادہ زندگیوں کو تباہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ میں آپ لوگوں سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے لئے نہ سہی، اپنے ارد گرد کے معصوم لوگوں کی زندگیوں کا احساس کرتے ہوئے تمباکو نوشی کی عادت کو کسی مثبت اور تعمیری عادت تبدیل کر لیجئے تاکہ معصوم لوگوں کی زندگیاں برباد ہونے سے بچ سکیں۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading