تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
کہتے ہیں کتابیں تنہائی کی بہترین دوست ، علم ادب کا گہوارہ اور سوچ کے موتیوں کا خزانہ ہوتی ہیں۔ان میں ادب کی خوشبو ، علم کی فراوانی ، نظریات کے جال ، حال دل کے قصے ، زمانوں کا ذکر ، قوموں کی تاریخ،اصلاح احوال اور باطنی و خارجی مشاہدات کا عرق شامل ہوتا ہے۔روز اول سے لے کر تا حال لاکھوں ،کروڑوں ، اربوں بلکہ کھربوں کتابیں مشق سخن کی بدولت لائبریریوں ، گھروں ، اسکولوں،کالجوں،یونیورسٹیوں ،ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔
اگرچہ یہ کتابیں انواع اقسام پر مشتمل ہوتی ہیں۔
ہر کوئی اپنی اپنی دلچسپی کے مطابق کتاب پڑھنے کا انتخاب کرتا ہے۔اس دوڑ میں یورپ ہم سے بہت آگے نکل گیا۔جبکہ اہل مشرق کتاب کی قدر و قیمت بھول کر شیشوں میں جوتیاں سجانے میں مصروف ہو گئے۔
اصناف ادب میں مضمون نگاری ادب کی مقبول ترین صنف ہے۔1857 کی جنگ کے بعد اسے لکھنے میں شدت سے تحریک پیدا ہوئی۔ اس کا آغاز و ارتقاء دلی سے ہوا۔سر سید احمد خان اور اس کے رفقاء کار نے اسے بام عروج عطا کیا۔کسی بھی موضوع پر مضمون لکھتے وقت اپنے خیالات و افکار کو مربوط اور مدلدل انداز میں اس طرح ضبط تحریر میں لایا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والا سحر انگیزی میں مبتلا ہو کر پیش کیے جانے والے جذبات و خیالات کا اسیر بن جائے۔مضمون لکھتے وقت تین باتوں کا از حد خیال رکھا جاتا ہے۔
١۔ مضمون کا پیرایہ سادہ ہو
٢۔ مضمون میں جو باتیں پیش کی جائیں وہ دلچسپی و دلکشی کا مظہر ہوں۔
٣۔ مضمون نگار کے دل میں جو بات ہو وہ قاری تک براہ راست منتقل ہو جائے۔اس میں جو کڑیاں بیان کی جائیں وہ ایک دوسرے سے جڑی ہوں۔ان میں ربط تسلسل کا جم غفیر ہو۔اسلوب بیان شستہ و رفتہ ہو۔مناسب مواد کی فراہمی ہو۔ترتیب و تدوین کا ایک سلسلہ ہو۔ علمی و ادبی رچاؤ کی منظر کشی ہو۔
گہری بصیرت اور سخن مشق کے عناصر کار فرما ہوں۔
فکری اور فنی اعتبار سے مضمون کے تین حصے ہوتے ہیں جو مضمون کو دلچسپ، روانی و سلاست، بلاغت، پیراگرافوں کی تقسیم اور اس کی ترتیب برقرار رکھتے ہیں۔
١۔ تمہید :
مضمون کا ابتدائی حصہ تمہید کہلاتا ہے۔اس میں موضوع کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ جس میں مضمون نگار اپنے جذبات ،احساسات، تاثرات، خیالات ، تصورات اور مافی الضمیر کو مناسب اور موضوع الفاظ کے ذریعے قائرین تک پہنچاتا ہے۔اظہار خیال کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔زبانی یا تحریری۔دونوں کی اپنی اپنی جگہ اور حیثیت و مقام ہے۔البتہ تحریری صورت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ مجسم ہو کر ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔جبکہ زبانی کلامی باتیں ہوا کی نظر ہو جاتی ہیں۔اگر اس بات پر دلجمی سے غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھی آثار و کیفیات کی بدولت انسان کے رجحانات اور نظریات زندہ رہتے ہیں۔
اس حصے کی ویسی ہی قدر و قیمت ہے جیسے کسی مکان کو تعمیر کرنے سے پہلے اس کا نقشہ تیار کروایا جاتا ہے۔
٢۔ اصل حصہ :
یہ مضمون کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے۔یہ حصہ زیادہ منطقی فکر انگیز اور خیال افروز ہوتا ہے۔اس میں انشاء پرداز اپنے خیالات ، تجربات اور مشاہدات کو الگ الگ پیروں میں تقسیم کرتا جاتا ہے۔ موزوں الفاظ کی مدد سے تحریر کو موثر اور نادر بناتا جاتا ہے۔ ہمیشہ جو لوگ سنجیدہ نثر لکھتے ہیں۔وہ اپنے اسلوب اور معیار کو دوسروں سے بہتر بنانے کی مشق کرتے ہیں۔موقع محل کے مطابق مختلف محاورات، تشبیہات،اشعار اور ضرب الامثال کی بدولت اپنی تحریر میں خوشگوار تاثرات پیدا کرتے ہیں۔
٣۔ اختتامیہ :
اختتام پر مضمون نگار کم سے کم الفاظ میں حاصل کلام کو بیان کرتا ہے۔قواعد و زبان کے خلاف لکھے گئے الفاظ و مرکبات کو حذف کرتا ہے۔یہ اس کی پیشہ ورانہ مجبوری ہے۔ورنہ مضمون جاذبیت اور دلکشی کے رنگوں اور عبارت میں خزاں جیسی صورت اوڑھ لیتا ہے۔
مذکورہ تمہیدی اور شگفتہ بیانی کے بعد میرے لیے یہ بات اعزاز و استحقاق سے پرنمکین ہے کہ مجھے مسز زینت افزا کیلون کی کتاب “چراغ زینت ” پر تاثرات بیان کرنے کا موقع ملا۔ کتاب کی ورق گردانی کے بعد میں کتاب پر اپنی رائے مسلط تو نہیں کر سکتا۔مگر اس کے چند روشن پہلوؤں پر روشنی ضرور ڈال سکتا ہوں۔کتاب پڑھتے ہوئے قاری پر یہ گماں طاری ہو جاتا ہے کہ مصنفہ فہم و ادراک میں منفرد ، سخن مشق میں دسترس، لب و لہجہ میں پختہ شعور ، افکار و نظریات میں مربوط ، نقطہ شناسی میں ماہر ، علمی و ادبی چاشنی سے لبریز اور مضمون نگاری کی روایت سے بخوبی واقف ہے۔ کتاب کے مندرجات میں چار فصلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
١۔ فصل اول:
اس حصے میں 12 عنوانات شامل ہیں۔جس میں مصنفہ کا خاندانی پس منظر ، تعلیم و تربیت ، ملازمت ، حاصلات و ثمرات ، روحانی استحقاق ، صحت بخش زبان ، علمی و ادبی خدمات ، مطالعاتی ذوق اور خواتین کی لیڈرشپ جیسی خوبیاں موجود ہیں۔
فصل دوم :
فصل دوم میں اٹھ ابواب شامل ہیں۔جن میں خداوند یسوع مسیح کی زندگی کے احوال شامل ہیں۔
مصنفہ نے نہایت عرق ریزی ، فرش شناسی اور الہیاتی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے مضامین کو نئے قرینے و سلیقے کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ مضامین کا معیار منطقی،فکر انگیز اور خیال افروز ہے۔
مصنفہ نے قائرین کی دلچسپی قائم رکھنے کے لیے کتاب میں شامل تمام مضامین کو عام فہم زبان اور تشریحی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر اپنی علمی و ادبی بصیرت کو دھندلا نہیں ہونے دیا۔
فصل سوم :
فصل سوم میں چھ ابواب شامل ہیں۔جن میں کرداروں کے احوال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مثلا مریم ، یونا نبی ، ملکہ آستر ، حیوان کی چھاپ ، میری بنت قوم شفا کیوں نہیں پاتی ، بارہ برس سے بیمار عورت کی شفا شامل ہیں۔
فصل چہارم :
فصل چہارم میں پانچ ابواب شامل ہیں۔جس میں قومی خدمات کے احوال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مثال کے طور پر یوم آزادی پاکستان،دفاع پاکستان میں مسیحیوں کا کردار اور چالیس کا عدد شامل ہیں۔
مصنفہ نے اپنے مطالعہ، مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں اپنے مضامین میں علمی ادبی اور صحافتی کردار ادا کر کے تاریخی،جغرافیائی،ثقافتی، مذہبی اور روحانی استحقاق کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ قائم رکھا ہے۔کتاب میں مطالعاتی تجسس کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے شعور و فکر ، محنت و لگن ، تحقیق و جستجو ، خواب و خیال ، امید و بقا کی بوندیں ، فصاحت و بلاغت ، وفا و جفا اور تعلیم و تربیت جیسے عناصر کا چراغ موجود ہے۔میں ان کے تو تجربات ، مشاہدات اور جذبات کی روشنی میں کہنا چاہوں گا۔
زندگی ایک سفر ہے۔
زندگی ایک امتحان ہے۔
زندگی ایک آزمائش ہے۔
زندگی ایک تحفہ ہے۔
زندگی ایک داستان ہے۔
زندگی ایک صبر ہے۔
زندگی ایک وفا ہے۔
زندگی ایک سوال ہے۔
زندگی پانی جیسی ہے۔
زندگی بخارات جیسی ہے۔
زندگی پھول جیسی ہے۔
زندگی پرچھائی جیسی ہے۔
آخر میں ان کی زندگی کے لیے چند اشعار کا نظرانہ!
اس گلی نے یہ سن کر صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
( جون ایلیا)
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
( ثاقب لکھنوی )
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
( خالد شریف )
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
( مرزا شوق لکھنوی)