تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو مزدورں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ امسال بھی یہ دن قومی اور بین الاقوامی سطح پر بڑے جوش و خروش سے منایا جائے گا۔الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کی بات کی جائے گئی۔ ریلیاں نکالی جائیں گی۔ اخبارات ، رسائل اور جرائد میں فیچر لکھے جائیں گے۔ کالموں ، مضامین ، شعر و شاعری اور تقریروں کے ذریعے انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ صدیوں پرانی روایت کو مسخ ہونے سے بچایا جائے گا۔
مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے جھوٹے وعدوں سے ان کا پیٹ بھر دیا جائے گا۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں پوسٹیں ان کے حقوق کیلئے لکھی جائیں گئی۔ دنیا داری رکھنے کیلئے انہیں خراج تحسین بھی پیش کیا جائے گا۔حکومتی سطح پر کچھ اعلانات بھی کیے جائیں گے۔مبصرین اور ماہرین معاشیات کی فردا فردا رائے لی جائیں گئی۔ دنیا کے حالات و واقعات پر پرمغز باتیں ہوں گئی۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی معاشی صورتحال کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ قومی اور بین الاقوامی تنظیمیں مزدورں کے حقوق کیلئے اپنے اپنے منشور و نکات کی روشنی میں آواز بلند کریں گئی۔ ماضی حال اور مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں رنگ برنگے تجزیے پیش کیے جائیں گے۔ اداروں کے سربراہان برملا اس بات کی تائید و توثیق کریں گے کہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں وہ مزدورں کی بدولت ہیں۔ ان کی محنت شاقہ کے باعث دنیا ترقی کے مقام پر کھڑی ہے۔ آج دنیا میں جتنی بھی خوبصورت عمارتیں، گھروں کی آرائش و زیبائش، صنعت و تجارت ، بندرگاہیں ، ریلوے اسٹیشنز ، ایئرپورٹس ، بس اسٹینڈز، ریسٹورنٹس ،پارکس ، اسٹیڈیمز ، اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم ہیں۔ ان سب کی بنیادوں اور تعمیر و ترقی میں مزدور کے خون کا پسینہ ضرور شامل ہے۔کیونکہ انہوں نے اپنی انتھک محنت ، جذبہ خیر سگالی اور وقت کی قربانی دیکھ کر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مزدور کا ہاتھ لوہے کو بھی پگھلا دیتا ہے۔
اقوام متحدہ کے منشور میں عالمی دنوں کو منانے کا رواج ایک اہم پیشرفت ہے۔جو بنی نوع انسان کو اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ہم سب کے کچھ نہ کچھ حقوق و فرائض ضرور ہیں۔جنہیں بروئے کار لا کر ہم اپنی اور دوسروں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ شعور و آگاہی زمانہ بہ انسان کے منشور کا حصہ رہا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کے پس پردہ وسیع القلبی اور وسیع النظری کو فروغ ملا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات و روابط مضبوط ہوئے ہیں۔ کیونکہ دنیا میں ہر فرد، قوم اور معاشرہ تعاون کے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ بلا شبہ قوموں کی ترقی کا راز محنت ، ایمانداری اور کوشش کے راز میں پوشیدہ ہے۔ کیونکہ راز بھی اس وقت تک راز ہے جب تک وہ فاش نہیں ہو جاتا۔ تاریخ قوموں کے عروج و زوال پر خوب ہستی اور اشک بار ہوتی ہے۔
انہوں نے دنیا میں کیا کھویا اور کیا پایا ہے؟ انکی منصوبہ بندی ، کاروبار ، ترجیحات ، منصوبوں کی سنگ بنیاد، تجارت، ایکسپورٹ، امپورٹ اور زراعی منصوبوں نے انہیں کس حد تک استحکام بخشا ہے۔ اگر آج ہم دنیا کی معاشی ترقی کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح کھل جائے گئی کہ محنت اور ایمانداری کامیابی کے وہ پہیے ہیں۔ جو مسلسل چلتے ہیں۔ منزل کا تعقب کرتے ہیں۔ زوال سے بچاتے ہیں۔ محنت کا سبق دیتے ہیں۔ رگوں میں گردش خون کو جاری رکھتے ہیں۔ ہمیں دیگر ممالک کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے اپنے گھر سے لے کر اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے تمام اہداف و مقاصد کا جائزہ لینا چاہیے۔ آئی۔ایم۔ایف کے قرضوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا کر اسے ادا کرنے کی ہمت کرنا چاہیے۔ کیونکہ کوشش ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت فتح کا جھنڈا لہرایا جا سکتا ہے۔ ملکی قرضوں کا بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہم اپنی آسائشوں، فضول خرچیوں ، حماقتوں ، نادانیوں کو چھوڑ کر کفایت شعاری کے فارمولے پر عمل کریں گے۔ مذکورہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنے ملک میں جاری منصوبوں سائنس، ٹیکنالوجی
کاروباری مراکز، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں معشیت کی صورتحال کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر لگتی ہے کہ ہم یورپ کی ہر چیز کا مقابلہ اپنی کرنسی کے ساتھ کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ ہمیں یہ بات سوچنے پر ضرور مجبور کرے گئی کہ عالمی منڈی میں ہمارے روپے کی قدر کیا ہے؟
ہماری ایکسپورٹ اور امپورٹ کا معیار کیا ہے؟ ہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح کیا ہے؟ نوجوانوں کو روزگار دینے کیلئے حکومت کے پاس کیا حکمت عملی ہے؟ آبادی کس حد تک بڑھ چکی ہے؟ کیا حکومت وقت سے 24 کروڑ عوام خوشحالی کی نوید سن سکیں گے؟ مذکورہ حقائق و اثبات ہماری توجہ اس جانب مبزول کرواتے ہیں کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اس حقیقت کی کئی وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر ہم خیالی پلاؤ زیادہ پکاتے ہیں۔ محنت سےعاری ہیں۔
نیت میں فتور کے کانٹے ہیں جن کی جلن اور چھبن دور رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہمیں اپنے ذہنوں کی بند کھڑکیوں کو کھولنا ہوگا۔ پہلے اپنے گھر کا جائزہ لینا ہوگا۔
پھر دوسروں کے گھر کی بات کرنی ہوگئی۔ پہلے اپنے مزدور کی بات کرنی ہوگئی۔ اسے وہ تمام سہولیات اور معاوضہ دینا ہوگا جو اس کے گھر کا چولہا جلا سکے۔کیونکہ گزشتہ پانچ برسوں سے عوام الناس کو مہنگائی، بلوں، ٹیکسز اور اشیائے خوردونوش کے ذریعے جو ان کی تنخواہوں پر ڈاکہ ڈالا گیا ہے۔ وہ تاریخی، تہذیبی ، ثقافتی ، صحافتی اور معاشی لحاظ سے بدنامی کا باعث ہے۔کیونکہ مزدور طبقہ مہنگائی کے ہاتھوں بک گیا ہے۔ قرضوں تلے دب گیا ہے۔ نفسیاتی روگوں میں مبتلا ہو گیا ہے۔خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔
اگر ہم پرائیویٹ سیکٹر میں اجرت کا جائزہ لیں تو وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ 18 یا 20 ہزار کی جاب کرنے پر مجبور ہے۔ یونیورسٹیوں سے ہر سال لاکھوں طلبہ و طالبات فارغ التحصیل ہو رہے ہیں۔ نوکریاں نہ ملنے پر نوجوانوں کا رجحان بیرون ملک بڑھ رہا ہے۔ لہذا صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے کچھ ایسے عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان اپنی قسمت آزمانے کیلئے باہر نہ جائیں بلک اپنے ملک میں رہ کر قوم ملت کی خدمت کر جا سکیں۔ ضرورت محض حب الوطنی ، منصوبوں کی بنیاد ، ایمان و عمل اور جدوجہد کے پہاڑ کھودنے پر مبنی ہے۔
بلا شبہ مزدور اپنی مزدوری کا حقدار ہے۔ کیا ہمارے ادارے اور لوگ مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دیتے ہیں۔ یہ ایک بنیادی اور معروضی سوال ہے۔جو ہمیں مزدوروں کا عالمی دن منانے کی دعوت فکر دیتا ہے۔ اگر ہم ایماندار ، محب وطن اور قوم پرست لوگ ہیں۔ تو ہمیں اپنے مزدور بھائیوں کیلئے ایسا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے جو ان کی بنیادی ضرورتوں سے لے کر خوش حالی کے سفر تک ساتھ دے ۔حکومت وقت، قومی اداروں اور پبلک سیکٹر کو اس وقت مزدور کے مستقبل کی بہترین منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ بھی اپنے خاندان کی بہتر طور پر تعلیم و تربیت کا بندوبست کر سکے۔اس سے ملک و قوم کا نام روشن ہوگا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملے گئی۔ عزت و وقار میں اضافہ ہوگا۔ بلکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بھی بول بالا ہوگا۔