عمانویل اقبال
(قسط2)
میں مین بازار میں پہنچ گیا تھا۔ ہر طرف لوگوں کا رش تھا۔ تھوڑے فاصلے پر کرائسٹ چرچ کا گیٹ تھا۔ ہر شخص کی کوشش تھی گیٹ تک پہنچا جائے۔ لوگوں کی ہاہاکار اور ایمبولینس کے سائرنوں کی آوازوں نے شور مچا رکھّا تھا۔ میں رش میں گھسا کوشش کر رہا تھا کہ جلدی آگے پہنچوں۔ دھماکا کرائسٹ چرچ کے گیٹ کے باہر سڑک پر ہوا تھا۔ یہ سُن کر کچھ حوصلہ ہوا کہ ابھی چرچ سروس ختم نہیں ہوئی تھی اور ہجوم زیادہ نہ تھا۔ میں ہجوم کو چیرتا ہوا بالآخر چرچ کے گیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ لاشیں ایمبولینسز میں لے جائی جا چکی تھیں۔ زخمیوں کو بھی لے جایا جا چکا تھا۔ پولیس لوگوں کو موقعِ واردات پر جانے سے روک رہی تھی۔ میری چرچ کے بہت سے ممبران سے دوستی تھی۔ خوش قسمتی سے مجھے ایک لڑکا نظر آگیا جو چرچ کی طرف سے پولیس کے ساتھ مل کر ہجوم کو روک رہا تھا۔ میری جینز کی جیب میں میرا ڈیجیٹل کیمرہ تھا۔ جیسے ہی میں کمرے سے نکلنے لگا تھا میری نظر ٹی وی پر رکھّے کیمرے پر پڑی تھی اور میں نے اُسے اٹھا کر جلدی سے جیب میں ڈال لیا تھا۔ اُس وقت یہ اچانک ہوا تھا لیکن اب مجھے جو خیال آیا تو جلدی سے اسے باہر نکال لیا۔
اُس لڑکے نے پہچان کر مجھے ہاتھ کے اشارے سے آگے آنے کے لیے کہا۔ میں جیسے ہی آگے بڑھا ایک پولیس والے نے میرا راستہ روک لیا لیکن لڑکا جلدی سے آگے آیا اور میرا بازو پکڑ کر مجھے تقریباً ہجوم میں سے گھسیٹتا ہوا لے گیا۔ میں نے اپنے اردگرد دیکھا۔ دکانوں کے شٹروں پر، ٹوٹی پھوٹی ریڑھیوں پر، دیواروں پر ہر جگہ انسانی گوشت کے چیتھڑے چپکے ہوے تھے۔ سڑک پر جگہ جگہ خون بکھرا تھا۔ ہوا میں انسانی گوشت، خون اور بارود کی بُو پھیلی ہوئی تھی۔ قریب ہی ایک ریڑھی کھڑی تھی جس پر پتا چلا کوئی بوڑھا برف کے گولے بیچتا تھا۔ عام طور پر وہ چرچ کے سامنے ریڑھی کھڑی نہیں کرتا تھا لیکن اتوار کے روز چونکہ چرچز کے سامنے رش زیادہ ہوتا ہے تو وہ ریڑھی لے کر یہاں آ گیا۔ اُس کا تو پتا نہیں کیا حال ہوا ہو گا لیکن میں نے جب غور سے دیکھا تو نظر آیا ریڑھی کے جنگلے میں انسانی ہاتھ کی دو اُنگلیاں کسی کے دھڑ سے الگ ہو کر چمٹی ہوئی ہیں۔ کئی جگہوں پر انسانی گوشت کے ٹکڑے چمٹے ہوے تھے۔
چرچ کے ساتھ پاسٹر ہاﺅس ہے۔ چرچ کی اپنی سکیورٹی موجود تھی۔ دھماکا کرنے والا سوٹ میں آیا اور یہ ظاہر کرتے ہوے اندر جانے کی کوشش کی کہ وہ کرسچن ہے اور سروس کے لیے آیا ہے۔ جب وہاں موجود سکیورٹی نے چیک کرنے کی کوشش کی تو ان میں دھینگا مشتی ہو گئی اور بیچ سڑک میں ہی اس نے خود کو بم سے اڑا لیا تھا۔
پاسٹر ہاﺅس کا گیٹ بارود کی طاقت سے مڑ چکا تھا۔ گیٹ پر لڑکے موجود تھے جو کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ مجھے گیٹ سے تھوڑا اندر جا کر جھانکنے کا موقع مل گیا۔ وہاں دیواروںپر جابجا گوشت اور خون کے لوتھڑے جمے ہوے تھے۔ فضا میں خون اور گوشت کی بُو پھیل چکی تھی۔ میں کیمرے سے تصاویر بنانے لگا۔
ابھی میں تصاویر بنانے میں مگن تھا کہ لوگوں میں شور بلند ہوا آس پاس کی بستیوں میں مختلف چرچز پر فائرنگ ہونے کی خبریںآرہی ہیں۔ ایک دم سے جیسے میں خواب سے جاگ گیا۔ ہمارے چرچ میں بھی تو سبھی لوگ جمع ہیں۔ میری بیوی اور بچّے بھی۔ اس خیال کا دماغ میں آنا تھا کہ میں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑکر چرچ کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ کچھ فکرمندی، انجانے وسوسے، خوف اور سوچیں؛ میرے پاﺅں من من بھاری ہو گئے۔ جب چرچ پہنچا تو سانس پھولا ہوا تھا۔ جلدی سے جا کر میں نے سب لوگوں کو ہدایت کی کہ یا تو وہ قریب ہی ہمارے گھر میں چلے آئیں یا پھر اپنے اپنے گھروں کی راہ لیں کیونکہ حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔ ہم نے جلدی سے چرچ کی چیزیں سمیٹیں، اُسے لاک کیا اور گھر آ گئے۔
تمام لوگوں کو گھر چھوڑ کر میں دوبارہ باہر آ گیا۔ مجھے اُن دوستوں کاخیال آیا جن کی فیملیز کیتھولک چرچ جاتی تھیں۔ ایک ایک کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ پتا نہیں کون کہاں اور کس حالت میں ہوگا؟ آنکھیں تھیں کہ خودبخود بھیگتی چلی جاتی تھیں۔ دل غم سے بھاری اور قدم بوجھل ہو چکے تھے۔ میں چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتا لیکن تقریباً بھاگ رہا تھا۔ ابھی کیتھولک چرچ کی پچھلی گلی میں پہنچا تھا کہ دیوار کے ساتھ ایک کٹا ہوا سر دیکھ کر میں لرز گیا۔ ایک طرف کی آنکھ اور کان دیوار کے پاس پڑا نظر آ رہا تھا۔ چرچ کی دیوار پر، چھت پر، گلی میں ہر طرف لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تھا۔ میں بھاگتا ہوا چرچ گیٹ کی طرف گیا لیکن رش اس قدر تھا کہ آگے نہ جا سکا۔ وہاں کھڑے ایک پولیس اہلکار کو ساتھ لے کر میں اُس کٹے ہوے سر کی طرف آیا۔ میرے ساتھ ایک دو صحافی بھی اپنے کیمرے تھامے بھاگے آئے۔ اُن کو وہاں چھوڑ کر اب میں چرچ کے اندر جانے کی ترکیب سوچنے لگا۔ میں اندر جا کر، لوگوں سے مل کر اندازہ لگانا چاہتا تھا نقصان کس قدر ہوا ہے؟ لیکن اندر جانے کی کوئی صورت نظر نہ آ رہی تھی اور نہ ہی گیٹ پر موجود اہلکار کسی کو اندر جانے کی اجازت دے رہے تھے۔
یکایک ایک خیال کوندے کی طرح میرے ذہن میں آیا۔ میرے جاننے والوں کی چھت چرچ کے احاطے کے بالکل ساتھ تھی۔ مجھے وہاں سے اندر جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں جلدی سے گلی میں گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرا دوست باہر آیا۔ اُس سے حال احوال پوچھا۔ وہ باقاعدہ آنسوﺅں سے رو رہا تھا۔ اُس نے تباہی کا پورا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انسانی اعضاءاُڑ کر اُن کے صحن اور چھت پر آ گرے تھے۔ زخمیوں کی آہ و پکار، کٹے ہوے جسم، آدھے دھڑ، سر۔ وہ مجھے بتاتا جاتا تھا اور روتا جا رہا تھا۔ میں نے اُسے گلے لگایا، تسلّی دی۔ ہم چھت پر آ گئے اور وہاں سے اُتر کر چرچ کے صحن میں۔
چرچ کا مین گیٹ، جہاں حملہ آور نے خود کو بم سے اُڑایا تھا، اُکھڑ کر تقریباً 10-15 فٹ دور مُڑا تڑا آ پڑا تھا۔ زخمیوں اور لاشوں کو یہاں سے بھی لے جایا جا چکا تھا لیکن بہت سے انسانی اعضائ، پھٹے ہوے کپڑے، جگہ جگہ خون ابھی تک پڑا تھا۔ بچّوں کی بڑوں کی جوتیاں، بچّوں کے کھلونے جابجا خون میں لتھڑے پڑے تھے۔ یہاں بھی چرچ سکیورٹی نے ہی حملہ آور کو روکا تھا اور جب وہ اندر آنے میں ناکام رہا تو اُس نے خود کو مین گیٹ پر ہی بم سے اُڑا لیا۔
میں نے ٹائم دیکھا: ساڑھے تین بج چکے تھے۔ مجھے خیال آیا میں نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہ تھا۔ پانی کا قطرہ تک حلق سے نہ اُتارا تھا۔ جسم میں عجیب قسم کی کمزوری کا احساس ہو رہا تھا۔ گھر واپس آیا۔ چائے بنوائی اور ساتھ کچھ کھایا بھی۔
ٹی وی سکرین پر خبریں چل رہی تھیں۔ زخمیوں کے، مرنے والوں کے نام۔ ٹی وی پر بتایا جا رہا تھا خودکش بمباروں کے دو سہولت کاروں کو لوگوں نے موقعِ واردات سے پکڑ لیا تھا۔ ایک کو پولیس کی وین میں بیٹھا بھی دکھایا گیا۔ زخمیوں کو خون کی ضرورت تھی۔ ہم نے سوچا کیوں نہ ہسپتال جایا جائے۔ اور ہم کچھ دوست ہسپتال جانے کے لیے نکل کھڑے ہوے۔
ہسپتال میں بہت رش تھا۔ زخمیوں اور مر جانے والوں کے ورثاءغم سے نڈھال ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ رش میں میرے ساتھی کہیں ادھر ادھر کھو گئے۔ میں آگے بڑھتا رہا۔ ہسپتال کے اندر کے حالات انتہائی خراب تھے۔ ایمرجنسی وارڈ میں بیڈز ختم ہو چکے تھے۔ کافی سارے زخمی کوریڈورز میں پڑے تھے۔ زخمی چیخ بھی رہے تھے۔ وہ رحم کی اپیل کر رہے تھے۔ ڈاکٹرز، نرسیں اور وارڈ بوائز ان کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر اور دوائیں کم تھیں اور زخمی زیادہ، اور میں حیران کھڑا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں؟ موبائل پر ساتھیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ہو سکا۔ تھک ہار کر اکیلے ہی گھر واپسی کی راہ لی۔
شام ہو چکی تھی۔ ایک عجیب، غم زدہ شام۔ فضا میں ابھی تک گوشت اور بارود کی بُو رچی بسی تھی۔ میں واپسی پر پھر سے کرائسٹ چرچ کے پاس سے گزرا۔ ابھی تک لوگ جائے وقوعہ پر موجود تھے۔ میڈیا والے، پولیس والے اور مقامی لوگ۔ لیکن شام ہونے سے پہلے ایک اور انسانیت سوز واقعہ ہو چکا تھا۔ غم اور غصّے سے بھرے لوگوں نے سہولت کاروں کو پولیس سے چھین کر پہلے مارا پیٹا اور پھر زندہ جلا دیا۔
بالآخر رات ہو گئی۔ نیند تو خیر کوسوں دور تھی۔ صبح سے شام تک ہونے والے تمام واقعات خودبخود کسی فلم کی طرح ذہن میں آ جا رہے تھے۔ تین بجے کے قریب میرا موبائل فون بج اُٹھا۔ میں نے جلدی سے سرہانے پڑا موبائل فون اٹھایا۔ دیکھا تو ہمسایے کا نمبر تھا۔ وہ بڑی رازداری سے بات کر رہا تھا۔ شاید سرگوشیوں میں۔ اس کی اطلاع کے مطابق اس کو کسی نے فون کیا تھا کہ سڑک پر نہ رینجرز ہیں نہ پولیس اور نہ ہی میڈیا والے، اور ہمسایہ بستیوں سے اکثریتی لوگ اکٹّھے ہو کر بستی پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میرے ہاتھ پیر سُن ہو گئے۔ دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ بس بار بار یہی آ رہا تھا:اب کیا ہو گا! پھر میں نے ہمّت جمع کر کے کچھ ایسے دوستوں کو فون کرنے کی ٹھانی جن کا گھر مین سڑک کی طرف تھا۔ اگر کسی نے فون اٹینڈ کیا بھی تو یہی کہا: ”بھائی، افواہیں بہت ساری ہیں۔ پتا نہیں حقیقت کیا ہے؟“ باہر نکل کر دیکھنے کا حوصلہ کسی میں نہ تھا۔
خوف اور دہشت نے نیند اُڑا دی تھی۔ طرح طرح کے خیالوں نے گھیر رکھّا تھا۔ گزشتہ واقعات ایک ایک کر کے ذہن میں تازہ ہو رہے تھے —- شانتی نگر، گوجرہ، تیسر ٹاﺅن، کراچی، بادامی باغ، لاہور —- کس طرح حملہ آوروں نے گھروں کو جلایا، لوٹا۔ لوگوں کو زندہ جلا دیا، مار دیا۔ آنکھیں بند کر کے نیند میں پناہ لینے کی سبھی کوششیں بے سود ثابت ہو رہی تھیں۔ میں اور میری بیوی سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے کہ کہیں بچّے نہ جاگ جائیں۔ وہ اس خوف سے بے خبر سو رہے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے وہ بھی خوفزدہ ہوں۔ اسی دہشت ا ور خوف میں صبح ہو گئی۔ خدا کا شکر ادا کیا کوئی برا واقعہ پیش نہ آیا۔
اگلے کئی روز تک افواہوں کا بازار گرم رہا۔ بازار مکمّل بند۔ ہر طرف سنّاٹا چھایا رہتا۔ انھیں افواہوں سے ڈر کر لوگوں نے گھروں کو تالے لگا کر محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈنا شروع کر دیں۔ بستی روز بروز خالی ہونے لگی۔ ایک طرف اکثریت کے حملوں کا ڈر، دوسری طرف پولیس چھاپے۔ ساری ساری رات چارپائی پر لیٹے کان گلی میں ہر ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی آہٹ پر لگے رہتے۔ کبھی کبھی گلی میں بوٹوں کی دھمک سن کر اس قدر سہم جاتے کہ اپنے ہی سانس کی آواز بم کی طرح سنائی دینے لگتی۔ تقریباً 15 سے 20 روز تک اقلیتّی بستی پر مظالم کے وہ پہاڑ توڑے گئے کہ اسے اپنے اقلیّت ہونے کا ٹھیک ٹھیک احساس ہو گیا۔ بم حملوں میں جو مرے، مجروح ہوے ان کو سب بھول گئے۔ وہی میڈیا، وہی پولیس والے، جو پکڑے جانے والے حضرات کو حملہ آوروں کے سہولت رساں بتا رہے تھے، اِنھیں نے گواہیاں دیں اور مرنے والوں کے نوجوان بچّے گناہ گار قرار پائے۔ پولیس، میڈیا، حکومت سب ایک ہی آواز بولنے لگے۔ اقلیّت نے شاید دو یا تین بوتلیں ان پکڑے جانے والے سہولت پہنچانے والوں پر ڈال کر جلایا تھا، ڈرمّوں کے حساب سے تیل ان کے زخموں پر چھڑکا جانے لگا۔ پہلے نعیم کہا جانے والا محمد نعیم ہو گیا، پھر حافظ محمد نعیم۔ یوں غلام قوم کو سبق سکھانے کا تہیّہ کر کے سب نے غلام قوم کے بچّوں کے خلاف گواہیاں دیں۔ ان میں ہمارے ہمیشہ سچ بات کا پرچار کرنے والے میڈیا پرسن بھی تھے اور اقلیّت سے ووٹ لینے والے ہمارے حکومتی ممبران بھی۔ پانچ چھ سو افراد کے خلاف مقدّمہ درج کر لیا گیا۔ تصویریں تو عام تھیں۔ جس نے آگے گردن نکال کر جلتے ہوﺅں کو دیکھا اسے بھی ڈنڈے کے زور پر ملزم قرار دیا گیا۔ سیڑھیاں لگا کر گھر چار دیواری کا تقدّس پامال کیا گیا۔ ایسے واقعات بھی ہوے کہ رات کو دیواریں پھلانگ کر عورتوں سے دست درازی کی گئی۔ اگر شکایت کی گئی تو پولیس نے یہ ماننے سے ہی انکار کر دیا کہ وہ پولیس والے تھے حالانکہ وہ لوگ پولیس کی گاڑی میں، پولیس کی وردیاں پہن کر ہی، آئے تھے۔ سیکڑوں افراد میں سے کچھ کو مار پیٹ کر چھوڑ دیا گیا۔ بہت سے اب بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ سننے والا کوئی تھا، نہ ہے۔ کس سے فریاد کریں! غلام جو ٹھیرے!