تحریر: فراز ملک
آپ سب جانتے ہیں کہ میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں تمام طرز انتخاب یعنی دوہرا ووٹ، جداگانہ انتخاب، متناسب نمائندگی اور مخلوط انتخاب پر مدلل گفتگو کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ذکر بالا تمام طرز کے انتخابات پاکستانی اور خصوصی طور پر مسیحی برادری کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دہ ہیں۔ میں نے یہ بھی تحریر کیا کہ پوری دنیا میں دوہرا ووٹ کہیں رائج نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی بنیادوں پر کسی قوم کو دوہرا ووٹ ملنا چاہیے۔ ووٹ ملکی شہریت کے حوالے سے ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اور شہریت کے حوالے ہی سے ہر شہری کو ووٹ کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ ایک شہری کو ایک ووٹ شہریت کی بنیاد پر دیا جاۓ اور بعین ہی ایک ووٹ مذہب کی بنیاد پر دیا جاۓ۔ یہ اکثریت کے ساتھ سراسر نا انصافی ہو گی کہ اقلیتی افراد تو ڈبل ووٹ کا حق رکھیں اور اکثریتی افراد کے پاس ایک ووٹ کا حق ہو۔ لہذا ایک شہری ایک ووٹ ہی جائز بات ہے۔
جداگانہ انتخاب تو ایک ہی ملک میں بسنے والے شہریوں کے درمیان جانبداری، مذہبی تفریق، مذہبی نفرت اور مذہبی تعصب پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ لہذا جداگانہ انتخاب مسیحی قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ ہاں دنیا میں سب سے موثر، بہتر اور رائج الوقت مخلوط طرز انتخاب ہی ہے۔ جس میں ایک ہی ملک میں آباد تمام شہری مذہبی، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی جانبداری کی نفی کر کے کلی طور سے شہریت کی بنیاد پر ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔ یہ سو فیصد درست ہے کہ مخلوط طرز انتخاب ہی سب سے بہتر ہے لیکن پاکستان میں مذہبی تعصب اور مذہبی جانبداری کی بنیاد پر اکثریت اپنے ہم مذہب نمائندگان کے مقابلے میں اقلیتی نمائیندوں کو ووٹ دینا عدم برداشت کے تحت کفر اور حرام سمجھتے ہیں لہذا اقلیتی نمائندہ اکثریتی نمائیندے سے خواہ لاکھ درجے بہتر ہی کیوں
نا ہوں مگر وہ اکثریتی عوام کے ووٹ کا حقدار نہیں ہو سکتا لہذا اقلیتی امیدوار اس فلسفہء ووٹ کو سمجھتے ہوئے اکثریتی امیدوار کے مد مقابل الیکشن میں حصہ لینے کی جرات ہی نہیں کرتے چنانچہ پاکستان کی اقلیتیوں اور خصوصاً مسیحی برادری کو مخلوط طرز انتخاب بھی ہرگز سوٹ نہیں کرتا لہذا مختلف حکومتوں نے اقلیتوں کے اس سیاسی مسئلے کو محسوس کرتے ہوے ایک طرز انتخاب متناسب نمائندگی کےحوالے سے ایک آمرکی جانب سے عطا کیا گیا ہے جسے ہم سلیکشن سسٹم کہتے ہیں۔ اس طریقہء کار کے مطابق اکثریتی سیاسی پارٹیاں الیکشن لڑتی ہیں اور ان کی کامیابی کے مطابق انہیں اقلیتوں کے لیے سیٹیں دی جاتی ہیں اور ان کے مقرر کردہ افراد کو قومی اور صوبائی اسمبلی کا نمائندہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اقلیتی نمائندگان ووٹ لے کر نہیں بلکہ اپنی پارٹی کی سلیکشن کے ایماء پر اسمبلی کے نمائندہ بنتے ہیں۔ اس طریقہء کار سے اقلیتی افراد اسمبلی میں تو پہنچ جاتے ہیں مگر اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ اقلیتی افراد اپنی برادری کے سیاسی راہنما اور چنیدہ لیڈر نہیں ہوتے بلکہ جو اپنی پارٹی کا سب سے بڑا خدمت گزار ہو اسے ہی اسمبلی کے لیے نامزد کر دیا جاتا ہے خواہ وہ اسمبلی میں جانے کے قابل ہو یاں نہ ہو۔ بہرحال یہ افراد اپنی برادری کے نمائندے ہرگز نہیں ہوتے بلکہ اپنی اکثریتی پارٹی کے نمائندہ ہوتے ہیں اور ان کے اشاروں پر ہی ناچتے رہتے ہیں۔ لہذا انتخاب کا یہ طریقہء کار بھی اقلیتوں کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ نقصان دے ہے اس لیے اقلیتوں کو یہ طرز انتخاب منظور نہیں۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کہ پاکستان کی اقلیتیوں اور خصوصاً مسیحی اقلیت کو نہ دوہرا ووٹ سوٹ کرتا ہے نا جداگانہ، نہ مخلوط اور نہ ہی متناسب نمائندگی سوٹ کرتی ہے تو پھر وہ کون سا طریقہء انتخاب ہو سکتا ہے کہ جو مسیحی اقلیت کے لیے فائدہ مند بھی ہو اور مسیحی اقلیت اسے قبول بھی کرتی ہو تاکہ حکومت خود ہی اقلیتوں کے لیے ایک الیکشن یا سلیکشن سسٹم مقرر کر کے اسے اقلیتوں پر مسلط کر دے۔ میں نے بڑی سوچ و بچار کے بعد ایک طریقہ ایسا سوچا ہے کہ جو اقلیتوں کے لیے فائدہ مند بھی ہو، مسیحی نمائندگان مسیحی قوم کے منتخب کردہ بھی ہوں اور یہ طرز انتخاب مسیحی قوم کو منظور بھی ہوں۔
میں حکومت پاکستان اور الیکشن کمشن کو مشورہ دیتا ہوں اور اقلیتی افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ جو فارمولا میں نے سوچا ہے اس پر اپنی راۓ ضرور دیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پاکستانی اقلیتوں کو نہ دوہرا ووٹ دے، نہ جداگانہ انتخاب دے اور نہ ہی سلیکشن سسٹم دے، حکومت کو مزید چاہیے کہ متناسب نمائندگی کو قطعی طور پر ختم کر دے اور جو قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی دس نشستیں مختص کی گئی ہیں ان کی نمائندگی کا یہ طریقہء کار اپنائے کہ پورے ملک میں دس اقلیتی نشتیں مقرر کر دی جائیں اور حکم جاری کیا جاۓ کہ یہاں سے کوئی اکثریتی فرد الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ ان مختص شدہ نشستوں پر صرف اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ ان حلقوں میں مقیم تمام مسلم، ہندو، سکھ اور مسیحی ووٹ دے کر ان اقلیتی ارکان کو منتخب کریں۔ ان حلقوں کی تقسیم کچھ اس طرح ہونی چاہیے۔ ایک حلقہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں اقلیتوں کے لیے مختص کیا جاۓ۔ ایک حلقہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں۔ بقیہ چھ نشستیں پنجاب میں کیونکہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہےاور دو نشستیں صوبہ سندھ کو دی جائیں۔ کیونکہ سندھ میں کچھ ایسے اضلاع بھی ہیں جہاں پر بہت سے دیہات ہندو آبادی پر مشتمل ہیں وہاں سے ہندو مخلوط انتخاب میں بھی حصہ لے کر ایک دو نشستیں جیت سکتے ہیں۔ لیکن پنجاب میں چھ نشستوں کی تقسیم اس طرح کی جاۓ کہ ایک حلقہ لاہور میں، ایک حلقہ راولپنڈی میں، ایک فیصل آباد ، ایک سیالکوٹ ، ایک ملتان اور ایک بہاولپور میں حلقہ اقلیتوں کے لیے مختص کیا جاۓ۔ ایک اور بات نہایت اہم ہے کہ یہ حلقہ جات وہ نہ ہوں جہاں مسیحیوں کی آبادی زیادہ ہے۔ بلکہ یہ حلقے وہ ہونے چائیں جہاں مسلم کی تعداد زیادہ ہو۔ اور اقلیتی آبادی کی زیادہ تعداد والے حلقوں میں مسلم نمائندے الیکشن لڑیں تاکہ مسلم ووٹرز کی عادت بنے کہ وہ اقلیتوں کو ووٹ دینا بھی سیکھیں اور اقلیتیں مسلم کو ووٹ دینا سکھیں۔ اگر وطن عزیز میں دو چار الیکشن اس طریقہء کار سے کرواۓ جائیں گے تو اکثریتی ووٹرز اقلیتوں کو ووٹ دینا سکھ جائیں گے۔ سو اس طرح ہم پورے ملک کے ووٹر بلا امتیاز رنگ، نسل اور مذہب خالصتاً قابلیت کی بنیاد پر ووٹ دینا سیکھ جائیں گے اور ہم قومی اسمبلی میں درست اور قابل نمائندے بیھج سکیں گے۔ اسی فارمولے کے تحت صوبائی اسمبلی کے لیے اقلیتی نمائیندوں کی سیٹیں مختص کی جائیں اور صوبائی الیکشن بھی اسی طریقہء کار کے تحت کرواۓ جائیں۔ یاد رکھیے کہ اس طرز انتخاب کے ساتھ ساتھ مخلوط انتخاب کا دروازہ بھی اقلیتوں کے لیے کھلا رکھا جاۓ تاکہ جو اقلیتی افراد جنرل سیٹ سے الیکشن لڑ کر اسمبلی تک پہنچنا چاہتا ہے اس کے پاس چوائس ہو کہ وہ مختص حلقہ سے بھی الکشن لڑ سکتا ہے اور مخلوط طرز انتخاب کے تحت بھی قسمت آزمائی کر سکتا ہے۔ ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ قومی اسمبلی کے لیے کوئی بھی اقلیتی فرد ملک کے مختص شدہ حلقوں میں سے کسی حلقے یاں ایک سے زیادہ حلقوں پر بھی الیکشن لڑ سکتا ہے۔ یہی اصول صوبائی حلقوں پر بھی اپنایا جاۓ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اقلیتوں کی موثر نمائندگی کے لیے یہ طریقہء کار سب سے اعلی ہے اور اقلیتوں کے فائدے میں ہو گا اور اقلیتوں کا دیرینہ مطالبہ بھی پورا ہو جاۓ گا کہ ہمیں اپنے نمائندے خود منتخب کرنے دو۔ تمام اقلیتی اور اکثریتی قارئین سے درخواست ہے کہ اپنی راۓ ضرور دیں۔