سلیکشن سسٹم= متناسب نمائندگی فراز ملک


دوستو جیسا کہ میں دوہرے ووٹ، جداگانہ انتخاب اور مخلوط انتخاب پر سیر حاصل بات کر چکا ہوں اور یہ بھی بتا چکا ہوں کہ دوہرا ووٹ اور جداگانہ انتخاب کسی صورت بھی پاکستان کی اقلیتوں کے حق میں نہیں ہیں بلکہ کافی حد تک اقلیتوں کے نقصان اور زوال کا باعث ہیں۔ ہاں مخلوط طرز انتخاب ہی رائج الوقت اور بہترین طرز انتخاب ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر پاکستان کی اقلیتوں کو یہ طریقہ انتخاب بھی پوری طرح سوٹ نہیں کرتا۔ شاید ان نقصانات کو مختلف حکومتیں محسوس کرتی رہی ہیں اور وہ بھی سمجھ گئی ہیں کہ پاکستان کی اقلیتیوں کو جداگانہ اور مخلوط طرز انتخاب سوٹ نہیں کرتے جبکہ اس کے برعکس دوہرا ووٹ تو ممکن ہی نہیں ہے لہذا حکومت نے اقلیتوں کے حق رائے دہی کے بنیادی حق سے محرومی کو جانتے ہوۓ ۔ ان پر نام نہاد احسان کیا اور ان کی اشک شوئی کے لیے اقلیتوں کو متناسب نمائندگی یاں سلیکشن سسٹم کا میٹھا زہر دینے کا فیصلہ کیا اور قومی اسمبلی میں پورے ملک سے تمام اقلیتوں کو ملا کر 10 نشستیں مخصوص کی ہوئی ہیں۔ جن کی تعداد آج تک نہیں بڑھی۔ اس نمائیندگی کا طریقہ کار یہ ہے کہ ملک کی مختلف سیاسی جماعتیں الیکشن لڑتی ہیں اور جو پارٹی جتنی سیٹیں جیتتی ہے اسے اسی تناسب سے اقلیتی نشستیں الاٹ کر دی جاتیں ہیں۔ مثلاً اگر ایک جماعت پورے ملک سے ساٹھ نشستیں جیتی ہے تو اپنی پارٹی کے نامزد دو اقلیتی ارکان کو قومی اسمبلی میں لا سکتی ہے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلیوں میں بھی صوبائی سطح پر ملکی سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی دی جاتی ہے۔
یہ درست ہے کہ ملکی سطح پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی ہو جاتی ہے لیکن اس طرز انتخاب کے دو چار فوائد اور کافی سارے نقصانات بھی ہیں سو آئیے پہلے ہم سلیکشن سسٹم کے فوائد پر غور کر لیں اور اس کے بعد اس کے نقصانات پر بھی بات کریں گے لہذا اس سسٹم کا پہلا فائدہ اقلیتوں کی بجاے حکومت کو زیادہ ہوتا ہے کہ وہ اقلیتوں کی نمائندگی کے لیے کوئی اور طرز انتخاب تلاش کرنے کی بجاۓ آسان ترین طریقہء کار کو اپنا کر ملکی اور بین الاقوامی طور پر اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنے والی اور برابری کے حقوق فراہم کرنے والی حکومت بن جاتی ہے۔ اس طرح حکومت پاکستان دنیا میں اپنا مقام بڑھا لیتی ہے۔
دوسرا فائدہ حکومت کو یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو انتظامی امور کے گورکھ دھندے میں ڈالنے کی بجاۓ متناسب نمائندگی دے کر آپ آرام اور سکون میں رہتی ہے۔یہ تو تھا متناسب نمائندگی کے حکومت کو ملنے والے فوائد کی بات۔
اب رہی اقلیتوں اور خاص طور پر مسیحی اقلیت کی بات تو ہم دیکھتے ہیں کہ مسیحی اقلیت کو سلیکشن سسٹم کے کیا فوائد حاصل ہیں۔ اس کا جواب قدرے طویل اور تکنیکی ہے لہذا اسے غور اور دانشمندی سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
پہلا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسیحی نمائندے کڑوروں روپے خرچ کرنے کے بغیر ہی ایم این اے اور ایم پی اے بن جاتے ہیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دن رات کی محنت مشقت اور ترلے منتیں نہیں کرنی پڑتیں، جسمانی بھاگ دوڑ کی مصیبت چھوٹ جاتی ہے اور سلیکشن سسٹم کا امیدوار شہروں اور دیہاتوں کے چکر لگانے کی بجاے اپنی پارٹی کے لیڈران کی خدمت کر کے اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے۔ ویسے بھی اگر منصف بن کر دیکھا جاۓ تو جب تک مسیحی قوم کے پاس ملک گیر سیاسی پارٹیاں نہ ہوں تب تک انہیں اسی سسٹم کے تحت انتخاب میں حصہ لینا چاہیے۔ مسیحی قوم کے لیے یہ سسٹم اس وقت تک بہتر ہے جب تک ملک میں باقاعدہ مسیحی سیاسی پارٹیاں وجود میں نہیں آ جاتیں۔ دیکھا جاۓ تو ہر مسیحی بغیر سوچے سمجھے بطور فیشن اور اسے انقلابی نعرہ سمجھ کر یہی کہتا ہے کہ ” سلیکشن نہیں الیکشن” مگر اس پر غور کوئی نہیں کرتا کہ سلیکشن کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں اور اسی طرح الیکشن کے مسیحی قوم کو کیا فوائد ہیں اور کیا نقصانات ہیں۔ دوسری صدا جو ہر مسیحی فرد کے مونہہ سے طوطے کی طرح سنائی دیتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے سلیکشن سسٹم کے تحت بننے والے ایم این اے اور ایم پی اے صرف اپنی اپنی پارٹی کے غلام ہوتے ہیں اور وہ بجاۓ اپنے مسائل پر آواز اٹھانے کے اپنی پارٹی کی زبان بولتے ہیں۔ یعنی وہ ایک غلام ایم این اے اور ایم پی اے ہوتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ پہلے میں ان دونوں سوالوں کا جواب دے لوں۔
سلیکشن نہیں الیکشن
مسیحی لیڈر، لیڈر نماء، نام نہاد لیڈر اور عوام جو سلیکشن نہیں الیکشن کا نعرہ لگاتے ہیں انہیں یہ علم و شعور ہونا چاہیے کہ سیاسی الیکشن کے کچھ لوازمات ہوتے ہیں جن کے بغیر نہ تو الیکشن ہو سکتا ہے، نا ہی الیکشن کے درست نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور نہ ہی الیکشن کا کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ آئیے ہم ان لوازمات پر غور کر لیں تو ہمیں پتا چل جاۓ گا کہ وقتی طور پر مسیحی قوم کے لیے سلیکشن سسٹم ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ تو عرض ہے کہ سیاسی الیکشن کے لیے سیاسی پارٹیوں کا ہونا ضروری ہے۔ بغیر سیاسی پارٹیوں کے الیکشن غیر سیاسی الیکشن ہوں گے۔ جب آپ قومی اور صوبائی اسمبلی کا ممبر بننے جا رہے ہوں اور غیر سیاسی الیکشن جیت کر سیاسی خدمت گزاری کے لیے جا رہے ہوں تو یہ کتنی غیر منتقی بات ہے آپ الیکشن تو غیر سیاسی لڑیں اور کام سیاسی کریں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم سیاسی الیکشن سیاسی پارٹیوں کے تحت جیت کر اسمبلی میں جائیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کر لیں کے پاکستانی مسیحی قوم کے پاس کون سی ایسی سیاسی جماعت ہے جو پورے ملک میں مقبول حیثیت رکھتی ہو؟ اب دوہرا ووٹ اور جداگانہ انتخاب کے حامی مجھے یہ بتائیں کے پاکستان میں مسیحیوں کی وہ کون سی سیاسی جماعت ہے جو پورے ملک میں اپنے نمائندے کھڑے کر سکتی ہے؟ وہ کون سی ایسی مسیحی سیاسی جماعت ہے جو پورے ملک میں یعنی ہر پولنگ سٹیشن پر بمعہ مرد و خواتین ہر پولنگ سٹیشن پر اپنے پولنگ ایجنٹ کھڑے کر سکتی ہے؟ میری نگاہ میں مسیحیوں کے پاس کوئی ایسی سیاسی پارٹی موجود ہی نہیں ہے کہ جس کے ہر ضلع, ہر شہر، اور ہر گلی محلے میں پارٹی ممبر موجود ہوں۔ جب مسیحیوں کے پاس سیاسی پارٹیاں ہی نہیں ہیں تو سیاسی الیکشن کس طرح مانگ رہے ہیں۔ اگر انہیں کسی نہ کسی صورت الیکشن دے بھی دیے جائیں تو پھر وہ لوگ منتخب ہو جائیں گے جن کی برادری بڑی ہو گی۔ جن کی رشتے داری بڑی ہو گی جس کے پاس دولت زیادہ ہو گی۔ یعنی جیتنے والے کے لیے پڑھا لکھا ہونا، سیاسی کارکن یاں سیاسی مدبر ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر ہم غیر سیاسی لوگوں کو اسمبلی میں بھیجیں گے تو ہم کس طرح توقع کر سکتے ہیں کے وہ سیاسی فیصلے کریں گے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے سیاسی پارٹیاں بنایئں اور پورے ملک میں ان سیاسی پارٹیوں کے ممبرز موجود ہوں، ہمارے پاس حقیقی سیاسی لیڈرز موجود ہوں تو پھر ہم یہ کہیں کے سلیکشن نہیں الیکشن۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی دس نشستیں ہیں اگر الیکشن ہو بھی جاے تو پوری دس کی دس نشستیں تو مسیحی قوم کو نہیں مل سکتیں اس میں آدھی سے زیادہ تو ہندو برادری لے کے جا سکتی ہے اور کچھ مسیحیوں کے حصے میں آنی چاہیں اور ایک آدھ سکھوں کو بھی ملنی چاہیے۔ یوں کہہ لیجیے کہ اگر دس نشستوں پر الیکشن ہو تو پانچ نشستیں تو ہندو برادری لے جاۓ گی چار مسیحیوں کے حصے میں آئیں گی اور ایک سکھ بھائیوں کو ملے گی۔ اب مجھے بتائیے کہ پوری قومی اسمبلی میں چار مسیحی ایم این اے کیا قعلہ فتح کر لیں گے؟ حقیقتاً ہو گا یہ کہ یہ چار مسیحی اپنی طاقت بڑھانے، فنڈز اور مراعات لینے کے لیے مقتدر پارٹی کے ساتھ مل جائیں گے۔ اور اسی پارٹی کی حمایت کریں گے۔ یعنی وہی نتائج نکلیں گے جس کے لیے ہم کہہ رہے ہیں سلیکشن نہیں الیکشن۔ اگر نتائج وہی برآمد ہونے ہیں جو سلیکشن سے ملنے ہیں تو الیکشن میں قوم کے اربوں روپے لگا کر وہ نتائج حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ سلیکشن سسٹم کے ذریعے وہی نتائج مفت میں ہی حاصل کر لیں۔
سلیکشن سسٹم کا سب سے بڑا نقصانات یہ ہیں کہ اس طریقہء کار سے وہ نمائیندے سامنے آ جاتے ہیں جن کے ” چوہدری” تگڑے ہوتے ہیں۔ ممبر قومی و صوبائی اسمبلی چاہے کتنا ہی کمزور، کم تعلیم یافتہ اور غیر سیاسی کیوں نہ ہو اگر اس کی حمایت کرنے والا چوہدری تگڑا ہے تو پہلے دوسرے نمبر پر وہی نام ہو گا جو اس نے تجویز کیا ہو۔ اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس سسٹم کے ہوتے ہوے مسیحی قوم میں سیاسی نظریات فروغ نہیں پائیں گے، سیاسی لیڈرز پیدا نہیں ہوں گے، سیاسی پارٹیاں مظبوط نہیں ہوں گے اور مسیحی قوم کبھی بھی سیاسی طور پر متحد نہیں ہوگی۔
اس لیے ہمیں سلیکشن سسٹم ہرگز سوٹ نہیں کرتا لیکن جب تک ہمارے پاس کوئی بہتر اور واضح الیکشن کا طریقہء کار نہیں نکل آتا تب تک ہمیں سلیکشن سسٹم ہی قبول کرنا چاہیے اور جب ہمارے پاس اقلیتوں کے لیے کوئی بہتر اور واضع طریقہء کار نکل آے تب ہمیں اس طریقہء کو ترک کر کے اس بہتر طریقہء کار کی حمایت کرنی چاہیے۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading