تاریخ ساز الیکشن 2024

 

تحریر: فراز ملک

دیکھا جاۓ تو ہر ایک الیکشن میں کئی ریکارڈ ٹوٹتے اور کئی بنتے ہیں۔ لیکن یہ ریکارڈ حاصل کردہ ووٹوں کی حثیت سے ہوتے ہیں یا پارٹی کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے ہوتے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الیکشن میں بڑے برج الٹ جاتے ہیں اور عوام ششدر رہ جاتی ہے۔ مگر ایسے ریکارڈ بننے تو ہر الیکشن کا ایک حصہ ہے اور ہم نے ایسے ریکارڈ بنتے اور ٹوٹتے دیکھے ہیں لیکن الیکشن پلاننگ پر ریکارڈ کا ٹوٹ جانا اور عجیب و غریب یا ناقابل فہم ہونا یہ ہم پہلی بار 2024 کے الیکشن میں دیکھیں گے کیونکہ میری نگاہ میں 2024 کا الیکشن عجیب و غریب اور ناقابل فہم ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دوران اور بعد از الیکشن کے کئی ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے اور کئی نئے ریکارڈ بن جائیں گے۔ یہ بات تو حیران کن لگتی ہے مگر میں کئی ایک دلیلوں اور ثبوت دینے سے اپنی بات کی وضاحت کروں گا۔ آئیے سب سے پہلے اس حیران کن الیکشن کی ترتیب اور اس کے انعقاد اور نتائج پر غور کرتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکشن ہونے سے پہلے ملک کی مقبول ترین سیاسی پارٹی تحریک انصاف کے چیرمین کو گرفتار کر لیا گیا، اس کے بعد پارٹی کے سرکردہ ممبران سے بیان دلواۓ گئے کہ ہم اپنے ہی قائد اور پارٹی چیرمین کو تسلیم نہیں کرتے اور آج پارٹی سے مستعفیٰ ہوتے ہیں۔ اس طرح ملک کی مقبول ترین پارٹی کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ تحریک انصاف کے باغی، مستعفی اور ناراض ممبران کو اکٹھا کر کے تحریک انصاف کے مدمقابل ” استحکام پاکستان پارٹی” بنوائی گئی۔ جب دیکھا گیا کہ نا تو تحریک انصاف کو ریزہ ریزہ کرنے سے اس کی مقبولیت پر کوئی فرق پڑا ہے اور نا ہی استحکام پاکستان پارٹی میں کوئی شگاف ڈال سکا۔ تو اس مقبول ترین پارٹی کا انتخابی نشان یعنی ” بلا” ہی چھین لیا گیا۔ حکم صادر ہوا کہ تحریک انصاف کا کوئی بھی امیدوار نہ تو بلے کے نشان کا حقدار رہا ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کا کوئی امیدوار ہوگا بلکہ تحریک انصاف کا ہر امیدوار علیحدہ علیحدہ انتخابی نشان پر الیکشن لڑے گا اور تحریک انصاف کے تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کے نمائیندے بطور آزاد امیدوار اس الیکشن میں حصہ لے گیئں۔ یہ نیا ریکارڈ الیکشن 2024 میں بننے جا رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے تمام ممبران آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔

ایک اور نیا ریکارڈ جو الیکشن 2024 میں بنے گا وہ یہ ہے کہ ملک میں 272 قومی اسمبلی کی نشستوں پر الیکشن ہوگا۔ جبکہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے ہر حلقے میں اپنا امیدوار اتارا ہوا ہے۔ نیا ریکارڈ یہ ہے کہ پہلی دفعہ تمام قومی اسمبلی کی نشستوں پر ایک آزاد امیدوار الیکشن لڑ رہا ہوگا۔ یوں کہیے کہ ملک میں سیاسی پارٹیاں موجود ہیں اور دعویٰ کرتیں ہیں کہ ہم ملک کی مقبول ترین پارٹی ہیں لیکن ملک میں 272 سیٹوں پر الیکشن ہو گا تو کم از کم ملک میں 272 آزاد امید وار حصہ لے رہے ہوں گے۔ ویسے یہ تحریک انصاف کے نامزد آزاد امیدوار ہوں گے لیکن کئی آزاد امیدوار اپنے طور پر بھی الیکشن لڑ رہے ہونگے یعنی اس طرح 272 سیٹوں پر الیکشن لڑنے والے 272 پارٹی امیدواران ہوں گے تو آزاد امیدواران کی تعداد ہو سکتا ہے 350 ہو۔ یہ بھی ایک نیا ریکارڈ قائم ہو جاۓ گا کہ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے تو 272 ہیں مگر آزاد امیدواران کی تعداد 350 ہے۔ یہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر پاکستان کی انتہائی توہین ہے کہ پاکستانی عوام اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں پر بھروسہ نہیں کرتی اور ان پر عدم اعتماد کرتے ہوۓ انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کو ترجیح دی ہے۔ یہ سچ اگر کوئی ملک بولے تو ہم اسے کوستے رہیں گے مگر اپنے نظام کو درست نہیں کریں گے۔

اب آئیے انتخابی نشانات کی جانب تو اس دفعہ الیکشن کمشن نے عجیب و غریب انتخابی نشانات کی اختراع کی ہے جن میں بیگن، کی چین، لیب ٹاپ، قبر، چمٹا اور انگریزی کے حروف ابجد میں سے “K” کے نشان کے علاؤہ کئی مضحکہ خیز انتخابی نشانات ہیں۔ شاید جن کی سمجھ شہری علاقوں میں بھی نہ آۓ تو دیہی علاقوں میں کہاں سمجھ آۓ گی۔ غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو امیدوار کیسے سمجھاۓ گا کہ میرا نشان ” K” ہے یا میرا نشان ” لیب ٹاپ” ہے۔ یہ ایسے مضحکہ خیز نشانات ہیں کے دیہی علاقوں میں الیکشن کے بعض امیدواروں کی چھیڑ یہی انتخابی نشانات بن جائیں گے۔ لہذا 2024 کے انتخابی نشانات بھی ایک ریکارڈ بن جائیں گے۔

تیسری بات ملک کی آدھی آبادی جماعتی الیکشن لڑے گی اور آدھی سے زیادہ آبادی غیر جماعتی الیکشن لڑ رہی ہوگی یعنی سیاسی جماعتوں کے امیدواران اور ان کے ووٹرز تو جماعتی الیکشن لڑ رہے ہوں گے اور تحریک انصاف کے امیدواران اور ووٹرز غیر جماعتی الیکشن لڑ رہے ہوں گے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ بن جاۓ گا 2024 میں ایک ہی وقت میں جماعتی اور غیر جماعتی الیکشن اکٹھا ہوا کسی نے سیاسی جماعت سے الیکشن لڑا اور کسی نے غیر سیاسی الیکشن لڑا۔ یہ بھی ایک ریکارڈ بن جاۓ گا۔

چوتھی بات کہ ملک میں کچھ ایسے حلقے بھی ہیں جن پر ملک کے پارٹی سربراہان اور سابقہ وزراء اعظم امیدوار ہیں اور ان کے مدمقابل نامزد آزاد امیدوار بھی الکشن لڑ رہے ہیں۔ فرض کر لیجیے یا واقعی ہو سکتا ہے کہ یہ آزاد امیدوار کامیاب ہو جائیں اور پارٹی سربراہان اور سابق وزیراعظم ہار جاۓ تو اس پارٹی کی ساکھ کیا رہ جاۓ گی کہ ایک آزاد امیدوار نے پارٹی سربراہ اور سابق وزیراعظم کو ہرا دیا، اس امیدوار کے پاس حق نہیں رہ جاتا کہ وہ پارٹی کی سربراہی کرے۔ اس کے لیے ضروری ہو جاۓ گا کہ وہ اپنی پارٹی کی صدارت اور چیرمین شپ سے استعفیٰ دے دے۔ اس کے علاؤہ بین الاقوامی طور پر میرے ملک کی کیا ساکھ رہ جاے گی کہ میرے ملک کے سابق وزیراعظم کو ایک آزاد امیدوار نے شکست دے دی۔ یہ بھی ایک ریکارڈ بن جاۓ گا۔ پانچواں ریکارڈ جو بن سکتا ہے وہ یہ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے فرمایا ہے کہ ہم یعنی پاکستان پیپلز پارٹی آزاد منتخب ارکان کو ساتھ ملا کر 172 کی تعداد بھی عبور کر سکتے ہیں۔ چلیے ہم ان کی بات کو سچ مان لیتے ہیں لیکن جاری حالات کے مطابق پیپلز پارٹی خود کتنی نشستیں حاصل کر لے گی؟ اگر زیادہ سے زیادہ 72 نشستیں پیپلز پارٹی جیت جاۓ تو 100 آزاد نمائیندے ساتھ ملاۓ گی۔ کیا ایک سو نمائندوں کا ساتھ ملنا پھولوں کی سیج ہے؟ کیا یہ نمائندے جو کڑوروں روپیہ لگا کر منتخب ہوۓ ہیں مفت میں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل جائیں گے؟ اگر یہ لین دین کریں گے تو یہ قومی اسمبلی کے نمائندوں کی سیل نہ لگ جاۓ گی اور اسمبلی ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی مارکیٹ بن کے رہ جاۓ گی۔ اگر یہ آزاد ارکان اسمبلی فی سبیل اللہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کا ارادہ کرلیں تو مجھے بتایئے کہ پیپلز پارٹی کے 72 ارکان کو سو ارکان کی طرف جانا چاہیے یا ان سو کو 72 کی طرف آنا چاہیے؟ جائز بات تو یہی ہے کہ 72 کو 100 کی طرف جانا چاہیے لیکن چونکہ آزاد ارکان حکومت نہیں بنا سکتے لہذا چاروناچار یہ سو ارکان 72 کی طرف آئیں گے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہوگا کہ اقلیت نے اکثریت کو فتح کر لیا اور پیپلز پارٹی اپنی فاتح اور کامیابی کے نعرے مارتی پھرے گی مگر کس مونہہ سے؟

چلیے یہ تو تھی ملکی حکومت کی تشکیل، اور قومی اسمبلی کے امیدواران اور حلقوں کی بات۔ اب آتے ہیں زرا صوبائی الیکشن کی جانب تو پہلے ہم خیبرپختونخواہ کی بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں 2013 سے 2022 تک متواتر تحریک انصاف کی حکومت رہی ہے لہذا اتنی لمبی حکومت ہونے سے خیبرپختونخواہ کی عوام کے ذہنوں میں تحریک انصاف ہی پختون نسل کی وراثتی سیاسی جماعت بن گئی ہے۔ اس لیے 2024 کے الیکشن میں بھی توقع کی جاتی ہے کہ تحریک انصاف کے آزاد امیدوار بھاری اکثریت میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خیبرپختونخواہ اسمبلی میں 115 نمائندے بذیعہ ووٹ منتخب ہوں گے۔ آج کے سیاسی رجحان اور سیاسی تجزہات کے مطابق 2024 کے الیکشن میں تحریک انصاف کے آزاد نمائندے بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے۔ جبکہ سیاسی جماعتوں کے جیتنے والے امیدواروں کی تعداد کم ہو گی۔ اگر یہ سچ ہو جاتا ہے تو صوبے میں حکومت کون بناۓ گا؟ کیونکہ منتقی اعتبار سے آزاد نمائندے تو حکومت بنا ہی نہیں سکتے۔ پھر حکومت کون بناۓ گا؟ اگر سیاسی جماعتوں کے جیتے ہوۓ اراکین حکومت بنائیں گے تو یہ بھی ایک ریکارڈ ہو گا کہ اکثریت میں جیتے ہوۓ اراکین حکومت نہ بنا سکے اور اقلیت نے حکومت بنائی اور اکثریتی جیتے ہوۓ اراکین حزب مخالف میں بیھٹے۔ اس کے علاؤہ یہ بھی ریکارڈ ہو گا حکومتی اراکین کی تعداد کم اور خزب اختلاف کی تعداد زیادہ رہی۔ اسی طرح اب ہم آتے ہیں پنجاب اسمبلی کے طرف جیسا کہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے ہر حلقہء انتخاب سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں ویسے ہی پنجاب اسمبلی کے ہر حلقے سے تحریک انصاف نے اپنے امیدواران کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ جبکہ پنجاب اسمبلی میں کل 297 سیٹوں پر الیکشن ہوگا۔ صوبہ پنجاب کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب کی سب سے مظبوط سیاسی جماعت تحریک انصاف رہی ہے اور یقیناً اب بھی ہوتی مگر انہیں انتخابی نشان نہ ملنے کی وجہ سے شاید یہ پارٹی دوسرے نمبر پر اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر چلی جاۓ اور پاکستان مسلم لیگ ن پہلے نمبر پر ہو۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ نشان نہ ملنے سے انتخابی نتائج پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور تحریک انصاف ہی پنجاب کی نمائندہ جماعت ہو گی۔ ایک راے یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے کامیاب نمائندے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر پنجاب کی حکومت بنائیں گے۔ پنجاب میں بھی خیبرپختونخواہ والی صورت حال ہو گی تعداد میں زیادہ ہوتے ہوۓ بھی انہیں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑے گا اور با دل ناخواستہ انہیں پیپلز پارٹی کو اپنا سیاسی سربراہ ماننا پڑے گا اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ بن جاۓ گا کہ زیادہ تعداد والے اسمبلی اراکین نے کم تعداد والے ارکین کو اپنا سربراہ تسلیم کیا اور خود ان کے شریک بنے۔ اس کے علاوہ صوبہ پنجاب کی حکومتی کشتی ہر وقت بھنور میں رہے گی۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے آزاد نمائندے پیپلز پارٹی کو دباؤ میں رکھیں گے، بلیک میل کریں گے اور ان سے الگ ہونے کی دھمکیاں دیتے رہیں گے۔

ایک اور عجیب صورت حال جو کہ اقلیتی اور خواتین کے حوالے سے قومی اور صوبائی اسمبلی میں پیدا ہو جاۓ گی وہ یہ کہ قومی اسمبلی میں خواتین کی 64 اور اقلیتوں کی 10 سیٹیں ہیں جو سیاسی پارٹیوں کو ان کے جیتنے کے تناسب سے ملتی ہیں۔ میرا خیال ہے قومی اسمبلی کی 28 نشستیں جیتنے پر سیاسی جماعت کو ایک اقلیتی نشست ملتی ہے۔ اور دس نشستیں جیتنے پر ایک خاتون کی نشست ملتی ہے۔ چلیے اب دیکھتے ہیں کہ یہ پرابلم کیسے پیدا ہو گی۔ فرض کر لیں

مسلم لیگ ن 70 نشستیں جیتی ہے تو اسے 2 اقلیتی اور 7 خواتین کی سیٹیں ملیں گیں۔ اسی طرح اگر پیپلز پارٹی بھی 70 نشستیں جیتی ہے تو اسے بھی 2 اقلیتی اور 7 خواتین کی سیٹیں ملیں گی۔ باقی چھوٹی پارٹیاں کوئی دو تو کوئی پانچ یا زیادہ سے زیادہ 9 نشستیں جیتتی ہے تو مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی 2+2 اور خواتین کی 10+10 نشستیں حاصل کرے گی جو کہ تعداد میں 4 اقلیتی اور 20 خواتین کی نشستیں ہوں گیی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی مخصوص نشستیں کدھر جائیں گئیں؟ اگر آپ یہ کہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے لیے جیتی ہوئی نشستوں کی تعداد کم کر کے انہیں زیادہ مخصوص نشستیں دی جائیں گی تو یہ کام اتنا آسان نہیں کیونکہ مخصوص نشستوں کے لیے سیاسی پارٹیوں کے تناسب کا الیکشن کمشن کے آئین اور قانون میں ایک تعداد درج ہے اگر اسے کم یا زیادہ کرنا ہے تو اس کی اجازت قومی اسمبلی سے لینی پڑے گی۔ اور اگر اقلیتوں اور خواتین مخصوص نشستوں کی تعداد کم کر دی جاۓ تو قانون شکنی بھی ہو گی اور اقلیتوں اور خواتین کی حق تلفی بھی ہوگی۔ اور یہ معمہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ریکارڑ بن جاۓ گا ۔

لہذا میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ 2024 کے انتخابات پاکستان کی تاریخ میں ریکارڈ ساز الیکشن ہوں گیئں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading