تحریر: فراز ملک
سارا سال لڑنے جھگڑنے مار کٹائی طعنہ زنی اور گالی گلوج کرنے والے جوڑے 13 فروری کی شام کو سرخ گلابوں، رنگ برنگی چاکلیٹس اور لال غباروں کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ خواتین تو کئی روز پہلے سرخ لباس تیار کرنا شروع کر دیتی ہیں اور 13 فروری کو صرف ایک رات فقط ایک رات یاں حد سے زیادہ 14 فروری کا پورا دن محبت کا دن ویلنٹائن ڈے منانے میں گزارتے ہیں۔ پھر سارا سال وہی ہنگامہ آرائی اور زود و کوب میں گزرتا ہے۔ ان میں سے کچھ مرد تو ایسے بھی ہیں جن کے گھر دو وقت کا کھانا بھی شاید نہیں پکتا مگر ویلنٹائن ڈے کے لیے کہیں نہ کہیں سے پیسے ادھار لے کر ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ امراء میں ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد حسینائیں ناراض رہتی ہیں کہ تم۔ نے مجھے اچھا گفٹ نہیں دیا۔ تم نے مجھے اس قابل بھی نا سمجھا کی ایک سونے کا سٹ ہی بنوا دیتے۔ کچھ نازنینائیاں اسی بھی ہیں جو ویلنٹائن ڈے کے ایک مہینے کے بعد اپنے محبوب سے ناراض ہو جاتی ہیں کہ میری سہیلی نے مجھے آج بتایا ہے کہ اس کے خاوند نے اسے ایک لاکھ روپیہ نقد شاپنگ کے لیے دیا لیکن تم نے مجھے صرف بیس ہزار روپے کا گفٹ لے کر دیا۔ شوہر اگلے ویلنٹائن ڈے پر ایک لاکھ کا وعدہ کر محبت کو بہال کرتا یاں محبت خرید لیتا ہے۔
میں کبھی بھی اپنے معاشرے میں ویلنٹائن ڈے کے حق میں کبھی بھی نہیں رہا۔ کیونکہ میں خاندانی معاشرتی قدروں کو مدنظر رکھتے ہوۓ اسے بے حیائی کے مترادف سمجھتا تھا۔ اور میرا دوسرا موقف یہ تھا کہ کیا میں سارا سال اپنی بیوی کے ساتھ بغیر محبت کے گزارتا ہوں؟ یہ تو بڑی منافقت ہے کہ ایک شخص سارا سال اپنی بیوی یا محبوبہ کے ساتھ بغیر محبت کے گزارے اور ایک دن صرف ایک دن اس سے محبت کا بھرپور اظہار محض تحفے دے کر یا پھول پیش کر کے اسے یقین دلاۓ کہ فقط تم ہی میری محبوبہ اور میں دل و جان سے تمہیں چاہتا ہوں۔ محبت کرنے والوں کو تو چاہیے کہ سارا سال بھرپور محبت، پیار، خلوص، شفقت اور مہربانی کے ساتھ رہیں ایک دوسرے کی برداشت کریں اور یکساں طور پر ایک دوسرے کی غلطیوں، کوتاہیوں اور نا مناسب رویے کو مسکرا کر نظر انداز کیا کریں۔ لیکن ہمارے معاشرے میں سارا سال اپنے محبوب یا محبوبہ کے ساتھ دھماکے دار، تشدد پسند، تخریب کارانہ اور جذباتی قتل میں گزارا جاتا ہے اور ہم 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے بڑے جوش وخروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ لہذا ذکر بالا دلائل کی بنا پر میں ہمشہ ویلنٹائن ڈے کے مخالف ہی رہا اور اسے کبھی بھی نہ منایا۔
اس ویلنٹائن ڈے پر میں شام پانچ بجے لاہور ماڈل ٹاؤن کی ایک مارکیٹ میں تھا کہ میں نے ایک لگ بھگ 35 سالہ خاتون کو دیکھا جو شکل و صورت، ڈیل ڈول اور لباس سے نہایت غریب بلکہ مفلوک الحال لگ رہی تھی، اس کے بال بکھرے ہوۓ، گرد میں نہاۓ ہوۓ تھے اور بے ترتیب سی زلف پریشان تھیں۔ ٹوٹی جوتی پھٹے کپڑے، میلا کچیلا لباس بتا رہا تھا کہ یہ خاتون دس دن سے نہائی تک نہیں۔ لیکن اس وہ سرخ رنگ کے لباس غریبانہ میں ملبوس سڑک کے کنارے ایک تھال میں تھوڑے سے گلاب کے پھول رکھ کر بیچ رہی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک بڑی سی گاڑی میں ایک امیر زادی آئی اس کی گاڑی سرخ رنگ کے غباروں سے بھری ہوئی تھی اور خود وہ سرخ رنگ کی شرٹ اور وائٹ پینٹ کے لباس فاخرانہ میں سج دھج رہی تھی وہ اس کے پاس رکی اور اس کے سارے گلاب خریدنا چاہتی تھی مگر وہ بغیر خریدے لوٹ گئی۔ مجھے بہت دکھ ہوا اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش وہ اس کے سارے گلاب خرید لیتی تو یہ خاتون اپنے بچوں میں جا کر خوشی سے کھانا بناتی اور اگلے مشقت بھرے دن کے لیے اپنے جسم میں قوت پاتی۔ میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا سودا نہیں بنا؟ اس نے عجیب جواب دیا اور میں حیرت میں گم اس کو تکتا رہ گیا۔ اس نے کہا سودا تو بن گیا تھا مگر وہ سارے کے سارے گلاب خریدنا چاہتی تھی اور میں چند گلاب بیچنا ہی نہیں چاہتی۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کیوں جب تم گلاب بیچنے آئی ہو اور ایک گاہک سارے کے سارے خرید رہا ہے تو تم کیوں سارے نہیں بیچنا چاہتی۔ اس نے مجھ سے کہا بابو میں گلاب بیچنے والی نہیں ہوں۔ میں تو خود ویلنٹائن ڈے منانے کی جد وجہد کر رہی ہوں۔ تم میرا لباس نہیں دیکھتے میں نے سرخ رنگ کے کپڑے پہنے ہوۓ ہیں۔ میں تو اپنے محبوب کے انتظار میں ہوں۔ جب وہ یہاں سے گزرے گا تو میں اسے چند گلاب دوں گی۔ وہ عورت میرے سارے گلاب خریدنا چاہتی تھی۔ میں نے چند گلاب اپنے محبوب کے لیے رکھنے تھے۔ اگر میں اسے سارے دے دیتی تو میں اپنے محبوب کے لیے کیا رکھتی۔ اس لیے میں نے اسے گلاب نہیں بیچے۔ میں نے حیرانی سے استفسار کیا، کیا تم بھی ویلنٹائن ڈے مناتی ہو؟ اس نے کہا کیا میں محبت نہیں کر سکتی، میرا دل نہیں ہے، میرے جذبات نہیں ہیں۔ سنو بابو میں گلاب نہیں بیچتی میرے پاس ویلنٹائن ڈے منانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میں نے اپنے محبوب کے لیے گلاب خریدنے تھے، اسے چاکلیٹ لے کر دینی تھی، اس کے لیے سرخ مفلر لینا تھا مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ میں پھولوں والے کے پاس گئی اور دو ہزار کے ادھار پھول خریدے کہ شام تک یہ پھول بیچ کر تمہیں پیسے دے دونگی۔ میں نے حساب لگا لیا تھا کہ یہ پھول تقریباً 2500 کے بک جائیں گے۔ میں دو ہزار پھولوں والے کو دونگی اور پانچ سو میں چاکلیٹس اور لال مفلر کے ساتھ چند گلاب اپنے محبوب کو دونگی۔ ابھی وہ دہاڑی کر کے یہاں سے گزرے گا تو میں اپنے محبوب کو اس کا ویلنٹائن گفٹ دوں گی۔ میں دانتوں میں انگلیاں دباے اسے دیکھتا ہی رہ گیا اور ایک لمبے توقف کے بعد اس سے پوچھا کہ تم اپنے خاوند کو راستے میں گفٹ کیوں دو گی اسے گھر جا کر دے دینا۔ اس نے کہا وہ میرا شوہر نہیں ہے وہ تو میرا پیار ہے۔ میرا محبوب ہے، میرے دل کا جانی ہے۔ میں نے کہا تم اس سے شادی کرنا چاہتی ہو۔ اس نے پھر مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ نہیں وہ تو شادی شدہ ہے اور میں بھی شادی شدہ ہوں چار بچوں کی ماں ہوں۔ میں تھوڑے غصے میں کہا تمہیں شرم نہیں آتی تمہارا خاوند موجود ہے اور تم کسی اور سے پیار کرتی ہو۔ اس نے کہا وہ میرے بچوں کا باپ ہے میرا پیار نہیں ہے۔ میں اس کے ساتھ ویلنٹائن ڈے کیسے منا سکتی ہوں۔ منیرا میرا پیار ہے میں اسی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے مناؤں گی۔ بےشک وہ مجھے لفٹ نہیں کرتا بلکہ مجھ سے وہ بولتا بھی نہیں ہے لیکن میں اسی کے ساتھ ویلنٹائن ڈے مناؤں گی۔ بابو دعا کرو وہ میرے تحفے قبول کر لے کیونکہ وہ مجھے لفٹ نہیں کرواتا اور مجھ سے بولتا بھی نہیں ہے۔ میں نے اس کہا تمہارا نام کیا ہے اور تمہارے محبوب کا نام کیا ہے۔ اس کہا میرا نام رجو ہے اور میرے محبوب کا نام منیرا ہے۔ پھر اس سے پوچھا جب منیرا اۓ گا تو تم کیا کرو گی۔ اس نے کہا کچھ بھی نہیں بس اس کے تحفے اسے دوں گی اور حسرت بھری نگاہ سے اسے دیکھ کر چلی جاؤں گی۔
اسے دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ واقعی کچھ لوگ حقیقی ویلنٹائن ڈے مناتے ہیں۔ کاش ہر عورت رجو ہوتی اور کاش ہر منیرا رجو کا ہوتا۔