تحریر: فراز ملک
انتخابات کے بعد سیاسی نتائج کے حوالے سے ملک عجیب سیاسی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کی سب سے زیادہ ہے مگر حکومت بنانے کیلئے نہ تو وہ پی ٹی آئی کا نام استعمال کر سکتے ہیں اور نہ ہی انکے پاس اتنی تعداد ہے کہ وہ حکومت بنا سکیں لہذا پی ٹی آئی کو ضرورت تھی کہ وہ کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے۔ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں بشمول ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہاتھ کھولے کھڑے تھے کہ کب پی ٹی آئی انہیں یہ مژدہ سناۓ کہ ہم آپ کے ساتھ سیاسی مذکرات کرنا چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ ہم نے ان خلاف تو جہاد کی ہے اور اب ان میں شمولیت کسیے کریں یا انکے ساتھ کیسے چلیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کی جانب خراماں خراماں بڑھنے لگی۔ مولانا نے بھی اپنے جگر گوشے یعنی سابقہ پی ڈی آئی سے غداری کرتے ہوۓ پی ٹی آئی کے ساتھ گرم جوشی سے ہاتھ ملانے میں عافیت سمجھی اور دوسری جانب پی ٹی آئی نے اپنے آپ سے غداری کرتے ہوۓ مولانا ڈیزل ( یاد رکھیے یہ لقب عمران خان کا دیا ہوا ہے) کے ساتھ بغلگیری کرنا چاہیی۔ بلا آخر مولانا پی ٹی آئی کی توقعات پر پورا نہ اترے اور پی ٹی آئی مولانا کی خواہشات کو پورا نہ کر سکی تو عمران خان پھر فتنہ بن گئے اور مولانا ڈیزل ہی رہے۔
جب پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب ہاتھ نہ بڑھایا تو عاقبت اسی میں تھی کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی یک جان ہو جاتے۔ مقناطیسی قوت نے کام کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی طرف کھینچنے لگے۔ بیٹھک ہوئی، مذاکرات کی آڑ میں شرط و شرائط پیش کی گئیں، سودے بازی ہوئی اور آخر پیپلز پارٹی کے نوجوان چیرمین بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی بلکہ اصرار پر شرائط جنہیں مذکرات کہا جاتا ہے مان لیں گئیں۔ تہہ ہوا کہ ملک کے وزیراعظم شہباز شریف اور صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری ہوں گے۔ کوئی ہرج نہیں ہے جناب شہباز شریف پہلے بھی ملک کے وزیراعظم رہے ہیں اور اب بھی ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح جناب آصف علی زرداری پہلے بھی ملک کے صدر رہے ہیں اور اب بھی ہو سکتے ہیں لیکن الیکشن سے پہلے بلاول بھٹو صاحب بڑے بڑے جلسوں میں چیخ چیخ کر فرمایا کرتے تھے کہ ستر ستر سالہ بابوں کو اب آرام کرنا چاہیے یعنی ملکی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ یہ بات وہ نام لے بغیر عمران خان ، نواز شریف اور شہباز شریف کو کہتے رہے ہیں حالانکہ انکے اپنے والد محترم آصف علی زرداری صاحب بھی ستر سال کی لمٹ کراس کر چکے ہیں۔ شاید وہ اپنے والد کو بھی یہی مشورہ خاص دیتے ہوں کہ ستر سالہ بابے اب آرام کریں اور نوجوانوں کو ملکی حکومت کرنے دیں۔ بات بھی درست اور ان کا انداز بھی درست ہوتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ بلاول بھٹو عین عہد شباب میں ہیں اور اس نوجوانی میں بڑی فہم و فراست کی بات کر رہے ہیں۔ ان کے انداز تخاطب سے سو فیصد یقین ہوتا تھا کہ اگر وقت آیا تو یہ نوجوان لیڈر اپنے الفاظ یاد رکھے گا اور کسی نوجوان کو موقع دے گا کہ وہ ملک پاکستان کا وزیراعظم بنے اور نوجوان ہی ملک کی صدارت کرے لیکن ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ مذاکرات میں تہہ یہ پایا کہ جناب آصف علی زرداری ستر سالہ بابا ملک کا صدر ہو گا اور ستر سالہ بابا یعنی جناب شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہوں گے۔ اور بہتر سالہ بابا آصف علی زرداری ملک کا صدر ہو گا۔ یہ فیصلہ جناب بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی میں ہوا اور وہ انتہائی خوش ہیں کہ مذکرات کامیاب ہو گئے ۔ کیا انہیں علم نہیں کہ ان کو وہ موقف ناکام ہو گیا ہے جو وہ بڑے بڑے جلسوں میں کہتے رہے ہیں کہ اب ستر سالہ بابے آرام کریں اور نوجوانوں کو سیاست اور قیادت کرنے کا موقع دیں۔
یہ سب اس لئے خوشی سے تسلیم کر لیا گیا کہ چیرمین بلاول بھٹو زرداری کے والد صاحب کو صدارت مل رہی ہے اگر زرداری صاحب کے علاؤہ نواز شریف ، شہباز شریف یا عمران خان کو یہ عہدہ دیا جاتا تو بلاول بھٹو پھر وہی نعرہ مستانہ لگاتے کہ ستر سالہ بابے اب آرام کریں مگر انہوں نے تو اپنے ہاتھوں سے ستر سالہ بابوں کو عنان حکومت سونپی ہے۔ اب انہیں نعرہ بھی تبدیل کر لینا چاہیئے کہ نوجوان آرام کریں اور ستر سالہ بابوں کو حکومت کرنے دیں