تحریر: فراز ملک
پام سنڈے کو اردو اور پنجابی زبان میں کھجوروں کا اتوار یاں کھجوری اتوار بھی کہا جاتا ہے۔ مسیح خداوند کی انتہائی اذیت اور درد و کرب کا ہفتہ اسی اتوار سے شروع ہوتا ہے جسے مقدس اور مبارک ہفتہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس روز صبح سویرے یسوع المسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ بیت عنیاہ سے یروشلم کی جانب رواں ہوۓ بیت عنیاہ اور یروشلم کے درمیان ایک گاؤں بنام بیت فگے آتا ہے جس کا لفظی مطلب کھجوروں کا گھر ہے۔ وہاں سے یسوع مسیح شاہانہ انداز میں گدھے پر سوار ہوۓ اور ایک ہجوم نے ان کا پر تپاک استقبال کرتے ہوئے ان کے راستہ میں اپنے کپڑے بچھائے اور پر جوش نعرے لگاتے ہوۓ کجھوروں کی ڈالیاں ہاتھوں میں پکڑے ہلاتے رہے۔ یہاں لگاۓ گئے نعرے بہت ہی معنی خیز اور پر جوش تھے۔ یوں لگتا تھا کہ انہیں اپنے مسائل کا مداوا مل گیا ہے۔ انہیں سچ مچ ایک باہمت، زیرک اور انتہائی دانشمند بادشاہوں کی اولاد سے بادشاہ مل گیا ہے۔ ان کا استقبال بتا رہا تھا کہ وہ اپنے بادشاہ پر اپنی جانیں بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے نعرے اس بات کی غمازی کر رہے تھے کہ وہ کبھی بھی اپنے محبوب لیڈر کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے بلکہ ہر محاز پر اس کے ہمراہ جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔ وہ ہر دکھ اور رنج و الم میں اپنے محبوب قائد کے دست و بازو بنیں گے اور ہمت و جرات کا مظاہرہ کرتے ہوے اس کا زور اور قوت بنیں گے۔ لیکن ہوا کیا کہ اس کھجوری اتوار کے بعد آنے والی جمعرات کو جب یسوع مسیح کو گرفتار کر لیا گیا اور رات بھر اس کی پیشیاں ہوتیں رہیں، اس کے مونہہ پر تھوکا گیا، اس کا تمسخر اڑایا گیا، اسے کوڑے مارے گئے اور آخر کار اسے مصلوب کرنے کا فتویٰ جاری کر کے اس کے کاندھے پر بھاری صلیب لاد دی گئی تو وہ جسمانی تشدد سے نڈھال صلیب اٹھاے سوۓ مقتل کی طرف گامزن تھا تو کوئی جواں مرد اس کی مدد کرنے کو آگے نہ بڑھا۔ بیت فگے پر چند روز پہلے نعرے لگانے والے, اپنی ہمت، وفاداری اور بردباری کا دعویٰ کرنے والے کہیں نظر نہ آے۔ انہوں نے کوئی نعرہ حق بلند نہ کیا، کوئی احتجاج نہ کیا نہ ہی اس کی رہائی کا کوئی مطالبہ کیا بلکہ وہ دور دور تک کہیں نظر نہ آۓ۔ وہ تو جیسے گمشدہ لوگ اور زمین دوز افراد بن کر رہ گئے۔ یسوع کو مصلوب کر دیا گیا اور آخر کار یسوع نے صلیب پر سے یہ کہہ کر اپنی جان دے دی کہ ” میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں”
بیت فگے کے اس شاہانہ جلوس کی یاد میں ہر چرچ اور ہر کلیسیاء میں پام سنڈے منایا جاتا ہے۔ جس طرح بیت فگے میں جلوس نکالا گیا تھا اسی طرز پر ہر چرچ اپنی کلیساء کے ممبران کو ساتھ لیے جہاں تک ممکن ہو جلوس کی شکل میں کھجوروں کی ڈالیاں لہراتے، نعرے لگاتے اور زبور گاتے ہوۓ گذرگاہوں پر گواہی دیتے ہیں۔ بڑی اچھی بات ہے کہ ہم اپنی مذہبی رسومات کو جاری و ساری رکھیں تاکہ ہمارا ایمان تازہ ہوتا رہے اور ہماری آنے والی نسلیں بھی ہماری تقلید کرتے ہوۓ جذبہ ایمانی کے ساتھ اپنے دین کو قائم و دائم رکھیں۔ لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی بیت فگے کے ہجوم کی طرح پام سنڈے کو ایک تفریح طبع کا موقع سمجھ کر مناتے ہیں یاں ہم یسوع المسیح کے ساتھ دکھ، غم اور آزمائشوں میں ساتھ دینے کا عہد کرتے ہیں؟ کیا ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اے یسوع تیرے نام سے جو دکھ مصیبتیں آئیں گی یاں جب ہم تیرے نام کے سبب سے لعن طعن کیے جائیں گے تو ہم خوشی منائیں گے اور ہمارا یہ عہد ابدی ہو گا۔ جی میں جانتا ہوں کہ ہر مسیحی یہی کہے گا کہ بیشک ہم ہر حالت میں یسوع کے ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔ اگر ہم حقیقت کی طرف نظر دوڑائیں تو سچ یہ ہے کہ ہم بھی بیت فگے کے لوگوں کی طرح اگلے ہی دن یسوع سے جدا ہو جاتے ہیں اور پھر پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے کہ کل جس کی شان میں ہم دیواریں ہلا دینے والے جذباتی نعرے لگا رہے تھے آج اس کے ساتھ کیا بیتی۔ کیونکہ پام سنڈے ہم ایمانی جذبے سے نہیں بلکہ تفریح طبع کے لیے ایک ہلہ گلہ سمجھ کر مناتے ہیں۔ ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم اس مقدس دن کو محض اپنی تفریح کے لیے منائیں۔ اگر ہم ہر دکھ اور سکھ میں یسوع کے ساتھ چلنے کا عہد نہیں کرتے تو ہم اس جلوس میں شامل ہو کر اپنا اور کلیسیا کا وقت برباد کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ہم دیکھیں تو میں نے اس مضمون کا نام کھجوری اتوار بمقابلہ مزدوری اتوار رکھا ہے۔ میں اس عنوان کی وجہ تسمیہ بیان کرتا ہوں کہ کل یعنی 24 مارچ 2024 کے پام سنڈے میں یوحنا آباد میں ایک عجیب کاروبا میری نظر سے گزرا جسے میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ یوحنا آباد کے مین بازار میں دو مسیحی کھجوروں کی ڈالیاں لے کر بیٹھے ہوۓ تھے اور آوازیں لگا رہے تھے کہ کجھوروں کی ڈالیاں براۓ فروخت۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان مسیحی نوجوانوں نے کیا سوچا ہے کہ لوگ کجھوری اتوار منائیں گے اور ہم مزدوری اتوار منائیں گے۔ یہ نوجوان کسی کجھور کے درخت سے مفت میں یہ ڈالیاں توڑ کر لاۓ ہوں گے اور اس انتہائی مقدس تہوار پر یوحنا آباد کے مسیحیوں کی ضرورت یاں مجبوری کو دیکھ کر ایک ایک ڈالی مبلغ 150 روپے کی فروخت کر رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے اپنی نوجوان نسل پر انتہائی افسوس ہوا کہ یہ شاہانہ داخلے کے لوازمات کو فروخت کر رہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نوجوان مسیح خداوند کو خوش آمدید کہتے ہوۓ گرجا گھروں کلیسیاؤں اور مسیحیت کی خدمت کا کام کرتے ہوۓ ہر چرچ میں کھجوروں کی ڈالیاں بطور عطیہ خود جا کر دیتے۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ سب مسیحیوں نے تو کھجوری اتوار منایا لیکن ان دو نوجوانوں نے مزدوری اتوار منایا۔
میرے عزیزو مجھے ڈر ہے کہ آئیندہ پام سنڈے کو ان نوجوانوں کی تقلید کرتے ہوۓ کئی دوسرے نوجوان بھی پام سنڈے کو کھجوروں کی ڈالیاں فروخت کرنا نا شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ یسوع کا شاہانہ داخلہ کھجوری اتوار کی بجاے مزدوری اتوار نہ بن جاۓ