حکومت کو ناپسندیدہ مشورہ

 

تحریر: فراز ملک

ہمارے پیارے ملک پاکستان کے حالات دن بدن بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات کے بگاڑ کی وجوہات ملک کے 25 کڑوڑ شہری بخوبی سمجھ گئے ہیں کہ وہ لوگ ہیں جو اس ملک کو تباہی کے دھانے تک لے آۓ ہیں۔ نا یہاں سیاسی استحکام، سیاسی نظام اور سیاسی نظریات رہنے دیے ہیں بلکہ معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور انصاف کا جنازہ نکلنے کو ہے۔ میں یہ بات ماننے کو تیار ہوں کہ پاکستان کا عام آدمی بھی اس ملک کا گہنگار ہے، بزنس مین سے لیکر سرکاری ملازم، افسران، غیر سرکاری ادارے، مفکرین، استاد، وکلاء، شاعر ادیب اور فنکار سبھی اس ملک کی بربادی کے ذمے دار ہیں لیکن کچھ خاص ادارے اور سیاسی اکابرین نے تو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ جب ملک کے سربراہان لوٹ مار، لا قانونیت، سیاسی و مالی کرپشن اور ذاتی مفادات کو ملکی ملکی مفادات پر ترجیح دیں گے تو ملکی عوام بھی ان سے پیچھے نہ رہے گی۔ تب ملک تباہی کی نہج پر پہنچ جاۓ گا۔ جو کہ آج ہمیں نظر آ رہا ہے لہذا ملکی سربراہان اور سیاسی اکابرین کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ اپنا قبلہ درست کریں تاکہ ملک میں امن و انصاف کے علاؤہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات تبدیل ہوں اور ملک ترقی کی راہ کی طرف گامزن ہو۔ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاستدان اپنے آپ کو درست کر سکتے ہیں؟ کیا وہ اپنا احتساب خود کر سکتے ہیں؟ کیا وہ ذاتی مفادات کو ترک کر کے ملکی مفادات کو ترجیح دے سکتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا اور ناقابل حل مسلہ نظر آتا ہے۔ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ہمارے سیاستدان اپنے آپ سدھار سکیں اور عدم برداشت، نفرت اور بدلے کی سیاست کو ترک کر کے باہمی رفاقت, رواداری اور برداشت کی سیاست کو فروغ دیں۔ یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک کے باشندے بشمول سیاست دان حرمت و عظمت دین پر اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہمیں اپنے سیاستدانوں کی سیاست میں وہ اعلیٰ و عرفہ دینی افکار و نظریات نظر ہی نہیں آتے لہذا ہمیں چاہیے کہ اگر ہم اپنی ملکی سیاست کو سو فیصد درست سمت میں لے کر جانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے ملک کے سیاستدانوں اور پارلیمنٹرین کے رویے اور سوچ و فکر کو درست کریں اور سیاست کو گنونا عمل اور سیاستدانوں کو جھوٹے، مکار اور ملک دشمن عناصر سمھجنے کے نظریے کو ترقی پسند سوچ میں تبدیل کریں اور سیاستدان خود کو ثابت کریں کے سیاست دان ہی ملکی مسائل کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔
آئیے ہم غور کریں کہ ہمارے ملک کی سیاست کا دراصل المیہ کیا ہے۔ ہمارے سیاستدان دقیانوسی اور رجعت پسند سیاست ہی کیوں کرتے ہیں؟ دراصل ہمارے معاشرے میں سیاست دانوں کے لیے کوئی معیار، قابلیت اور سیاسی پیمانہ ہی موجود نہیں ہے۔ کسی بھی پارٹی سربراہ اور قومی و صوبائی اُمیدواروں کے لیے صرف ایک ہی شرط ہے کہ وہ پاکستانی ہونے چاہیں۔ ان کی سیاسی بصیرت، سیاسی نظریات، دنیاوی تعلیم سے کسی کو کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ کچھ پارلیمنٹرین ایسے بھی ہیں جو ہو سکتا ہے میٹرک پاس بھی نہ ہوں، کچھ ایسے بھی ہیں جو کبھی یونین کونسل لیول پر کونسلر بھی منتخب نہ ہوۓ ہوں ۔ اور اکثریت کی تعداد ایسی ہے جنہیں سیاسی اور معاشی نظام اور نظریات کی سمجھ بوجھ بھی نہ ہو۔ چونکہ ان کے پاس بہت سی دولت ہے اور وہ دولت کے بل بوتے پر اپنے حلقہ کی معتبر شخصیت بن جاتے ہیں اور اپنی برادری کے اہم رکن ہونے کی وجہ سے الیکشن جیت جاتے ہیں۔ اس لیے انہیں ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ سیاست کو سمھجنے کی کوشش کریں۔ وہ بے سمت اور بغیر نظریات کے سیاست کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یاد رکھیے جب پارلیمنٹ سے نظریات ختم ہو جائیں گے تو پارلیمنٹ میں سواۓ دہنگا فساد، گالم گلوج اور تحقیر و تمسخر کے اور کچھ نہیں رہ جاۓ گا۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں ہم اسمبلی کے ہر اجلاس میں مچھلی منڈی کا منظر دیکھتے ہیں۔ چونکہ ملکی سیاست میں نظریاتی سیاست ناپید ہو چکی ہے اس لیے سیاست دان بے ہنگم اور بے سمت سیاست کی جانب گامزن ہیں۔ یاد رہے جب ملک میں نظریاتی سیاست کی جاۓ گی تو تمام سیاسی پارٹیاں، سیاستدان ، پارٹی سربراہان اور اسمبلی کا ہر ممبر ادب و آداب بھی سیکھ جاۓ گا، اخلاقیات میں بھی اعلیٰ معیار رکھے گا، باہمی سیاست فروغ پاۓ گی اور تعمیری سیاست کرے گا۔ سمجھنے کی بات ہے کہ جب ملک میں نظریاتی سیاست کا فقدان ہو گا تو ملک اور اسمبلی چند سیاسی پہلوانوں کا اکھاڑہ بن کر رہ جاۓ گا۔ اس لیے نہایت اہم اور ضروری ہے کہ ملک میں نظریاتی سیاست کو فروغ دیا جاۓ۔ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو سیاسی اور معاشی نظاموں اور نظریات سے روشناس کروایا جاۓ تاکہ ملک میں ترقی پسند نظریاتی سیاست کا آغاز ہو اور ملک ترقی کا سفر شروع کرے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسمبلی ممبران کو نظریاتی سیاست سے کیسے روشناس کروایا جائے۔ اگر سنجیدگی سے غور کیا جاۓ تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے افسران اکثر ٹرینگ اور refresher course کے لیے بلاۓ جاتے ہیں جہاں وہ وقتی حالات کے مطابق policies اور strategies سیکھتے ہیں۔ یہی فارمولا اسمبلی ممبران پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔ ہر اسمبلی ممبر پر لازم قرار دیا جاۓ کہ وہ ان ٹرینگز اور seminars میں شمولیت اختیار کرے گا۔ وہاں انہیں جاگیر دارانہ نظام ، نظام شاہی، سرمایہ دارانہ نظام، کمیونزم، شوشلزم اور دیگر سیاسی نظریات کی ٹرینگ دی جاۓ۔ اور آئیندہ آنے والے انتخابات میں امیدواران کے لیے یہ شرط لازم قرار دی جاۓ کہ جس امیدوار نے یہ ٹرینگ حاصل نہ کی ہو وہ الیکشن لڑنے کا مجاز نہیں ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ جب ایسے ممبران اسمبلی میں پہنچیں گے کہ جن کی political schooling ہوئی ہو گی تو پھر وہ بے ہنگم، بے سمت، دہنگا فساد اور دقیانوسی سیاست کی بجاے ملکی تعمیر و ترقی کی نظریاتی سیاست کریں گے اور ہمارا ملک قلیل عرصہ میں اعلیٰ ترین سیاست کا مثالی ملک بن جاۓ گا جس کی بدولت اس ملک سے طبقاتی کشمکش، غیر مساوی رویہ، امیری اور غریبی میں فرق کے علاؤہ مہنگائی کا مسلہ بھی حل ہو جاۓ گا، ملکی پیداوار بڑھے گی، برآمدات بڑھیں گیں اور مالی زخائر میں اصافہ ہونے کے نتیجے میں ملکی قرضوں کی لعنت سے نجات ملے گی الغرض عام آدمی کی زندگی آسان ہو جاۓ گی

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading