تحریر: فراز ملک
اگر ہم متی رسول کی معرفت لکھی گئی خداوند یسوع مسیح کی انجیل 13 باب اور 44 آیت میں دیکھیں تو ہمیں خداوند یسوع کی زبان اقدس سے بیان کئے گئے الفاظ کچھ یوں لکھے ہوۓ ملیں گے۔
“آسمان کی بادشاہی کھیت میں چھپے خزانہ کی مانند ہے جسے کسی آدمی نے پا کر چھپا دیا اور خوشی کے مارے جا کر جو کچھ اس کا تھا بیچ ڈالا اور اس کھیت کو مول لے لیا”
عزیزو یہ الفاظ خداوند یسوع مسیح نے خود اپنی زبان اقدس سے بیان فرمائے اور اسے خدا کی بادشاہی سے منسلک و منسوب کر دیا۔ غور کیا جاۓ تو آسمان کی بادشاہی اور کھیت میں چھپے خزانے کا آپس میں کوئی رابطہ اور تعلق نہیں بنتا اور نا ہی اس حوالہ میں ہمیں خدا کی بادشاہی کی کوئی شعوری تصویر نظر آتی ہے۔ اس آیت میں ہمیں خدا کی بادشاہی اور کھیت میں چھپے خزانے میں کوئی مماثلت نظر ہی نہیں اتی۔ مزید یہ کہ خداوند یسوع مسیح کے الفاظ سے ہمیں یہ جھلک بھی ملتی ہے کہ کھیت میں خزانے کو چھپانے والا آدمی بہت ہی نیک اور ذہین شخص تھا۔ آپ خود ہی سوچیے کہ جس آدمی کو خزانہ ملے اور وہ اس خزانے کو گھر لے جانے کی بجاۓ کھیت میں چھپا دے تو کیا ہم اس آدمی کو ذہین کہہ سکتے ہیں؟ طرہ یہ کہ وہ خوشی خوشی گھر گیا اور جو کچھ اس کا تھا سب کچھ بیچ ڈالا اور ا کر وہی کھیت جس میں خزانہ چھپایا گیا تھا خرید لیا۔ کیا اس میں ہمیں عقل و خرد اور ذہانت و لطافت کا کوئی پہلو نظر آتا ہے؟ ہاں اس آدمی کو ہم ذہین و فطین تب کہہ سکتے تھے اگر اسے خزانہ ملا ہوتا اور وہ اسے اپنے گھر لے جاتا اور اس خزانہ کو اپنی ملکیت میں رکھتا تاکہ اس کا گھر بھی بچا رہتا اور خزانہ بھی اسی کی ملکیت ہوتا۔
لہذا مسیح خداوند کا یہ بیان فہم و فراست سے بالا تر نظر آتا ہے۔ کیونکہ نا تو اس میں ہمیں کھیت میں چھپے خزانے اور آسمان کی بادشاہی میں ہی کوئی شعوری تعلق واسطہ نظر آتا ہے اور نا ہی ہم اس آدمی کو صاحب شعور اور دانا کہہ سکتے ہیں۔ ہاں درست ہے کہ یسوع المسیح کا یہ بیان ہماری عقل و فکر سے بالا تر ہے اور جب تک خداوند ہی ہمیں سمجھ عطا نہ فرماۓ ہم نہ تو اس بیان کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی آسمان کی بادشاہی کی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ خداوند سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ اپنے کلام کی سمجھ ہمیں عطا فرمائے تاکہ کے ہم اس کے بھیدوں اور مکاشفات کو سمجھ سکیں۔
آئیے ہم مسیح خداوند کے اس بیان کو سمجھیں اور آسمان کی بادشاہی اور کھیت میں چھپے خزانے کو تلاش کریں۔ آپ جانتے ہیں کہ مسیح یسوع نے تمثیلوں میں کلام کیا۔ یسوع کی تمثیلں ایک کہانی کی ماند ہمیں نظر آتی ہیں جیسے بیج بونے والے کی تمثیل اور توڑوں کی تمثیل اور اس طرح کی اور بہت سی تمثیلیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام تمثیلوں میں ہمیں ایک مکمل کہانی دیکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے ان تمثیلوں میں ظاہری معنے کچھ اور ہوتے ہیں اور باطنی معنے کچھ اور ہوتے ہیں۔ چونکہ مندرجہ بالا آیت میں ہمیں کوئی کہانی نظر نہیں آتی اسی لیے شاید ہم اس آیت کو تمثیل ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ لیکن حقیقتاً یہ بھی ایک تمثیل۔ جب خداوند ہمیں حکمت اور دانائی بخشتا ہے تو ہم خداوند کے بھید اور مکاشفات کو سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ اس تمثیل میں نا تو کوئی ایسا آدمی ہے جسے خزانہ ملا ہو، نا کوئی کھیت ہے اور نا ہی کسی آدمی نے اپنا گھر بیچا ہے۔
اس تمثیل کے کے باطنی معنے کچھ یوں ہیں۔ خزانہ خداوند کے پاک کلام کو کہا گیا ہے کیونکہ کلام میں لکھا ہے کہ خدا کا کلام سونے بلکہ کندن سے زیادہ قیمتی ہے اور اسی طرح زبور 12 میں ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند فرماتا ہے کہ خدا کا کلام سات مرتبہ کشید کی گئی چاندی سے زیادہ خالص ہے یعنی انتہائی خالص چاندی سے زیادہ قیمتی ہے۔ لہذا اس تمثیل میں کلام مقدس کو خزانہ کہا گیا ہے اور آدمی سے مراد وہ شخص ہے جسے کلام کی سمجھ، فہم اور ادراک حاصل ہو چکا ہو۔ یعنی ایک آدمی کو یسوع مسیح کے کلام کا گیان حاصل ہو گیا اور کھیت سے مراد خداوند یسوع مسیح خود ہیں یعنی اس شخص نے یسوع کا کلام یسوع کے پاس ہی رہنے دیا یاں دیگر الفاظ میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک آدمی نے یسوع کو پا لیا اور گھر بیچنے سے مراد اس نے اپنی پرانی انسانیت کو ترک کر دیا اپنی پرانی انسانیت چھوڑ دی اور پھر نیا جنم لے کر اس نے یسوع کو قبول کیا تو وہ خدا کی بادشاہی کا وارث بن گیا۔ مراد یہ ہے کہ اگر ہم خدا کی بادشاہی کے وارث ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں کلام مقدس کا فہم، ادراک اور تمثیلی زبان کی سمجھ ہونی چاہیے، پھر ہم اپنی پرانی انسانیت سے توبہ کریں اور اسے ترک کریں اور نیا یسوع میں نیا جنم لے کر اسے اپنے پورے دل و جان سے قبول کریں تو ہم خدا کی بادشاہی کے وارث بن سکتے ہیں