تحریر: فراز ملک
پاکستان میں آۓ دن کوئی نا کوئی ناخشگوار بلکہ دل دہلا دینے والا واقعہ رونما ہوتا ہی رہتا ہے جس کا تعلق مسیحی برادری یا اقلیتوں سے ہوتا ہے۔ کبھی کسی نابالغ مسیحی لڑکی کو اغوا کر کے جبری مسلمان کر لیا جاتا ہے، کبھی کسی مسیحی نوجوان کو مسیحی ہونے کے جرم میں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے، کبھی کسی مسیحی جوڑے کو توہین رسالت کے جرم میں عوامی فیصلے کے تحت زندہ اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر خاکستر کر دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر روز دیکھنے اور سننے میں آتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی انفرادی طور پر ایک شخص اس کا نشانہ بنتا ہے تو کبھی پوری کی پوری بستیاں جی جلا دی جاتی ہیں۔کبھی یہ واقعات شانتی نگر، کبھی گوجرہ، کبھی جوزف کالونی لاہور اور کبھی جڑانوالہ میں رونما ہوتے ہیں۔ کوئی بھی واقعہ خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ہو ہا انتہائی دکھ اور افسوس بلکہ ناقابل برداشت افسوس اور صدمے کا موجب بنتا ہے اور پوری مسیحی قوم کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ مسیحی قوم غم، دکھ، درد اور آہ و بکا میں ڈوبی سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ ہر مسیحی اشک بار ہو جاتا ہے، اپنی دل شکشتگی میں ایک دوسرے سے اس کا اظہار کرتا ہے، چرچز میں غمزہ خاندانوں اور ان کے لواحقین کیلئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ بہت سے سیاسی لیڈرز، چرچ لیڈرز اور قوم سے محبت رکھنے والے افراد فوری طور پر جاۓ وقوعہ پر پہنچ کر غمزدہ افرد کی ڈھارس بندھواتے ہیں۔ کئی چرچ، مسیحی منسٹریز اور این جی اوز فوری طور پر امدادی سامان کی کھیپ لے کر متاثرہ جگہ پر حاضر ہو جاتے ہیں۔ الغرض ہر مسیحی کسی نا کسی صورت میں اپنی بساط کے مطابق آہ و نالہ ضرور بلند کرتا ہے۔
کچھ ایسے مہربان بھی ہیں جو گھر میں بیٹھے WhatsApp اور شوشل میڈیا کے قفل کھول دیتے ہیں اور پھر نعرہ مستانہ اور شور شرابا فضاؤں میں نکارخانہ کی طرح گونج اٹھتا ہے۔ لوگوں کے موبائل ٹک ٹک بجتے ہیں اور پیغام رسانی ساون کی موسلا دھار بارشوں کی طرح برستی ہے۔ بہت سے دوست انتہائی سلجھی ہوئی، با تمیز اور متاثر کن مشورہ جات اور عملی اقدامات کی طرف اشارہ کر کے قوم کو جگاتے ہیں۔ کچھ صحافی جاے وقوعہ پر پہنچ کر اپنے کیمرہ اور صحافتی ذمے داری کو بڑے ہمت و جرات کے ساتھ بنھاتے ہوے براہ راست منظر کشی کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ قوم کے ہمدرد اپنے موبائل کا استعمال کرتے ہوۓ ظلم و جبر، آہ و فغاں اور آتشزدگی کے مناظر کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دور دراز بیھٹے ہوۓ ہر مسیحی کو گویا قوت بینائی بخش دیتے ہیں۔ شاباش ہے ایسے لیڈرز کو جو فورآ جاۓ حادثہ پر پہنچ کر حقیقی رپورٹنگ کرتے ہیں، شاباش ہے ان چرچز کو، چرچ لیڈر کو، منسٹریز کو، این جی اوز اور فلاحی تنظیموں کو جو نا صرف موقع پر پہنچتے ہیں بلکہ سامان ضرورت کی ترسیل کا کام بھی کرتے ہیں اور بعض سیاسی، رفاعی اور مذہبی قائدین مقامی، قومی، صوبائی قیادت کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں اور اپنے لوگوں کو نا صرف فوری طور پر رلیف دلواتے ہیں بلکہ ان کے مطالبات اور نقصانات کے ازالہ کی بھی سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ مگر افسوس ان شوسل میڈیا کے لیڈران پر جو نا کسی صحافی کو بخشتے ہیں نا ایم این اے، اہم پی اے اور خاص کر پادری اور بشپ صاحبان کو تو آڑھے ہاتھوں لیتے ہیں۔ ان میں بھی مزید تقسیم یہ ہے کہ کچھ ایسے شوسل میڈیا استعمال کرنے والے ہیں جو تمیز و اخلاق کو بلاۓ طاق رکھتے ہوۓ انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہ امن کے دنوں میں بھی پارلیمنٹرینز ، بشپ صاحبان اور پادری صاحبان کو نشانہ تنقید بناۓ رکھتے ہیں۔ یہ بطور فیشن بھی مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کو عتاب تنقید بنانے کو علمی سند سمجھتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو جنہیں ہنگامی حالات میں سیاسی اور مذہبی راہنماؤں پر دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ سیاسی اور مذہبی قائدین بالائے تنقید ہیں ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ واقعہ کوئی بھی ہو، سانحہ کوئی بھی ہو، خرابی کہیں بھی ہو اور تباہی کہیں بھی ہو ہمیں نہیں چاہیے کہ ہم ہر معاملے میں سیاسی اور دینی قائدین کو مورد الزام ٹھہرایا کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم کسی واقعہ کی سنگینی کی طرف زیادہ توجہ دیا کریں اور اس کا عملی حل بتایا کریں. مگر ہوتا الٹ ہے کہ بہت سے لوگ اصل حقیقت کو بھول کر سیاسی اور دینی قیادت کے جج بن جاتے ہیں اور سوو موٹو لے کر مقدمے کا فیصلہ مذہبی اور سیاسی راہنماؤں کے خلاف جاری کر دیتے ہیں۔ یہ فیصلہ کس قدر سنگین ہوتا ہے اس کیلئے شوسل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک تحریر کے الفاظ سے آپ کو اندازہ ہو جاۓ گا۔ کسی جیالے نے یہ رقم کر دیا ہے کہ پاسٹر جمیل ناصر کینیڈا کی حکومت پر دباؤ ڈالے کہ وہ پاکستانی مسیحیوں پر شفقت کی نظر کری اور پاسٹر انور فضل صاحب یو این او کے فورم پر پاکستانی مسیحی اقلیت کے متعلق اپنا مقدمہ پیش کریں اور جب تک یہ دونوں دینی راہنما اس حکم کی تعمیل نا کریں تب تک ان کی عبادات اور کروسڈز کا بائیکاٹ کیا جاۓ۔ میرے عزیزو یاد رکھیے کہ پاسٹر جمیل ناصر کینیڈا میں مقیم ہیں وہاں کے صاحب اقتدار نہیں ہیں اور نا ہی پاسٹر انور فضل یو این او کے سیکرٹری لگے ہوے ہیں۔
عرض مختصر یہ ہے کہ اول تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سیاسی قیادت اور دینی راہنماؤں کے دست و بازو بنیں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ہم کم از کم اپنی سیاسی اور دینی قیادت کو بیجا تنقید کا نشانہ نا بنائیں۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔