لاہور میں مسیحی قبرستانوں میں ناقص انتظامیہ اور لینڈ مافیا کا قبضہ

 

تحریر: فراز ملک

لاہور میں مسیحی برادری کے زیر استعمال گورا قبرستان، برصغیر میں برطانوی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہیں۔ یہ قبرستان صوبے کے بیشتر اضلاع میں موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر چھاؤنیوں میں واقع ہیں۔ برطانوی سلطنت میں جنگ عظیم دوم کے ہیروز، تقسیم سے پہلے کے دور کے مسیحی رہنما اور پاکستانی مسیحی مشہور شخصیات بشمول آرمی کے اعلیٰ حکام، سیاست دان، بیوروکریٹس، ججز، بشپ، پادری صاحبان، فنکار اور ماہرین تعلیم ان تاریخی قبرستانوں میں آرام کرتے ہیں۔ یہ مسیحی قبرستان شدید خراب بلکہ ناگفتہ بہ حالت میں ہیں، جس کی بنیادی وجہ ناقص انتظام اور دیکھ بھال کی کمی ہے۔ ان میں سے اکثر قبرستانوں کی صدیوں پرانی دیواریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور بعض جگہوں سے منہدم ہو چکی ہیں، حکومتی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے قبریں نابود ہو چکیں ہیں یاں لینڈ مافیا نے ان کے نام و نشان مٹا کر انہیں اپنے غاصبانہ مقاصد کے لیے اپنا شکار بنا لیا ہے۔ جب لینڈ مافیا اپنے ناپاک مقاصد کے لیے منصوبہ بناتا ہے تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ قبرستانوں میں نابود کی گئی کئی قبروں کے ساتھ ساتھ نئی قبروں کی زمین بھی ہڑپ کر لیں لہذا وہ پرانی اور قدیم قبروں کے ساتھ نئی قبروں کو بھی مسمار کر دیتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ زمین پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں۔ اس طرح قبرستانوں کی زمین بھی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے
لاہور میں مسیحی قبرستانوں کا انتظام مکمل طور پر چرچ کے زیر انتظام ہے جس کے پاس نہ صرف وسائل کی کمی ہے بلکہ ان مسائل کو سلجھانے اور لینڈ مافیا سے قبرستانوں کی جگہ واگزار کروانے کی طاقت اور صلاحیت بھی نہیں ہے اور وہ اس معاملے میں حکومت پنجاب سے تعاون اور توجہ کے خواہاں ہے۔
گندارا کے سابقہ چیئرمین یونیورسٹی آف واہ ڈاکٹر ندیم عمر تارڑ نے کہا کہ 70 سال سے پرانی ہر چیز آثار قدیمہ کا حصہ بن جاتی ہے اور اس بنیاد پر ریاست کے محکمہ آثار قدیمہ کی ملکیت بن سکتی ہے۔ جبکہ مسیحی قبرستان ایک صدی سے زیادہ پرانے ہیں اور ان میں مسیحی برادری کی مشہور و نامور شخصیات کی قبریں موجود ہیں جو کہ خطے میں ان کی بھرپور تاریخ کی عکاس کرتی ہیں۔ لہٰذا محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کو چاہیے کہ وہ ان قبرستانوں کا نوٹس لے اور حکومت سے ان کی مناسب دیکھ بھال کی اپیل کرے۔ برطانوی سلطنت کی باقیات کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں برطانوی سفارت خانے نے راولپنڈی کے ایک مسیحی قبرستان میں برطانوی رائلٹی اور دوسری جنگ عظیم کے ہیروز کی قبروں پر مشتمل اس علاقے کو باڑ لگا کر محفوظ کر دیا ہے تاکہ ان کو محفوظ رکھا جا سکے۔ یاد رہے کہ جب لیڈی ڈیانا پاکستان تشریف لائیں تو وہ خصوصی طور پر راولپنڈی کے گورا قبرستان گئیں کیونکہ ان کے ہیروز اور برطانوی شاہی خاندان کی کچھ قبریں وہاں موجود ہیں۔ لیڈی ڈیانا نے وہاں پھول بڑھاۓ اور اپنے سوۓ ہوۓ ہیروز کو سلام کیا۔ یہ ہوتی ہے اپنے قومی ہیروز اور اپنی تاریخ سے عقیدت۔ کیا ہمارے قبرستانوں میں ہمارے ہیروز مدفن نہیں ہیں؟ کیا یہ ہماری تاریخ کا حصہ نہیں ہیں؟ پورے پاکستان میں دوسری جنگ عظیم کے آثار دیکھنے ہوں تو وہ آپ کو مسیحی گورا قبرستانوں میں ملیں گے جہاں دوسری جنگ عظیم کی اجتماعی قبریں آج بھی موجود ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے آثار بھی مسیحی اداروں اور خصوصی طور پر حکومتی عدم توجہی کے باعث نابود ہوتے جا رہے ہیں۔ ہاں تو میں بات کر رہا تھا ڈاکٹر ندیم عمر تاڑر صاحب کی جہنوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ ملکی تاریخ اور ورثے کو بچانے کے لیے ان قبرستانوں کی حفاظت کو ترجیح دی جاۓ۔
ڈپٹی سیکرٹری محکمہ اوقاف فراز عباس نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ہندو اور سکھ اقلیتوں کے مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش محکمہ کی ذمہ داری ہے۔ مسیحی قبرستان محکمہ اوقاف، حکومت پنجاب کے اختیار میں نہیں ہیں۔ میں نے ذاتی طور پر محکمہ اوقاف اور متروکہ املاک کے محکموں سے دریافت کیا کہ کیا ان کے پاس مسیحی قبرستانوں کا ریکارڈ بھی موجود ہے تو مجھے سن کر افسوس ہوا کہ کسی محکمے کے پاس مسیحی قبرستانوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

پھر میں نے کرسچن سیمیٹری بورڈ پنجاب کے ممبر ریورنڈ مجید ایبل نے کہا کہ کرسچن ڈائیوسیز آف لاہور کے پاس مسیحی قبرستانوں کا ریکارڈ تو موجود ہے لیکن قبرستانوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے گرجا گھروں کے ممبرز سے معمولی چندہ اکٹھا کرتا ہے لیکن یہ فنڈز بہت کم ہوتے ہیں جن سے قبرستانوں کی تعمیر و تزئین، سیکیورٹی گارڈز، باغبان، بجلی، پانی اور آرائش کے اخراجات چرچ کے لیے پورا کرنا مشکل ہے۔ مسیحی قبرستانوں کی خستہ حالی کی بڑی وجہ وسائل کی کمی ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان میں مسیحیوں کی تاریخ کو مسخ کر رہا ہے بلکہ ملکی تاریخ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔   مزید برآں، انہوں نے تجویز دی کہ حکومت پنجاب مسیحی قبرستانوں کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کے معاملات کو سالانہ بنیادوں پر نمٹانے کے لیے ایک سرکاری ادارہ بنا کر کرسچن سیمیٹری بورڈ کو ایک علیحدہ فنڈ الاٹ کرے۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ اس سلسلے میں حکومت کو مالی معاملات میں شفافیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ ریورنڈ مجید ایبل نے حکومت پنجاب پر بھی زور دیا کہ وہ مسیحی قبرستانوں کے لیے نئی زمین کے حصول کو ترجیح دے، تاکہ ابھرتے ہوئے بحران کو کم کیا جا سکے۔
پریبٹیرین چرچ آف پاکستان کے ماڈریٹر پادری روبن قمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مسیحی قبرستانوں کر تعمیر اور بحالی کے لیے حکومت کو مسیحی قبرستانوں کے لیے فنڈز مختص کرے اور خصوصی طور پر قبضہ مافیہ سے قبرستانوں کی زمین کو واگزار کریا جاۓ۔
قبرستان کمیٹی کے ممبر پادری امجد نیامت نے بھی اپنے خیالات اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ دو تاریخی قبرستانوں یعنی جی ٹی روڈ گورا قبرستان اور گورا قبرستان راوی روڈ کی حالت زار دیکھ کر ہمیں انتہائی دکھ اور تکلیف ہوتی ہے جہاں غیر مسیحیوں کے ساتھ مل کر مسیحی قبضہ مافیا نے قبرستان کی پراپرٹی پر قبضہ کر رکھا ہے۔
سیاسی اور سماجی لیڈر ریاض آسی نے بتایا کہ فرانسس آباد ملتان روڈ کے مسیحی قبرستان کہ تقریبآ 7 کنال اراضی پر لینڈ مافیہ نے قبضہ کر رکھا ہے۔ دھرم پورہ گورا قبرستان کے چوکیدار سلیمان سے دریافت کیا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے قبرستان کی حفاظت کے لیے بہت سے جھگڑے مول لیے ہیں چونکہ قبضہ مافیا طاقت ور ہوتا ہے اس لیے میں ان کے سامنے بے بس ہوں اور انہوں نے قبرستان کی تقریبآ 3 کنال اراضی پر قبضہ کر کے پختہ مکان تعمیر کر لیے ہیں۔
یہ چند مسیحی قبرستانوں کی حالت زار اور قبضہ گروپس کی لوٹ مار کی کہانی ہے جبکہ کے لاہور میں گورا قبرستانوں کے علاؤہ موجودہ دور میں بناۓ گئے کئی قبرستانوں کی بھی یہی حالت ہے اور تقریبآ ہر مسیحی قبرستان ان مسائل کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک میں بسنے والی مسیحی عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ اور بے بس سمجھتی ہے۔ مسیحی عوام کا درینہ مطالبہ ہے کہ حکوت ہمارے قبرستانوں کر دیکھ بھال کے لیے مناسب فنڈ مختص کرے اور قبضہ مافیا ہماری جان چھڑاۓ۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading