تحریر: فراز ملک

جرگہ اور پنچائیت ایک قدیم عدالتی نظام ہے۔ ہمیں اس کا،وجود قدیم ویدوں میں بھی ملتا ہے۔ چونکہ قدیم العیام میں باقاعدہ اینٹوں سے بنی ہوئی عدالتیں نہیں تھیں اس لیے انصاف کے حصول کے لیے مقامی طور پر پنچائیتی نظام یاں جرگہ سسٹم رائج تھا۔ ہر پنچائیت میں ایک معتبر شخص کو ” سر پنچ ” یعنی پنچائیت کا سربراہ بنا دیا جاتا اور پنچائت مقدمہ سنتی دونوں فریقین کو اپنی صفائی اور سچائی کا بھرپور موقع دیا جاتا اور آخر میں پنچائیت باہمی صلاح مشورہ کر کے بذریعہ سر پنچ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتی۔ پنچائیت کا فیصلہ 100% حق بجانب اور انصاف کے عین مطابق سمجھا جاتا۔ کسی کی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ پنچائیت کے فیصلے کو نظر انداز کر دیتا۔ پنچائیت کا فیصلہ حتمی فیصلہ ہی ہوتا تھا یعنی آج کے دور کے مطابق پنچائیت یاں جرگہ سول کورٹ بھی، سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہی ہوا کرتی تھی۔
وقت گزرتا گیا، حالات تبدیل ہوتے گئے، نظام حکوت تبدیل ہوتے رہے، جاگیردرانہ نطام، نوابی سسٹم اور بادشاہی نطام اور پھر عوامی جمہوری نظام آ گیا مگر قدیم ویدوں میں نظر آنے والی پنچائیت یاں جرگہ سسٹم ویسے ہی رہا۔ اور آج سول کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ کے ہوتے ہوۓ بھی پنچائیتی نظام اور جرگہ سسٹم پوری طاقت اور قوت کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ پاکستان تقریبآ ہر صوبے میں پنچایت اور جرگے کے ذریعے سزائے موت تک زبانی حکم سنانے جاتے ہین۔ بعض کو گولیاں مار کر سزائے موت دی جاتی ہے۔ بعض کو سنگسار کیا جاتا ہے بلکہ قتل کے بدلے قتل کی سزا کا انصاف بھی کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ایسی سزائیں ہمارے عدالتی نظام میں ہرگز نہیں دی جاتی۔ پنچایت یاں جرگے میں رشتوں کے تبادلے میں بلا لحاظ عمر رشتے بھی کرواے جاتے ہیں اور عوام اسے اعلی ترین فیصلہ سمجھ کر نا صرف قبول کرتی ہے بلکہ ایسے فیصلوں کے قصیدے بھی گاتی ہے۔ آج بھی یعنی 21وین صدی میں پاکستان کی عوام پنچائیت اور جرگے کے وجود کو عدالتوں سے بہتر منصف مانتے ہیں اور ان کے ہر فیصلے کو عین انصاف کا فیصلہ تسلیم کرتے ہین۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں عدالتی جج اور جسٹس حضرات بھی رہائش پذیر ہوتے ہیں مگر پنچائیت یاں جرگہ انہیں اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ انہیں سر پنچ تو کیا پنچائیت یاں جرگے کا ممبر بھی تسلیم کر لیا جائے۔ چند ان پڑھ اکٹھے ہو کر چیف جسٹس بن جاتے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ پاکستان کے ہر صوبے میں پنچایت اور جرگے کو ہی اعلی ترین منصف سمجھا جاتا ہے۔
ہم انگریزوں کو لاکھ برا بھلا کہیں لیکن کم از کم میں ان کا یہ احسان تو سمجھتا ہوں کہ انہوں نے میری جان پنچایت اور جرگے سے چھڑوا کر مجھے انصاف کے لیے عدالتی نظام مہیا کیا ہے۔ جہاں مجھے انسانیت کے دائرے میں رہ کر سزا سنائی جاتی ہے۔ نا تو مجھے گولیوں سے چھلنی کرنے نا سنگسار کرنے اور نا میرا مونہہ کالا کر کے گدھے پر بیٹھا کر شہر کا چکر لگوانے کا حکم صادر فرمایا جاتا ہے۔ پسند کی شادی میرا بنیادی حق ہے۔ عدالتیں میرے اس حق کو تسلیم کرتی ہیں اور پسند کی شادی پر مجھے کبھی سزائے موت تو کیا ایک دن کی قید کا حکم بھی نہیں سنائیں گی لیکن پنچایت اور جرگہ میرے اس بنیادی حق کو کبھی تسلیم نہیں کرتا اور اسے ناقابل معافی اور سزائے موت کی سزا تک کا جرم سمجھ کر مونہہ کالا کر کے اسے گولیوں سے چھلنی کرنے کا حکم صادر فرما دیتا ہے۔
میں عوام سے پوچھتا ہوں کیا یہ درست ہے؟ اگر درست ہے تو پورے ملک سے عدالتی نظام کو ختم کرنے کی تحریک چلائی جاۓ اور اگر غلط ہے تو پورے ملک سے پنچائیتی اور جرگہ سسٹم کو ختم کیا جاے۔ جن شہروں میں پنچایت اور جرگہ نہیں کیا وہاں انصاف نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں عدالتوں میں پنچائیت اور جرگے سے ہزار گناہ بہتر انصاف ہوتا ہے اور غیر انسانی سزاؤں کو موقوف کر کے انسانی سزائیں سنائی جاتی ہین۔
آئیے ہم ہر صوبے اور ہر شہر میں اپنے انصاف کے حصول کے لیے عدالتی نظام انصاف کو ہی بہتر کہیں اس کی حمایت کریں اور عدالت کو پنچائیت اور جرگے سے بہتر منصف تسلیم کریں۔ اگر آپ نے پنچائیت یاں جرگے کی حمایت ہی کرنی ہے تو کم از کم پنچائیت اور جرگے سے غیر تفویض کیا گیا سزائے موت اختیار استعمال کرنے پر تمام جرگہ کو عمر قید کی سزا سنائی جاۓ۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading