حلقہ NA 127 لاہور کا ایک سیاسی تجزیہ

 

تحریر: فراز ملک

ملک بھر میں آج کل ہر طرف الیکشن کی گہما گہمی ہے۔ کہیں جلسے جلوس، کہیں کارنر میٹنگز تو کہیں جوڑ تور کا سلسلہ جاری ہے۔ جس طرف دیکھیں بینرز اور فلیکسز آویزاں نظر آتے ہیں۔ وطن عزیز کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں الیکشن 2024 کی رونقیں نہ لگی ہوں۔ پورے ملک کی طرح لاہور شہر میں بھی سیاسی پارہ عروج پر ہے اور ہر حلقہ میں الیکشن کے ترانے سنائی دیتے ہیں۔ لاہور میں تین حلقے ایسے ہیں جو انتہائی اہم ہیں یعنی NA 123 اس حلقے کی اہمیت یہ ہےکہ یہاں سے مسلم لیگ ن کے دو مرکزی قائدین الیکشن لڑ رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے شہباز شریف اور صوبائی اسمبلی کے لیے مریم نواز شریف یعنی NA 123 سے شہباز شریف اور PP 159 سے مریم نواز۔

دوسرا حلقہ NA 130 لاہور کا ہے جہاں سے صدر مسلم لیگ ن نواز شریف صاحب خود میدان میں اترے ہیں یہ ان کا دیرینہ حلقہ ہے۔ ان کا پی ٹی آئی سے کانٹے دار مقابلہ ہونے کی توقع کی جا رہی تھی مگر اب پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن جانے کے بعد اس حلقے میں انتخابی نتائج کی صورتحال مختلف نظر آ رہی ہے۔

اب رہی بات لاہور کے اہم ترین حلقہ NA 127 کی بات تو یہ حلقہ اس لیے سب سے اہم بن گیا ہے کہ تقریباً 28 سال بعد پیپلز پارٹی کے کسی چیرمین نے لاہور کے کسی حلقے سے الیکشن لڑنے کی جرات کی ہے۔ اب کے پیپلز پارٹی کے نوجوان چیرمین بلاول بھٹو زرداری خود اس حلقہ سے میدان میں اترے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے عطا محمد تارڑ اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار ظہیر عباس کھوکھر قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ لیکن اس حلقہ میں اب تک ظہیر عباس کھوکھر صاحب کی کوئی الیکشن مہم نظر نہیں آ رہی ۔ ایک توقع یہ بھی کی جا رہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں یہ معاہدہ ہو چکا ہے کہ جس حلقہ میں پی ٹی آئی کا امیدوار کمزور ہو گا اور پیپلز پارٹی کا امیدوار مضبوط ہو گا وہاں پی ٹی آئی کا امیدوار پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حق میں دستبردار ہو جاۓ گا اور جہاں پی ٹی آئی کا امیدوار تگڑا ہو گا وہاں پیپلز پارٹی کا امیدوار پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہو جاۓ گا۔ چونکہ الیکشن میں کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں اور اس حلقہ میں پی ٹی آئی الیکشن لڑتی نظر نہیں آ رہی ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ متذکرہ بالا معاہدے کے تحت پی ٹی آئی کے امیدوار ملک ظہیر کھوکھر چیرمین بلاول بھٹو زرداری کے حق میں دستبردار ہو جاۓ۔ اگر ایسا ہوا تو پھر الیکشن پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہی ہو گا۔
غور طلب بات ہے کہ آخر چیرمین بلاول بھٹو کو کیا نظر آیا کہ وہ خود کو لاہور کے حلقہ NA127 میں سے میدان میں اتاریں۔ یاد رہے کہ کسی پارٹی کے چیرمین کا الیکشن میں شکست سے دو چار ہونا پارٹی کے لیے بہت ندامت کی بات بن جاتی ہے اور خاص طور پر مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے چیرمین کا کسی حلقے سے شکست کھا جانا پارٹی کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

ان سب باتوں کو جانتے ہوے آخر کار وہ کون سے عوامل تھے کہ بلاول بھٹو زرداری کو اس حلقے سے اپنی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو اس جنگ میں اتار دیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ گزشتہ 28 برس سے پیپلز پارٹی لاہور کے کسی ایک حلقے سے بھی کوئی الیکشن نہیں جیت سکی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی بری طرح کمزور ہو چکی ہے اور خصوصاً لاہور میں پیپلز پارٹی کا الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا کرشمے والی بات ہے۔ مگر پھر بھی انہوں نے یہ رسک لیا اور خود ہی میدان جنگ میں اتر آۓ۔
آیئے غور کرتے ہیں کہ کن امیدوں، سہاروں اور وعدوں پر بلاول بھٹو زرداری نے بھر پور اعتماد کے ساتھ حلقہ NA 127 سے الیکشن لڑنے کی جرات کی۔

.2018 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے پرویز ملک نے اسی حلقہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصلِ کی مگر ان کی وفات کے بعد ضمنی انتخاب میں ان کی اہلیہ شائشتہ پرویز ملک نے 2023 میں الیکشن لڑا۔ شائستہ پرویز کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے امیدوار جمشید چیمہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اسلم گل تھے۔ چونکہ جمشید چیمہ صاحب کے کاغذات مسترد ہو گئےاور وہ الیکشن سے آوٹ ہو گئے لہذا یہ الیکشن ون ٹو ون یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہو گیا۔ یہی موقع تھا کہ زرداری صاحب جیسے زیرک سیاستدان نے بہترین فیصلہ کیا کہ اگر پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو لاہور شہر میں زندہ کرنا ہے تو اس ضمنی الیکشن میں سر دھڑ کی بازی لگا دے تو پاکستان پیپلز پارٹی لاہور میں زندہ ہو سکتی ہے لہذا انہوں نے اسلم گل کو اس حلقہ میں سے ٹکٹ دی اور انہیں قومی اسمبلی کے اس حلقہ سے میدان میں اتارا۔ انہوں نے پوری پارٹی کو ہدایت کی کہ پارٹی کا ہر ممبر پورا زور لگا دے کہ اسلم گل کو کامیاب کروایا جاۓ۔ چونکہ اس حلقہ میں بہار کالونی اور مریم کالونی بھی شامل ہیں جن میں مسیحی برادری کے تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے انہوں نے ان مسیحی آبادیوں کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دیں اور انہوں نے پوری ایمان داری سے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ جس کے نتیجے میں اسلم گل صاحب نے تقریباً 33 ہزار ووٹ حاصل کیے مگر وہ جیت نہ سکے۔ ان کے مقابلے میں شائشتہ پرویز ملک نے تقریباً 11 ہزار زیادہ ووٹ حاصل کیے اور فتح مند قرار پائیں۔ اسلم گل صاحب ہار تو گئے مگر انہوں نے آصف علی زرداری صاحب کو جیت لیا اور زردادی صاحب نے دیکھ لیا کہ لاہور کے حلقوں میں سے پیپلز پارٹی کے لیے سب سے زرخیز حلقہ یہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ زرداری صاحب نے اسی وقت فیصلہ کر لیا ہو کہ آنے والے جنرل الیکشن میں ہمیں اسی حلقہ سے اپنا امیدوار اتارنا چاہیے۔ لہذا 2024 کے الیکشن میں زردادی صاحب اور بلاول بھٹو نے ملکر فیصلہ کیا ہو کہ اب بلاول بھٹو زرداری خود اس حلقہ سے میدان میں اتریں گے اور یہ بھی بتا دوں اگر بلاول بھٹو یہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو وہ یہ سیٹ اپنے پاس رکھیں گے اور باقی جیتی ہوئی نشستوں سے دستبردار ہو جائیں گے۔

حلقہ Na127 نواز شریف اور شہباز شریف کے ماڈل ٹاؤن والے گھر کی بیک سائیڈ سے شروع ہوتا ہے اور ماڈل ٹاؤن کا کچھ حصہ، بہار کالونی، ٹاؤن شپ ، گرین ٹاؤن، کچا جیل روڈ اور چونگی امر سدھو کا کچھ حصہ بنک سٹاپ تک اس حلقہ میں آتا ہے۔ یہاں کی آبادی تقریباً ساڑھے نو لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور تقریباً پانچ لاکھ ووٹ موجود ہیں۔ اس حلقے میں بہار کالونی اور ماڈرن کالونی دو ایسے ایریا ہیں کہ جن میں۔ مسیحیوں کی کثیر آبادی مقیم ہے اس کے علاؤہ مریم کالونی میں بھی مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان ایریاز کے ووٹ ہار جیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ گزشتہ ضمنی الیکشن میں بھی مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد نے اسلم گل صاحب کو ووٹ دیا تو ان کے 33 ہزار ووٹ بنے۔ اس الیکشن میں بلاول اور زرداری صاحب کو یقین ہے کہ مسیحی انہیں ووٹ دیں گے اور اسی پر اعتماد کرتے ہوۓ انہوں نے بلاول بھٹو کو اس حلقہ میں اتارا ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے طور پر اور بھی بہت سے جوڑ توڑ کیے ہیں جن میں سب سے بڑی حمایت ادارہ منہاج القرآن کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ اس کے علاؤہ اس حلقے میں بھٹی برادری کافی تعداد میں ہے اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کے جاں نثار فیاض کو پیپلز پارٹی میں شامل کر لیا ہے، یاد رہے کہ 2018 کے الیکشن میں فیاض بھٹی پی ٹی آئی کی ٹکٹ سے اسی حلقہ سے سعد رفیق کے مقابلے میں صوبائی الیکشن لڑ چکے ہیں اور ایک با اثر شخصیت ہیں۔ اس کے علاؤہ اس علاقے میں رائیونڈ تک کھوکھر برادری سب سے مضبوط ترین برادری ہے۔ 2024 کے الیکشن میں کھوکھر برادری سے تقریباً 8 امیدواران الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے 127 کے ایک صوبائی حلقہ سے کھوکھر برادری کے ایک نوجوان منظر کھوکھر کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا ہے اور وہ صوبائی حلقہ 162 سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یعنی اس حلقہ کی کھوکھر برادری کی حمایت بھی حاصل کر لی ہے۔ اس کے علاؤہ پیپلز پارٹی کے پرانے لیڈر فیصل میر جو ہر دفعہ اس حلقے سے الیکشن لڑتے ہیں بلکہ انہوں نے لاہور میں پیپلز پارٹی کو ژندہ رکھا ہوا ہے ان کا اپنا اثر رسوخ بھی ہے۔ چند دن پہلے بلاول بھٹو چوہدری اعتزاز احسن کے گھر گئے اور انہیں بھی منا لیا۔ انہوں نے بھی بلاول بھٹو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس کے علاؤہ چوہدری محمد سرور صاحب سے بھی ملاقات کی چوہدری صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ وہ خود اس حلقہ میں بلاول کی کمپئین کریں گے اور شاید چند دنوں وہ پیپلز پارٹی میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان بھی کر دیں۔ کل سے زرداری صاحب نے بھی لاہور میں ڈیرے ڈال لیے ہیں جو کرشماتی طور پر اس حلقے کی رائے ہموار کر لیں گے۔ اور توقع ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اس حلقہ سے بھاری تعداد میں ووٹ لے کر منتخب ہوں گے۔ شاید بلاول بھٹو زرداری صاحب کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہوگی۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading