تحریر: فراز ملک
دو دن پہلے لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک فیشن ایبل خاتون سجی دھجی نظر آئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ خاتون عجیب فساد اور ہنگامہ آرائی کا باعث بن گئی۔ وجہ یہ تھی کہ اس خاتون نے جو کرتا زیب تن کر کھا تھا اس پر عربی الفاظ پرنٹ ہوۓ تھے۔ اس خاتون کی صرف یہی غلطی نہ تھی کہ اس نے محض عربی الفاظ تحریر کندہ کرتا پہن رکھا تھا بلکہ اس کی یہ بھی غلطی تھی کہ وہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ فیشن ایبل بھی تھی۔ چند ہی لمحوں میں پورے بازار میں شور وغوگا برپا ہوگیا گیا۔ پکڑو پکڑو جانے نہ پاۓ۔ توہین توہین کی آوازیں بلند ہونی شروع ہوگئیں۔ بس پھر کسی نے نہ پوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔ ہر دوکاندار، راہی اور ہر شہری مجاہد اسلام بن کے اس خاتون کا جانی دشمن بن بیٹھا۔ بڑی کھیینچا تانی ہوئی ہزاروں لوگ اکٹھے ہو گئے اور عجیب افراتفری کا منظر بن گیا۔ نا جانے کیسے کسی نے علاقہ پولیس کو فون کر دیا یا معجزاتی طور پر پولیس وہاں تشریف لے آئی۔ پولیس کی مہربانی کہ اس نے اس خاتون کو حراست میں لے لیا اور عوام کو یقین دلایا کہ اس گستاخ خاتون کو قرار واقعی سزا دی جاۓ گی۔ عوام کا غم و غصہ بلکہ قہر و غضب کچھ ٹھنڈا پڑا تو پولیس اسے اپنے ہمراہ تھانے میں لے گئی۔ تھانے میں اپنی جان بچانے کے لیے اس خاتون نے اپنے آپ کو انتہائی پختہ مسلم گھرانے کا فرد ثابت کرتے ہوۓ فرمایا کہ میرے سسر خافظ قرآن ہیں اور میں ایک مظبوط مسلم گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں میری کم علمی ہے کہ میں نے اپنے کرتے پر لکھے ہوۓ عربی الفاظ پر غور نہیں کیا اور اسے پہن کر بازار میں آ گئی۔ حالانکہ میں اپنی جان سے زیادہ عربی زبان کا احترام کرتی ہوں۔ مجھے اپنے آپ پر شرمندگی ہے اور معافی چاہتی ہوں کہ میں نے مسلم برادران کے جذبات کو مجروع کیا ہے۔ مجھے اس وعدے پر معافی دی جاۓ کہ آئندہ ایسے کبھی نہیں ہوگا۔
اس خاتون کے ساتھ کیا ہوا اسے معافی ملی یا نہیں ملی لیکن یہ تو دیکھ لینا چاہیے کہ اس خاتون کے کرتے پر عربی میں لکھا کیا تھا جس سے ہزاروں برادران حق کے جزبات مجروع ہوۓ اور ان کا غیض و غضب بھڑک اٹھا۔ تو جناب اس خاتون کے کرتے پر عربی شکل میں لفظ ” حلوہ” تحریر تھا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ لفظ حلوہ لکھنے سے کس کی توہین ہوئی، اور کیوں جذبات بھڑک اٹھے۔ جن کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس خاتون وقتی مناسبت کے ساتھ خود کو مجرم تسلیم کر کے اپنی جان بچائی۔ یاد رہے کہ سعودی عرب میں مرد و خواتین کئی ایسے لباس زیب تن کرتے ہیں کہ جن میں عربی میں چارمنگ، خوبصورت اور سویٹ جیسے لفظ لکھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی ٹی شرٹ پر بھی انگریزی زبان کے کئی الفاظ اور جملے لکھے ہوتے ہیں۔ مگر کبھی ایسی ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی کیونکہ وہ تو انگریزی زبان میں لکھے ہوتے ہیں۔ اس دفعہ انگریزی کی بجاۓ عربی زبان میں لکھا لفظ ” حلوہ” دیکھنے میں آیا تو کسی بھی عاشق عربی نے یہ دیکھنے کی زحمت ہی گورا نہ کی کہ دیکھ ہی لیں لکھا کیا ہے۔ بلکہ آو دیکھا نہ تاؤ دیکھا اور شور شرابا شروع کر دیا۔
وجوہات در اصل یہ ہیں کہ اول تو ہم نے سمجھ لیا ہے کہ عربی زبان خدائی زبان اور مقدس زبان ہے۔ اس زبان میں کچھ بھی لکھا ہو وہ ہمارے لیے متبرک ہے، دوئم یہ کہ ہم انتہائی جنونیت کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں اور بلا سوچے سمجھے اپنے جذبات مجروح کر بیٹھتے ہیں اور تیسری وجہ ہماری جہالت ہو سکتی ہے۔ جو شاید سب سے بڑھ کر ہو۔ چند سال پہلے گجرانوالہ میں ایک مسلمان عطائی ڈاکٹر ( غیر مستند) جہالت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ہوا یوں کہ محلے کی مسجد میں اعلان ہوا کہ ایک عطائی ڈاکٹر نے اسلام کی توہین کی ہے۔ لوگوں نے سمجھا کہ ایک ” عیسائی” ڈاکٹر نے اسلام کی توہین کی ہے بس پھر کیا تھا عوام کی یلغار ہوئی اور اس مسلمان ڈاکٹر کی جان کا صفایا کر دیا۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ عیسائی نہیں بلکہ عطائی ڈاکٹر ہے جو کہ مسلمان ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ اسے جہالت کا نام نہ دیا جاۓ تو کیا کہا جاۓ۔ ایک سٹیج ڈرامہ میں میں کسی مزاحیہ اداکار نے ایک واقعہ سنایا کہ میں سعودی عرب میں تھا میں اور میرے ساتھ ایک اور پاکستانی سفر کر رہے تھے کہ راستے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر عربی میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ اس پاکستانی شہری نے اسے اٹھایا اور چوم کر ایک اونچی جگہ پر رکھ دیا۔ میں نے وہ کاغذ کا ٹکڑا پکڑا اور پڑھا تو اس پر عربی زبان میں ” بیت الخلاء” لکھا ہوا تھا۔ اندازہ کر لیجیے کہ ہم کس قدر جنونی ہو چکے ہیں کہ عربی زبان میں لکھا ہوا ہر لفظ بلا امتیاز معنی ہمارے لیے کس قدر مقدس و متبرک بن جاتا ہے۔ یہی تقدس اچھرہ بازار میں ہوا۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم جہالت سے دانشمندی کا سفر شروع کریں اور کوئی بھی مذہبی انتہا پسندی کا قدم اٹھانے سے پہلے لاکھ دفعہ غور خوض کر لیا کریں۔