تحریر: فراز ملک
الیکشن 2024 میں منتخب ہونے والے معزز اراکین اسمبلی آخر کار اسمبلی میں پہنچ ہی گئۓ ہیں۔ اور پہلے اجلاس سے لے کر اسمبلی کی ہر کاروائی ٹی وی پر دیکھی تو میں حیران رہ گیا بلکہ پہلے تین چار روز سے دیکھ رہا ہوں کہ قومی اسمبلی مجھے بازاری لڑکوں کی منڈی نظر آتی ہے جنہوں نے دہنگا فساد اور ہلڑ بازی کا نام احتجاج رکھ دیا ہے حالانکہ یہ معزز اراکین اسمبلی ہیں جنہیں عوام نے ہزاروں ووٹ دے کر اسمبلی تک پہنچایا ہے۔ کیا ووٹوں کی قدر و قیمت یہ ہوتی ہے کہ نہ خود کوئی بات کرو اور نہ کسی دوسرے کو بات کرنی دی جاۓ۔ اسمبلی کا اخلاقی معیار اس قدر گر گیا ہے کہ اراکین اسمبلی سر عام ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اور دست و گریباں ہونے کی از حد کوشش کرتے ہیں۔ کیا یہ اسمبلی میں طوفان بدتمیزی برپا کرنے کے لیے منتخب کیے گئے تھے؟
کیا اسمبلی میں ایک دوسرے کو گالیاں دینے کے لیے ان کا انتخاب کیا گیا تھا؟ اسمبلی کے یہی اراکین جب الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں تو بڑے بڑے اشتہارات چھپوا کر دیواروں پر چسپاں کر دیتے ہیں۔ ” اعلیٰ اخلاق کے حامل نہایت نیک ایماندار اور شریف قیادت” لیکن جب اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ نہ یہ اعلیٰ اخلاق کے حامل ہیں نہ نیک نہ ایماندار اور نہ ہی شریف ہیں۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ اسمبلی میں ان کا رویہ بتاتا ہے کہ یہ صرف شور شرابہ کرنے کے لیے اسمبلی تک پہنچے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں کہ یہ اسمبلی چلنے ہی نہیں دیں گے ہم ہر اجلاس میں احتجاج کے نام پر ہلڑ بازی کریں گے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ کڑوروں روپیہ لگا کر اور لاکھوں ووٹ لے کر صرف اسمبلی کی کاروائی روکنے کے لیے اس مقدس ایوان تک پہنچے ہیں؟ ان کی شرط یہ ہے کہ اقتدار ہمیں دو تو ہم خاموش رہیں گے اور اگر اقتدار ہمارے پاس نہیں آتا تو ہم قطع نظر اس کے کہ ملک کا کیا نقصان ہو رہا ہے.
ہم اسمبلی کا اجلاس نہیں چلنے دیں گے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کے یہ معزز اراکین تقریباً چار لاکھ روپیہ بطور ایم این اے ماہانہ تنخواہ حکومت سے وصول کر رہے ہیں۔ تنخواہ کے علاؤہ مراعات الگ ہیں۔ اسمبلی کے ہاسٹل میں ہر ایم این اے نے اپنی عیاشی کے لیے کمرہ بک کروایا ہوتا ہے اور شاہانہ انداز میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہاسٹل سے اسمبلی ہال تک پہنچنے کے لیے آمد و رفت کے پیسے الگ سے وصول کرتے ہیں اور اسمبلی میں ان کی کارکردگی یہ ہوتی ہے کہ شور شرابہ، گالی گلوچ، دست و گریباں، کبھی کبھی تو کرسیاں بھی چل جاتی ہیں اور مدعا یہ ہوتا ہے کہ ہم اسمبلی کا اجلاس نہیں چلنے دیں گے۔ انہیں کوئی خدا خوف ہی نہیں کہ در حقیقت اسمبلی کا اجلاس چلانے کے لیے ہی تو عوام نے آپ کو ووٹ دیے ہیں لیکن آپ اسمبلی کا اجلاس ہی نہیں چلنے دیتے، نہ یہ سپیکر کی سنتے ہیں، نہ حزب اقتدار اور نہ ہی مقرر کی اور نہ ہی صلح صفائی کروانے والے اراکین اسمبلی کی۔ کبھی ہنگامہ آرائی کرتے ہیں تو کبھی بائیکاٹ کرتے ہیں۔ کبھی احتجاجآ اسمبلی سے باہر چلے جاتے ہیں۔ کیا عوام کے ٹیکسز سے اکھٹے ہونے والا روپیہ پیسہ انہیں اس لیے دیا جاتا ہے کہ اسمبلی میں بھرپور طوفان بد تمیزی کا مظاہرہ کیا جاۓ۔ ایک ایم این اے ہر مہینے تقریباً دس لاکھ میں پڑتا ہے۔ ان کی حالت دیکھ کر کیا یوں نہیں لگتا کہ یہ کراۓ کے احتجاجی ہیں۔
جو احتجاج کرنے کا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ یہ واقعی وہ احتجاجی ہیں جزب اقتدار سے بھاری رقوم یہ کہہ کر وصول کرتے ہیں کہ ہم نے تمہارے ساتھ انتہا کی بدتمیزی نہیں کی؟ ہمیں لاکھوں روپیہ دو، ہم نے تمہیں بھرپور گالم گلوچ نہیں کیا؟ ہمیں پیسے دو، ہم مار پیٹ پر نہیں اترے؟ ہمیں پیسے دو اور کیا ہم نے اجلاس کا بیڑا غرق نہیں کیا؟ ہمیں پیسے دو۔ میں سوال یہ ہے کہ کیا آپ نہیں یہ احتجاج بھی کبھی کیا ہے کہ آج سے ہم اپنے آخری احتجاج تک کبھی تنخواہ نہیں لیں گے، کیا کبھی یہ بھی احتجاج کیا ہے کہ ہم آنے جانے کا کرایہ نہیں لیں گے۔ ہم اسمبلی ہاسٹل میں روم نہیں لیں گے اور ہم کوئی بھی دوسری مراعات کبھی نہیں لیں گے؟ یہ احتجاج تو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ ہاں ہم نے یہ ضرور دیکھا ہے احتجاج کے نام پر شور شرابا، شور و غوغا اور گلم گلوچ کی فضاء قائم کیے رکھتے ہیں اور اس کام کے تنخوائیں اور دیگر فوائد حاصل کرکے ملک قوم اور اسمبلی کو پوری دنیا میں بدنام کرتے ہیں۔ انہیں ملک و قوم سے کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ یہ تو کراۓ کے احتجاجی ہیں۔ یہ احتجاج کر کے اپنی دہاڑی مانگتے ہیں۔