”سانحہ در سانحہ معروف مسیحی گاؤں خوشپورتاریخی حقائق کے ہمراہ“

تحریر گمیلی ایل ڈوگرہ

گزشتہ دنوں لاسال برادرز تنظیم کے سینئیر برادر ریورنڈ برادر شہزاد گل کے دو بھائی ندیم گل اور امین گل کو ایک معمولی تنازعہ کے نتیجہ میں کرسمس کے دنوں میں موت اچانک نگل گئی اور یہ واقعہ کرسمس 2023 کے دنوں میں پیش آیا- اس گاوں میں ایسے سانحات کا سلسلہ نیا نہیں پچھلی دو دہائیوں سے ہے قارئین راقم الحروف کاتعلق بھی اسی گاوں سے ہے اور وہ اپنی آنکھوں سے ایسے سانحات در سانحات دیکھتا آیا ہے اور یہ سانحات قومی المیہ کی شکل اس وقت اختیار کر گئے جب دو دہائیوں سے سوگوار کیفیت اس گاوں پر طاری ہے
دیکھا جائے تو تاریخی پس منظرمیں1998 کو آنجہانی بشپ جان جوزف کی امتیازی قوانین کے رائج ہونے کے خلاف شہادت اس کے بعد ریورنڈ فادر جارج ابراہیم کو رینالہ خورد اوکاڑہ میں مذہبی تعصب کے تحت شہید کر دیا گیا2 مارچ 2011 میں آنجہانی وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بے دردی سے شہید امتیازی قوانین پر تحریک چلانے کے نتیجے میں شہید کر دیا گیا آنجہانی بشپ جان جوزف اور آنجہانی وفاقی وزیر شہباز بھٹی کی شہادتوں پر پوری دنیا میں کہرام و اضطراب مچ گیا اور حکومتوں اور بین الا اقوامی سطح پر صف ماتم بچھ گئی اقلیتوں کی تحریک کا شیرازہ بکھر گیا جس کےاثرات موقع پرستوں کے رویے نے بعد ازاں سارا پول کھول دیا۔محترم جارج کلیمینٹ سابقہ ایم این اے کرونا کی زد میں لقمہ اجل ہوگئے جاوید سندھو میریٹ ہوٹل راولپنڈی میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے چند سال قبل دوخاندانوں کے تین نوجوان لڑکا لڑکیاں موٹر وے پر چلتی گاڑی کے آگ لگنے سے جھلس گئے ان حادثات کے علاوہ ایسے بے شمار المیہ واقعات سےگاوں کی کمیونٹی جس دکھ کرب اور ملال سے گزری اسے یاد کریں تو آنکھیں آج بھی نم ہو جاتی ہیں لیکن شکریہ پورے ملک سے لوگ ماتم کرتے ہوئے میرے گاوں ان حالات میں پہنچتے اور شہدا سے دہشت گردی کاروائیوں کی مذمت اور ملزمان کو سزا دینے کے لیےاحتجاج بھی کرتے خوشپور کی سیاسی سماجی اور مذہبی خدمات کا تذکرہ کروں تو بہت سی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں کیونکہ یہاں کی مسیحی قیادت کا تذکرہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ انکی خدمات کا سلسلہ پاکستانی اقلیتوں کے لیے قومی سطح پر انکا کیتھولک چرچ کے نیٹ ورک کیٹی کسٹ ٹرینگ انسٹیٹوٹ کے علاوہ سماجی و سیاسی خدمات کے حوالے سےلیڈنگ رول بڑی اہمیت کا حامل ہے کیتھولک کلیسیائی حلقوں میں خوشپور کو ویٹیکن سٹی آف پاکستان انکی گراں قدر مذہبی خدمات کے تحت کہا جاتا ہے جس کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے جو ہمارے سماج میں رہ کر لوگوں کی مدد کرتے اور اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں گاوں خوشپور 1898 سے اس وقت معرض وجود میں آیا جب کیپوچن مشنریز میں سے بانی خوشپور ریورنڈ فادر فیلکس نے برطانوی حکمرانی کے دور میں اپنی کلیسیا کو سیالکوٹ سے مسیحیوں کو یہاں سلونی جھال سے 126 گ ب کی نہر لوئیرگوگیرہ برانچ کے کنارے کی پٹی پر انیسویں صدی کے اوائل میں مسیحیوں کو آبادکرنا تھا جہاں آج 8مسلم اور ایک مسیحی گاوں آباد ہیں گھنے جنگل کے تلف کرنے اور آباد کرنے کے چیلنجز کا سامنا اس وقت کے بیشتر مسیحیوں نے نہ کیا لیکن جن خاندانوں نے ان چیلنجز کا سامنا کرکے برطانوی حکومت سے ایک سو مربع رقبہ الاٹ کروالیاانکی قربانیوں اورخون سے یہ دھرتی سینچی گئی پاکستان کے سیاسی حلقے خوشپور کو مسیحی شہیدوں کی دھرتی بھی کہتےہیں جس کا پاکستانی اقلیتوں کے لیےتحریکوں اور شخصیات کا سیاسی سماجی اور مذہبی بیداری میں اور قومی سطح پرکارناموں کی انجام دہی میں کوئی ثانی نہیں ہے میری اس گاوں سے تاریخی مطالعہ اور ریسیرچ کی وجہ میرے دادا چوہدری رحمت ڈوگرہ المعروف رحمت بھگت کی مجھے بچپن سے گاوں خوشپور کی آباد کاری کی وہ کہانیاں ہیں جو انکے سینے سے اور بعد ازان گاوں کے دیگر بزرگوں سے مجھےمنتقل ہوئیں ادھر میرے دادا کے باپ یعنی میرے پردادا منشی گلاب پیٹر ڈوگرہ بانی خوشپور فادر فیلکس کے پڑھے لکھے بانی ساتھیوں میں سے ایک شخصیت تھے جو منشی سہدا ریورنڈ بشپ روفن انتھنی مرحوم کے دادااور شاعر قربان اللہ پال فدا مرحوم کے والد محترم منشی لعل دین اور گاوں کے بزرگوں کی ایک بہت بڑی لاٹ تھی اور یہاں کے گھنے جنگل کو آباد کرکے خوشپور کے لوگوں نے اس زمین کو ہموار کیا انگریز کے نہری نظام کے رائج کرنے کے بعد اس علاقے کی جب آباد کاری ہوئی تو مختلف خاندان یہاں آباد ہوگئے انکی تفصیل ریورنڈ فادر عمانوایل آئزک کی کتاب خوشور ایک سمندر میں سراہت سے موجود ہے لائیل پور (موجودہ ضلع فیصل آباد) تحصیل سمندری شہر سے 15 کلو میٹر (گوجرہ روڈ) کے فاصلے پر اس کےنواح میں چکنمبر 51 گ ب خوشپورگاوں کا وجود ہے جس میں سہوترہ خاندان جس میں ڈوگری والا ڈوگرہ اور دیگر خاندان اسی طرح چک والا یعنی بھٹی خاندان بڈھیانہ خاندان کھوکھر گل خاندان دوکیانیانوالا راجپوت خاندان اور دیگر مسلم خاندان آباد ہوئےکمیونٹی کی تاریخ بتاتی ہے کہ تحریک پاکستان کی حمایت میں مسیحیوں کو کیتھولک مشن کی قیادت میں گاوں کےکرتا دھرتا سربراہ نمبردار جی جیکب نے اس علاقے کے مسیحیوں کو لیڈ کرتے ہوئے باونڈری کمشن کو مسیحیوں کے علاقوں کو پاکستان میں شامل کرنے کی درخواست دی تھی اور بانی پاکستان قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا گاوں میں مذہبی وسماجی ہم آہنگی کی مناسبت سے ایک بہت بڑی مثال ہے
اس گاوں کے پس منظر میں ماضی کے دریچوں میں جھانکنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس گاوں کی ترقی اور تنزلی کا احاطہ کیا جا سکے کہ کہاں پر قیادت اور راہنمائی کرنے والوں میں کوتاہیاں اور غلطیاں ہوئیں ہیں تاکہ ہم انہیں دوبارہ نہ دوہرائیں۔
گاوں کی مجموعی آبادی کا انحصار کھیتی باڑی پر ہی رہا ہے
جی جیکب سربراہ نمبردا نے گاوں کو تقریباً چرچ کے ساتھ منسلک رہ کر بیسویں صدی کے آغاز سے کمیونٹی کےبطور انتظامیہ ہیڈ اورکچھ مدت کے لیے بعد ازاں بابو نبی بخش ہربنس نمبردار کھیڑا محترم علامہ پال ارنیسٹ نمبردار وغیرہ رہے۔اسکے بعد پنجاب ریوینیو سے اٹھارٹی کے تحت بطور نمبردارجیمل شاہ ڈوگرہ اگسٹین نمبردار سربراہ برکت سندھو اور پال جوزف نمبردار وغیرہ نے لیڈکیا کمیونٹی انکی قیادت سے بہت حد تک مطمئین تھی لیکن کچھ پہلووں پر خاندانی سیاسی اور غیر ضروری غلبے پر نامطمیئن بھی ولج کمیونٹی سے ان پر مختلف مثبت و منفی آرا بھی موصول ہوتی رہیں۔
1980 کی دہائی میں پہلی دفعہ ڈسٹرکٹ کونسل فیصل آباد میں چوہدری جاوید طوطا کی شکل میں گاوں کو نمائیندگی نصیب ہوئی اسکے بعد پختہ سڑک مہنگا گاڈیا روڈ انکو شہر سمندری تک رسائی کا آسان راستہ اس کی ترقیاتی کاموں میں ایک نمایاں کام قابل ذکر ہے۔ کیتھولک چرچ کے نظام تعلیم کے تحت یہاں ہائی سکول 1958 سے قبل کا موجود تھا جو تقدس مآب بشپ فرانسس چیالیو بشپ آف ملتان ڈایوسس اور بعد ازاں اٹالین بشپ تقدس مآب بشپ پال اندریوتی بشپ آف فیصل آباد کی قیادت میں چل رہا تھا اور پورے پاکستان کے مسیحی طلبااور طالبات یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے لڑکوں کا ہوسٹل موجود تھا اور خوشپور اس علاقے کا تعلیم کا گہوارہ گاوں تھا گردونواح کے مسلمان طلبا و طالبات بھی یہاں سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے رہے اور بڑے عہدوں پر فائز رہے بعد ازاں غیر ملکی انتظامیہ کے جانے کے بعد گاوں کی درس و تدریس اور تعلیم کا معیار ختم اورسکول عدم توجہ کا شکار بوائز ہوسٹل بند ہو گیا کرپشن بد عنوانی اداروں کی فنڈنگ سیاست اور اقربا پروری غیر ضروری سرگرمیوں پر استعمال ہونے کی راہیں استوار ہو گئیں یوں اداروں کی کرپشن کا مال چوہدریوں سےمقابلے اور تنزلی کا سفر رکنے کانام نہیں لے رہا90 کی دہائی میں مخلوط الیکشننز کا نظام رائج ہوا اس طرح پچھی تین دہائیوں میں ترقیاتی کاموں کے ناقص پرجیکٹس انہیں نصیب ہوئے سیوریج پروجیکٹ کی کرپشن گاوں کو اتنی مہنگی پڑی جس کا ازالہ آج تک نہ ہو سکا واٹر سپلائی کا نظام پہلے خواتین کی قیادت میں بعد ازاں سرکاری فنڈز سے گاوں کو مہیا کیا گیا۔
90 کی دہائی میں سوئی گیس کی سہولت بھی انہیں حقیقی پروجیکٹ کی سہولت میسر آئی
قومی سطح پر خوشپور کی قیادت کے کمال میں سرکاری ملازمین میں 5 فیصد کوٹہ سینٹ میں اقلیتوں کی نمائیندگی نیشنل مینارٹیز ڈے اور دیگر اقلیتوں کے مطالبات منوانے میں انکے کردار کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔خوشپور کے مذکورہ سپوتوں کے بعد visionary سیاست ایسی لپٹی کہ چاہ پلوسوں اور مردہ گھوڑوں کی حکومتی ایوانوں میں بھر مار ہےلیکن قومی سطح پر سیاسی طور پراقلیتیں بھٹک گئیں
خوشپور کی کمیونٹی کی جانب سے ترقیاتی کاموں میں ڈوگرہ برادرز کا بے گھر اور زمیندار لوگوں کی قلیل رہائش کو وسعت دینے کے لیے اضافی آبادی کا پروجیکٹ انتہائی ضروری تھا اس کے لیے منصوبہ 88 کنال رقبہ صوبائی سرکار سے مخصوص کروایا گیا جو ڈوگرہ کولونی کے نام سےمنسوب ہے نئے گاوں کی بنیاد ڈوگرہ برادرز کی جانب سے ڈالی گئی راقم الحروف کے والد محترم چوہدری بوٹا ڈوگرہ سابقہ کونسلر اور اس کے بھائیوں چوہدری عمانوایل ڈوگرہ اور چوہدری سیموئیل پرویز ڈوگرہ سابقہ کونسلرکی مذکورہ خدمات اس سلسلے میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی جو کہ یک بعد دیگرے کونسلر اور ڈسٹرکٹ اسمبلی کے عہدے پر فائیز رہے اور اس پرجیکٹ پر مالی اخراجات بھی اپنی جیب سے کیے راقم الحروف کو اس پروجیکٹ کی مخالف قوتوں نے روکنے کے سلسلے میں محترم اشرف پرویز سراجیہ سمیت پابند سلاسل بھی رکھا لیکن ایک ترقیاتی منصوبہ گاوں کو ایک پروگرام کے تحت مل گیا۔
گاوں کے کونسلرز کی سطح پر چوہدری لعل دین چوہدری صادق بھٹی محترم چوہدری فیروز مہر چوہدری چونی لعل ڈوگریوالا نور احمد چوہدری ہیکٹر صادق ڈوگرہ سابقہ حولدارچوہدری منگتا بھٹی چوہدری فرانسس جلال ڈوگرہ عاجز رسیانیہ چوہدری بوٹا ڈوگرہ چوہدری دومنیک ممبر بڈھیانہ محترم دومینک عزیز سیموئیل پرویز ڈوگرہ فرانسس اقبال ندیم عاجز اور دیگرکونسلرز اپنی کمیونٹی خدمات پر منتخب ہو کر اپنی خدمات انجام دیتے رہے
ڈسٹرکٹ کونسل فیصل آباد کی سطح پر چوہدری جاوید طوطا چوہدری عمانو ایل ڈوگرہ محترم پال جوزف کا انتخاب ہوا بعدازاں محترم حمید رشید منتخب ہوئےاور حلف کے بعد ہی کچھ عرصہ بعدخدا کو پیارے ہو گئے
گاوں سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منتخب ہونے والوں میں جارج کلیمینٹ ایم این اے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری سائمن گل ایم این اے شہباز بھٹی وفاقی وزیر ڈاکٹر پال مشیر وزیر اعظم پاکستان جانسن مائیکل مشیر وزیر اعلی’ پنجاب پیٹرک گل ایم پی اے پنجاب
خوشپور کی کمیونٹی کی تاریخ کاحصہ ہیں۔
مجھے خوشپور کے ریسیرچرز اور خوشپور کی تاریخ کی کتابوں سے بطور رائیٹر اختلاف نہیں انہوں نے اگر کچھ مسخ کیا ہے تو یہ تحریر انکی حقائق جاننے میں معاونت بھی ہو سکتی ہے
قارئین مذکورہ بالا سانحات کا تذکرہ گاوں کےتاریخی پس منظر کے ساتھ سراہت کے ساتھ اس لیے آپکی نذر کیا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے مذہبی سیاسی و سماجی حلقوں میں اس بات کے لیے باور کرایا جائےکہ ہماری خوشپور کی قیادت نے پاکستانی اقلیتوں کے لیے مالی و جانی قربانیاں بھی دیں ہیں اور سیاسی میدان میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ فیصل آباد کے لوکل مسیحی سیاسی حلقے قیادت کے فقدان کا شکارہیں شعوری بیداری میں خوشپور کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے اور انکے مذہبی سماجی اور سیاسی حلقوں میں لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا اہتمام کیا جاسکے-انہوں نے قوم کے لیے قربانیاں دیں آج انکو سازش کے تحت پچھلی دہائی سے پیچھے دھکیلنے کی سازش ہو رہی ہے جس میں کمیونٹی کی ہاہمی انڈر سٹینڈنگ اور مقامی اداروں کی غیر ضروری میناپلی بھی آڑے آرہی ہے کیا اقلیتی سیاسی حلقے انکی خدمات سے بے خبر ہیں؟ کل بشپ جان جوزف مذہبی اور شہباز بھٹی جیسی سیاسی شخصیات کو فالو کرنے والے آج ان کے گاوں کے لوگوں کی پسماندگیوں اور محرومیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں سیاسی پارٹیوں میں اس گاوں کے باسیوں ملکی سطح پر بڑی ورتھ کے باوجود نظر انداز کیا جا رہا ہے حکومتی ایوانوں میں انہیں نظر انداز کرنے کا نتیجہ اقلیتی سیاسی بھگت بھی رہے ہیں حالانکہ ان جیسی قیادت آج تک اقلیتوں میں کوئی نمایاں کارکردگی دیکھانے سے قاصر ہیں اس سازش میں ملوث کون ہے؟ سب کو یہ بھی علم ہے موجودہ اور سابقہ سیاسی پارٹیوں کے اقلیتی کرتوں دھرتوں نے کبھی اس گاوں کا وزٹ بھی نہیں کیا اور پہلی سی محبت بھی قائم نہیں رکھی جس کا گلہ بطور ادنی’ قلمکار اپنے سیاسی سماجی اور مذہبی راہنماوں سے ضرور ہے۔ میں مسلم لیگ نون کے توسط سے قومی سطح کے معاملات کو پارٹی قیادت کے نوٹس میں کسی حد تک اپنی کتاب ”امید سے یقین تک“ کے توسط سے آگے لانے کی کوشش کر رہا ہوں اور اقلیتوں کے مسائل و مطالبات کو اجاگر کرنے کی جدو جہد کر رہا ہوں اور اسکے لیے یقینناً سیاسی حلقوں سے پذیرائی بھی مل رہی ہے۔خدا خیر کرے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading