تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
(بسلسلہ سانحہ جڑانوالہ کا ایک جائزہ)
دنیاکے تمام مذاہب کے ماننے والے ایمان کے حوالے سے انہیں سچا سمجھتے ہیں لیکن جب انکی پریکٹس یا انکی کتابوں اور ہدایت کا معاملہ سماج میں عملی طور پر شروع ہوتا ہے تو ان حالات میں وہی مذاہب کو ماننے والےانسان جانے کیوں موقع پرستی خود غرضی اور ایمان میں کمزوری ظاہر کرتے ہوئے بھلائی کے کام میں یا انسانوں سے ہمدردی اور خیر سگالی میں بخیل کیوں ہو جاتے ہیں یا اسے آسان لفظوں میں حق و باطل میں بٹ جانا بھی کہاجا سکتا ہےمذاہب الہامی بھی ہیں اور غیر الہامی بھی لیکن مذاہب کی باہمی سماجی و مذہبی ہم آہنگی کی بات سماج میں رہ کر اگر انبیا اکرام یا مذاہب کے بانی یا پیشواہ نہ کرتے تو مذاہب کی جنگ سے دنیا آج تک ختم ہو چکی ہوتی کیونکہ مذاہب کی منفی تشریح ہی مذاہب کی اخلاقی اقدار کو نقصان پہنچاتی ہے مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کے منہ زور گھوڑے ہی ظلم دہشت گردی اور تشدد کے نتیجے میں ریاست اور مذہب کی بدنامی کا سبب ہوتے ہیں مذہبی اقلیتیں دنیا میں مہذب سوسائیٹیز میں شاید کہیں محفوظ ہوں لیکن پاکستان اور انڈیا ہمارے ایسے ریاستی کرائمز کا گڑھ ہے اس منہ زور گھوڑے کے سامنے جہاں عدم برداشت اور تعصب کی بھینٹ اقلیتوں کومسلسل چڑھنا پڑ رہا ہے وہاں مہذب معاشروں نے مذاہب کی اخلاقی قدروں کے تحت اپنے ملکوں کے سسٹمز کو سیٹ کر لیا ہے اگر وہ مذہب کی پریکٹس میں کمزور بھی ہوں تو انکا سماج سیاسی سماجی انتظامی نظام انہیں عدل وانصاف انکے سدھرنے کاموقع ضرور فراہم کرتا ہے جس سے انکے جانی مالی معاشی مذہبی و سماجی تحفظات بھی ممکن ہیں مذہبی اقلیتوں پر دہشت گردی وتشدد منافرت تعصب اور حقارت کے نتیجے میں انڈیا اور پاکستان کے بٹوارے سےہی معمول رہا ہے۔
سیالکوٹ کے ایک واقعے میں سری لنکن شہری پر دہشتگردی اور تشدد اگر مذہبی جنونیت تھی تو اس کے پیچھے ایک ریاست تھی جب سری لنکا کی ریاست نے زنجیر عدل ہلائی تو حکومت وقت اور عدلیہ کے کانوں کی کھڑکیاں کھل گئیں کیونکہ انکے پیچھے ریاست تھی اور اس نے پاکستان سے عدل کا تقاضہ کیا جبکہ سانحہ جڑانوالہ والا میں مسیحیوں کے آگے ریاست ہے وہ زنجیر عدل ہلانے ہی نہیں دیتی اگر ہل جائے تو ہلانے والوں کا خود ہی سامان کرتی ہے وہ انتظامیہ سے کروائے پولیس سے کروائے سیاستدانوں سے کروائے علما سے کروائے یا پھر عدلیہ سے اس کی مرضی ہے قاضی عیسی’ فائز صاحب کو میں نےجب ساتھیوں کے ہمراہ جائے سانحہ جڑانوالہ کا وزٹ کروایا تو مجھے یاد ہےقاضی صاحب ان حالات میں سانحہ کے نتیجہ میں بے دل اور ہمدردانہ خیر سگالی کے مزاج کے تحت اپنی اہلیہ کے روبرو مظلوم مسیحیوں سے مذہبی و سماجی ہم آہنگی کے تحت یک جہتی کے لیے تحت تشریف لائے اور انہوں نے متاثرین کے آنسو پونچے اور انکو اپنی جیب سے انہیں تحائف بھی دئے انہوں نے پنجاب پولیس کی بھرپور سرزنش میری موجودگی میں پریس کے روبروکی کہ وہ انصاف کی فراہمی کو ممکن بنائیں۔
لیکن آج جب میں نے سنا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں سانحہ جڑانوالہ اسی کیس پر صرف ریمارکس ہی دے رہے ہیں پنجاب پولیس کی رپورٹ مسترد کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے قابل گزر گئی ہے توبس تمام ہوا؟۔ظلم تو مانا گیا عدل کے لیے کیا حکم آپ نے دیا ہے؟کیا دندناتے ہوئےدہشت گرد امریکہ یا کوئی دیگر ملک گرفتار کرنے آئے گا۔ریاست عوام کے بغیر نہیں ہوتی انکے ٹیکس سے آپ کے ادارے چلتے ہیں خواہ پولیس خواہ انتظامیہ خواہ آپکی عدلیہ مذہبی اقلیتوں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے؟ سانحہ جڑانوالہ کی تفتیش و انکوائری کے لیے JIT بھی آپ نہیں بناتے تو زنجیر عدل ہلانے کے نتیجے میں مظلوم مسیحیوں کی کوئی دادرسی کا سامان آپکی طرف سے اگر میسر آئے کہ خدا کا خوف کھائیں ریاست ایک پرسن ہے جو حقوق فرائض اور قانون کی پاسداری کا مظہر ہونا چاہئیے اور آپ کو بھی پتہ ہے پھر خاموشی کا کیا مطلب؟ اسے ڈائریکشن آپکے بعد کون دے سکتا ہے کم از اس کی وضاحت ہی کر دیں ہم آپکے مشکور ہونگے کہ عدل کون کرے گا؟