تحریر:گمیلی ایل ڈوگرہ
پاکستان کی سیاسی اور سماجی خدمات میں نمایاں کردار ادا کرنے والی خواتین کی خدمات کا تذکرہ کیا جائے تو ایک بہت لمبی فہرست ہے جن پر کتابیں لکھی گئیں اور ہزاروں مزید لکھی جا سکتی ہیں۔ برصغیر میں عورت کی حکمرانی کی تاریخ ان حالات میں بہت پرانی ہے جین کو ر کی بات کریں تو اس پر صعوبتوں کے پہاڑ ٹوٹنے کی برداشت اور داستانیں انسان کے روگنڈے کھڑے کر دیتی ہیں لیکن ان کا عزم ہمیشہ جواں نظر آیا وہ خواتین کی ایسی کہانی کا کردار ہے کہ صنف نازک کی نہ جھکنے والی مضبوط اعصاب کی شخصیات ہمیں پنجاب کی تاریخ میں بہادری کا ایک نمایاں باب نظر آتا ہے۔رضیہ سلطانہ اپنے ہی امراء و درباریوں کی سازشوں کی آغوش میں پل کر سلطان شمس الدین التمش کی جانشینی کا وہ ثبوت ہے جسے پڑھ لیں یا اس کی دستاویزی فلم دیکھ لیں اس کی بہادری عورتوں کی جدوجہد میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کا راستہ اور منزل انہیں ضرور ملے گی۔ اور مرد حضرات بھی انکی کی بہادری کی صلاحیتوں کو ضرور داد دیں گے اسی طرح اسی خطے میں انگریزوں کے خلاف جنگیں لڑنے کا اعزاز بھی خواتین کے پاس ہے جھانسی کی رانی کی بات کریں یا رضیہ سلطانہ کی یا دیگر بہادر حکمران خواتین کی ہمارا خطہ عورت کو اتنا کمزور اور ناتواں نہ سمجھنے کے شعور سے پہلے ہی آشنا ضرور ہے پاکستان کی تاریخ کی بات کی جائے تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح عملی طور پر جمہورت کے لیے بانی پاکستان کے ہمراہ قربانیاں دینے بعد بھی جن مراحل سے آمریت سے لڑیں اس کی مثال بھی ہمیں کم ہی ملے گی لیکن یہ سلسلہ ہماری تاریخ کا معمول جب بنا تو بے نظیر بھٹو اور مریم نواز شریف تک پھیل گیا اور ان خواتین کے بڑےسیاسی گھرانوں کی صنف نازک ہی آمریت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئیں-
سابقہ وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو جمہوریت پنپتا دیکھنا چاہتی تھیں انہیں گولیوں سے چھلنی اس لیے کیا گیا کہ عورتوں کی آواز کے اس سلسلہ کی جمہوری اقدار کے فروغ کی آواز کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔
کل محترمہ بے نظیر بھٹو اگر وزیر پاکستان تھیں تو آج ایسے ہی میاں محمد نواز شریف کی جاننشینی کے جھنڈے کو محترمہ مریم نواز شریف نے آمریت کے خلاف جھنڈا گاڑ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے اور پچھلی دو دہائیوں سے عوام کے ساتھ مل کر آج تخت پنجاب کا تاج اپنے سر پر سجا کر وزیر اعلی’ کی کرسی پر براجمان ہو گئیں اور امید سے یقین تک کا یہ سفر عورتوں کے لیے مشعل راہ ہے میں نے اپنی کتاب”امید سے تک“ کو بطور ادنی قلمکار اور مصنف دو بہادر عورتوں کے نام سے منسوب کیا ہے ان میں محترمہ کلثوم نواز اور محترمہ مریم نواز کی کی جمہوریت کی جدوجہد میں ولولہ انگیز قیادت جمہوریت کی بحالی میں چمکتے ستاروں کی مانند نظر آتیں ہیں۔
عورتوں کے عالمی دن کی مناسبت سے یہ چھوٹی تحریر عورتوں کی حوصلہ افزائی اور جمہوریت کے سفر میں انکے کردار کا سراہنا مقصود ہے-محترمہ مریم نواز کی جمہو ریت کے لیے قربانیاں گراں قدر ہیں جمہوریت کے لیے وہ اس وقت میدان میں اتریں جب محسن پاکستان میاں محمد نواز شریف پر جھوٹے الزامات لگا کر جمہوریت کے دشمن انہیں پاکستان کے تخت کو الٹاتے ہیں اور عوام بے روزگاری مہنگائی اور غربت کی دلدل میں دھنسنے کا اہتمام پاکستان کا معمول بن چکا ہے۔
لیکن منزل انہیں ملتی ہے جو شریک سفر ہوں آج کوئی یہ سمجھے کہ محترمہ مریم نواز کسی شارٹ کٹ کے ساتھ اس منزل پر پہنچی ہیں تو اس سے اتفاق کرنا بہت نا گزیر اور نا انصافی ہوگی یہاں پر اور بہت سے نام بھی ہیں جن میں فہمیدہ مرزا شیریں رحمان مریم اورنگ زیب عظمی’ بخاری رحیلہ خادم حسیں اور دیگر چہروں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ دانشور طبقہ سے کشور ناہید ہو یا بانو قدسیہ عاصمہ جہانگیر ہو یا دیگر نام ہم انکی جہوریت کے لیے خدمات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔