تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
جنگل میں شکار کھیلنا دنیا کا ایک بہت ہی اچھا کھیل رہا ہےاور اب بھی ہے دنیا کی تاریخ بتاتی ہے ایک غریب سے لے کر رئیسزادوں اور بادشاہوں تک کے لوگ اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے آئے ہیں۔ ایک دفعہ ایک غریب شکاری جو کھیل سے ناآشنا تھا وہ بھی چلا گیا اور بڑے بڑے شکاری جنگل میں موجود اس کے ہمراہ تھے بھاگتے بھاگتے کہیں اسکے پاوں کے نیچے بٹیرہ آگیا اور وہ اس کو پکڑنے میں کامیاب ہوگیا پرانے شکاریوں کے لیے یہ تعجب کی بات تھی وہ بہت خوش اور جذباتی ہوگیا اور اونچی آواز میں شور مچا کر اس بات کا اظہار کرنے لگا کہ میں نے شکار پکڑ لیا ہے وہ کہنے لگا پھر بھی ہم خاندانی شکاری ہیں اس کے قریب بڑے بڑے شکاری اس کا منہ دیکھتے رہے۔کہ اس کے خاندان کا کوئی بھی شخص شکار کے کھیل سے نا آشنا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ہم خاندانی شکاری ہوا کرتے ہیں پاکستانی اقلیتوں کی سیاست کا بھی کچھ یہی تناظر ہے کہ یہ اقتدار میں آ کر اس شکاری کی طرح خاندانی سیاستدان بن جاتے ہیں اور ان حالات میں اس کمیونٹی کی دی ہوئی عزت کو ذاتی یا خاندانی سمجھ کر اقلیتوں کی suffering بڑھا رہے ہیں ان حالات میں حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہمارے پیارے گاوں خوشپور میں جاگیر دار انہ طبیت کے کیتھولک اور بڑے ہی لاڈلے مذہبی راہنما نے جو شہباز بھٹی شہید کےبرادر نسبتی کے تعلق سے کلیسیا سے ووٹ مانگتے رہے اور دیگر پاسٹرز اور چرچز لیڈرز سے التجائیں بھی اس بات کے لیے کرتے رہےاور ان سے سیاسی حمایت بھی مانگی انکے ساتھ جلسہ جلوس کا سلسلہ بھی جاری رکھاکیونکہ وہ شہباز بھٹی کی جدوجہد کو صرف بھٹی خاندان کا اثاثہ سمجھتے ہیں اور عوام کو کسی دوسرے اور سیاسی کارکن چوہدری کو کسی دیگر پارٹی سے تعلق رکھتا ہو انکے لیے وہ سخت نا پسندیدہ ہیں وہ عدم برداشت کے تحت اس گاوں پر حکمرانی اور سیاست کے حقدار صرف اپنے بھٹی خاندان کے خواہاں ہیں ان موصوف کی تشویش اپنی جگہ لیکن اس سے قبل اپما کے چیرمیئن ڈاکٹر پال بھٹی بھی سیاست کے اس اثاثے کو شہباز بھٹی شہید کے قریبی ساتھیوں کو متعدد دفعہ عوامی جلسوں میں یہ کہہ چکے ہیں کہ شہباز بھٹی کے نام پر سیاست صرف انکے خاندان کا حق ہے باقی جو کرتے ہیں وہ انکے نام پر ڈالر بٹورتے ہیں۔ واہ رے سیاست بقول شاعر
دھن کے ہاتھوں بک گئے ہیں سبھی
اب کسی جرم کی سزا ہی نہیں
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نا رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
جبکہ اقلیتیں ایسی سوچ سے شدید تشویش کا شکار ہیں۔ کون خاندانی سیاستدان ہے اور انکا ٹریک ریکارڈ کیا ہے اور کون نہیں۔ یہ بات تو آن ریکاڑ ہے میں اس غیر ضروری بحث کو وقت کاضیاع سمجھتا ہوں دوسرا میں اس سوچ اور مفروضے کے خاندانی اور ذاتی ہونے والے خیال سے بھی مبرہ ہوں البتہ اس میں عدم برداشت کی مہک ضرور نظر آئی ہے ۔
ملک کے تازہ ترین حالات میں گوجرانوالہ کےآصف مسیح سینٹری ورکر اور یونین لیڈر پر تشدد سے اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی سازش ہوئی ہے جب بھی اقلیتیں اپنے حقوق کی بات کرتی ہیں ان پر تشدد پاکستان میں معمول بن چکا ہے عمانوایل اطہر ایم پی اے پنجاب نے آصف مسیح پر تشدد کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے میں مظلوم آصف مسیح کی مدد کی ہے ہم انکے شکر گزار ہیں۔سیاست ایک شخص کی جنگ تو ہے نہیں یہ کمیونٹی یا طبقے سے ہٹ کر لڑنے کے نتیجے میں ناکامیوں سے ہمیں دو چار کر رہی ہے جبکہ اس جنگ میں مقامی اور اقلیتی سیاسی نمائیندگان اس کے مقاصد سے ہٹنے کا سبب بن رہے ہیں اور بروقت مظلوم و مجبوروں تک پہنچتے ہی نہیں اور وہ چند موقع پرستوں کے گروہ کے حصار میں رہ کر اپنے عہدے کی مہلت پوری کر لیتے ہیں ناقص اور غیر جمہوری نظام میں تبدیلی پر کام نہ ہونا تو تعجب کی بات ہے ہی کیونکہ یہ نظام عوام کو جواب دے ہے ہی نہیں اسی لیے ان حالات میں مذہبی اقلیتیں اب ریاست کے اندر رہ کرسیاسی سماجی اور مذہبی مسائل کے درپے عدم تحفظ کا شکار ہو رہی ہیں جانی و مالی نقصان اور سیکیورٹی رسک کے خطر ناک معمول میں ایک طبقہ پس رہا ہے اور کمزور ہو رہا ہے کیونکہ ان تمام مشکلوں میں ان سے زیادتی کا ازالہ اور مذہبی تعصب اور عدم برداشت کی مجرمانہ سازشوں پر قابو پانے میں انکی گرفت بھی قانونی طور پر انتہائی کمزور نظر آتی ہے مذہبی اقلیتوں کی اس کیفیت کے تحت جہاں سیاسی نمائیندگان غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں اور ان حالات میں اپنی نسلی غربت و افلاس اور محرومیوں کے ماضی سے الگ ہونے اور نسلی پس منظر کو نظر انداز کرکے حقائق کو جھٹلایا جاتا ہے اور یہ خاندانی شکاری کی طرح جذباتی ہو جانے جیسا عمل ہی ہے۔
پاکستانی اقلیتیں سیاسی طور پر devided ہیں اور اسی لیے کمزور بھی ہیں کیونکہ انکی یونٹی نظر نہیں آرہی مختلف دھڑوں جماعتوں اور پریشر گروپوں میں بٹنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ان حالات میں Visionary سیاست کے رجحان پر مستقل کام ہوا ہی نہیں ماضی کی سیاست میں پاکستانی اقلیتوں کے حوالے سے ایس پی سنگھا نے ایک جماعت مسیحی لیگ کی بنیاد رکھی اور شعوری بیداری دی گو انکے بعد انکی کی جماعت قیام پاکستان کے بعد موثر طور پر اپنی جدوجہد میں ناکام ہو گئی لیکن ایس پی سنگھا کے کار ناموں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ان کے بعد مسیحی یا مذہبی اقلیتوں میں سیاسی جماعتوں کی بنیادیں ڈالنے کا رجحان نظر ضرور آیا لیکن وہ اپنے vision اور مشن کے پرچار میں اپنی مطلوبہ منزل تک اقلیتوں کو نہ لے جا سکے اور اقتدار کا حصہ بننے پر اپنے حقیقی سیاسی کردار کو بھول گئیں۔ پروفیسر سلامت اختر کی آل پاکستان کرسچن لیگ کیپٹن ثنا اللہ سابقہ ایم این اے کی یونائیٹڈ کرسچن فرنٹ اجمل خاں صاحب کی مسیحی لیگ طارق سی قیصر کی پاکستان مسیحی پارٹی جوزف فرانیس پطرس غنی یا کامریڈ ذولفقار پرویز سندھو کی یا پھر دیگر مسیحی سیاسی پارٹیوں کی جن کی ماضی میں ایک لمبی لسٹ ہے کامریڈ انور آرتھر بھٹی اور کامریڈاقبال بھٹی جارج کلیمنٹ پیٹر جان سہوترہ سائمن گل بعد ازاں پرویز رفیق خلیل طاہر عابد چاند پی ایم ڈی پی ملتان شہباز بھٹی شہید جاوید مائیکل کی مینارٹی کونسل وغیرہ وغیرہ یا بائیں بازو کی تحریکوں کے نقطئہ نگاہ سے اقلیتوں کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کرنے والوں کی۔ خاندانی سیاست کبھی کسی کی نہیں ہوئی ہے مذہبی اقلیتوں کے پس منظر میں کوئی بہت نمایاں خاندانی سیاستدان طویل دور تک اقتدار میں کم ہی نظر آیا ہے کیونکہ مسیحی مذہبی اقلیتوں کا بر صغیر کے اس خطے سے تعلق ہے جہاں انکے پس منظر میں نوآبادیاتی برطانوی حکمرانوں یعنی انگریزوں سےپوچھ گچھ تو تھی اور وہ بھی صرف چرچ مشنریز کی حد تک اور ان حالات میں بھی چرچ مشنریوں نے پاکستان میں نئے چرچوں اور دیہاتوں کی بنیادیں ڈالیں پاکستان کے تمام معروف مسیحی دیہاتوں اور بڑے شہروں کے قرب و جوار میں زرعی زمینوں سمیت چرچ مشنریز نے مسیحی لوگوں کی آباد کاری کا کردار ادا کیا۔ اس کی بہت سی مثالیں مارٹن پور ینگسن آباد خوشپور عیسی’نگری 424 مونٹگومری امرت نگر 133 135 شانتی نگر وغیرہ وغیرہ ملک کے طول و عرض میں مسیحیوں کا ایک طویل و مختصر دیہی و شہری سلسلہ ہے ساتھ ساتھ پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں قیام پاکستان کے بعد مشنریز نے مسلم و کرسچن آبادیوں کی تعلیم و تربیت اور طب کے علاوہ زندگی کے تمام شعبوں میں قیمتی خدمات سر انجام دیں آج پاکستان کے کلیدی عہدوں پر ماضی میں وہی مسلم افسران وحکمران لوگ براجمان بھی ہوئے۔اس سارے پس منظر میں کوئی مسیحی سیاسی شخصیت بہت نمایاں نہیں تھی ورنہ یہ آبادیاں بھی آج ہمیں دیکھنے کو نہ ملتیں۔ ۔حادثاتی سیاست کے رجحان نے اس حد تک فروغ پایا ہے کہ چرچ سے ایک سیاسی مافیا نے جنم لیا اورسیاست پر قبضہ کا رجحان پنپا اور کچھ خاندانوں نے سیاست میں پاوں جمائے اور وہ بھی حادثاتی سیاست تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوگئی کاروباری لائین میں دیگر کمیونٹیز سے ایم پی بھنڈارہ خاندان یا دیگر خاندانوں کی کچھ مثالیں ہمارے ہاں موجود ہیں جو حکمران طبقوں اور الیٹ کلاس کے مقبول نظر رہے شاید ملک میں اور بھی انکے علاوہ مثالیں ہوں۔پاکستانی اقلیتوں کی سیاسی جماعتیں بنیں لیکن اقتدار کے حصول کے بعد اقلیتوں کو سیاسی سماجی اور قانونی لحاذ سے کچھ deliver نہ کر سکیں اور مردہ گھوڑے کی حیثیت سے ختم ہو گئیں اور اب ملک کی بڑی جماعتوں کے ہمراہ ایک جمہوری طریقہ کار وضع کرنے کےاہتمام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ حادثاتی سیاست کی بساط کو لپیٹنے کے لیے ضروری ہے جس میں ہمیں اپنی حقیقی سیاسی ایکٹو ازم کو جاری رکھنا ہے۔ تاکہ مذہبی اقلیتوں کے جائز مطالبات پورے ہوں اور ان حالات میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے والے حادثاتی نمائیندگان کی ناقص کاکردگی ہمارے آرٹے نہ آئے