تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
برصغیر کی تاریخ ہماری نسلوں کی داستان ہے اور اس کا مطالعہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہماری نسل قائم رکھنا ضروری ہے جب نسل در نسل مذاہب اور فرقوں اور قوموں کےدرمیان جنگ کے ماحول میں ایک ہی خطے کےہزاروں سال قبل مسیح سے لوگ آباد ہیں اور یہ ماضی میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بھی رہے ہوں تو انکو محبت اور یگانگت کی لڑی میں اسی وقت پرویا جا سکتا ہے جب لیڈر ان کی بربادی کے رخنوں میں کھڑے ہونے کے لیے اپنے آپکو پیش کرنا شروع کر دیں۔ مذاہب اخلاقی قدروں اور انسان سے محبت کا منبع ہیں پھر بھی انسانوں سے اپنے اپنے مذاہب کے پیرو کاروں کو ایک دوسرے کے وجود سے عدم برداشت کے تحت نسل در نسل میل ملاپ میں کوتاہی نہیں برتنی چائیے نفرت اور تعصب خدا کو بھی پسند نہیں لیکن پھر بھی ہم مذاہب پر عمل کرنے پر قائم کم رہتے ہیں اور مذہب کے لیے لڑنے کو ہمیشہ تیاررہتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کا ہر مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہوتا اور برصغیر کے ماضی کے دنیا کے عظیم ترین راہنماوں میں مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح شمار ہوتے ہیں پاکستان کو معرض وجود میں آنے کے بعد اسی خطے میں ہندوں سکھوں اور مسلمانوں کو تقسیم کے تحت ہیجرت میں بٹوارے کے وقت لاکھوں انسانوں کو ظالمانہ اذیت ناک اموات کا مزا چکھنا پڑا جب مہاجروں کے قافلوں میں آنے جانے میں خون خرانے قتل و غارت ہو رہی تھی۔
نسل در نسل مذہب کی بنیاد پر دوسروں سے عدم برداشت کے تحت دشمنی خطے کو بہت ہی مہنگی پڑی ہے لوگوں کو عدم برداشت رویوں سے نکالنے کے لیے سیاسی اور سماجی راہنماوں کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے محبت پیار اور امن و سلامتی کے بغیر ہماری مذہبی پریکٹس نامکمل ہے ایک دوسرے سے انسانی محبت سے جو مذہب دور لے جائے سمجھیں ہم اس مذہب کی پریکٹس میں ناکام ہیں۔
وزیر اعلی’ پنجاب محترمہ مریم نواز نے بیساکھی کے حوالے سے سکھ کمیونٹی کے زیر اہتمام بیساکھی کا سرکاری طور پر دن منایا تقریب میں محترمہ مریم نواز نے کہاکہ میاں محمد نواز شریف آپ سب کو سلام پیش کرتے ہیں اور ”وہ ہمسایوں سے لڑائی نہیں کرنا چاہتے“
یہ ہی توقع اگر ہم بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی سے کریں تو یہ ہی بات آگے بڑھ سکتی ہے اور یہ خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے ہم یواین او کی طرف بین الا اقوامی ہیومن رائیٹس کی تنطیموں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور امن کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں پاکستان اور انڈیا مسیحیوں اور کشمیری مسلمانوں سے مذہبی تعصب کے تحت خطے کو عدم برداشت سے پچھلے 75 سالوں سے اپنے ہی مذاہب اور خطے کے بھائی بہنوں سے ناروا سلوک اور ظالمانہ کاروائیوں کے تحت لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں میاں نواز شریف کا یہ پیغام کہ ”ہمسایوں سے نہیں لڑنا“ وزیر اعلی’ کے ہمراہ سکھ بھائیوں کی اس رواں تقریب میں خوش آئیند بات ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ خطے کے عوام کے زخموں پر لگتا ہے انہوں نےانکی مرہم پٹی کی ہے۔
پچھلے دنوں میں نے مذہبی اقلیتوں کی مناسبت اور انکے برابری کے حقوق کی ترجمانی کا ذکر اپنے ایک کالم میں کیا تھا کہ گاندھی اور جناح امن کے داعی تھے آج کی حکومتیں اور عوام بھی انکو فالو کریں اور تمام سٹیک ہولڈرز کی خطے میں برابری کی بات کریں تو ہمارا خطہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے محترمہ مریم نواز جب امن محبت یگانگت کی بات
کر رہی ہیں تو پچھلے دنوں ہولی ایسٹر اور اب بیساکی کی تقریب میں مذہبی و سماجی ہم آہنگی کو تحریک دینے کی ایک خاتون وزیر اعلی’ نے یقینناً تاریخ لکھ دی ہےہم انکے اس قائد اعظم کے پاکستان کی جانب پیش قدمی کے لیے مذہبی اقلیتوں سے محبت اور برابر کے حقوق فراہم کرنے میں انکی جدوجہد کے قدر دان ہیں۔ کچھ ہاتھ انکے ان اقدامات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور فیصل آباد میں کمزور مسیحیوں کو اکبر آباد میں جبراً گھروں سے بے دخل کرنے کی خبریں ہیں جس کے لیے مسیحی کمیونٹی کے متاثرین سراپا احتجاج ہیں جس کے پیچھے گراس روٹ سطح پر بھی طاقتور سیاسی ہاتھ ہونے کا اندیشہ ہے اور فیصل آباد میں بہت سے اقلیتوں کے ایشوز کو سنجیدہ پچھلے کئی سالوں سے نہیں لیا جا رہا اور مسیحیوں سے مسلسل زیادتی ہو رہی ہے پندرہ سو طلبا طالبات کا سکول سیوریج ڈسپوزل کی تعمیر داود کولونی ایشو کے نیتیجے میں تعفن سے دوچار معاملہ پہلے ہی چل رہا ہے سینٹر خلیل طاہر صاحب ان معاملات کو حکومتی سطح پر لے جانے اور حل کروانے میں کیوں ناکام ہیں وہ مایوس اور بے دل ہیں وہ عوامی سطح پر ان معاملات کو حل کروانے میں کیوں ناکام ہیں؟ اس کے اظہار کی عوامی سطح پر ضرورت ہے تاکہ اقلیتیں اپنے معاملات کا کوئی دیگر آپشن کے تحت دیکھیں شاید حکومت پنجاب سے سیدھی سیدھی بات ہو ہی نہیں رہی لیکن اس معاملے پر متاثرین اور مظلوم کنسرنز پارٹیز کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اقلیتوں کے ساتھ گراس روٹ سطح پر زیادتیاں سننے اور حکومت پنجاب کو انکے تحفظ کے لیے کوئی سپیشل پلان لانے کی ضرورت ہے کیونکہ اقلیتوں کی رسائی وزیر اعلی’ کو بھی برائے راست دیکھنا ہوگا اقلیتی نمائیندگان ان معاملات میں بااختیار نہیں اور وہ اس سلسلے میں کچھ کر بھی نہیں پاتے۔
ہمارے اقلیتی منسٹرز نمائیندگان بھی عوامی رابطے کے فقدان کا شکار رہتے ہیں۔ جس سے اقلیتیںوں کی تشویش دن بدن بڑھ رہی ہے۔پاکستان مسلم لیگ کو اقلیتوں نے 2024 میں اپنے حلقوں سے جتوایا ہے اور برے حالات میں بھی یہ حکومت کی طرف دیکھتی ہیں مقامی قیادت ووٹ تو لے چکی اب کٹھن حالات میں ان کاکون پرساں ہے۔ حکومت اقلیتوں کے معاملات کو سنجیدہ لے اور جابروں کی جانب سے ان پر ظلم کرنےوالوں کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر انکی داد رسی کرے تاکہ ہم خطے میں پاکستان اور بھارت سے امن اور شانتی کی شمعیں گاندھی اور جناح کی سوچ کے تحت اس پورے خطےکو امن کا گہوارہ بنا سکیں۔