تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
پاک ہند کی تاریخ مذہبی اقلیتوں پر باقاعدگی سے ریسیرچ کی جائے تو اس بات کا جائزہ ضرور آپ لے سکتے ہیں کہ اس خطے میں مذہبی تقسیم و تفریق کے تحت تعصب منافرت دہشتگردی نئی نہیں اب صرف انتہا کو پہنچ چکی ہے پاک و ہند دونوں ملکوں کا اشرافیہ مذہبی اقلیتوں کے خانہ کو تنگ کرنے والے عناصر کو سنجیدہ نہیں لے رہا اور ان کو اپنے سر پر چڑھا رہا ہے اور انکے ہاتھوں سیاسی طور پر بلیک میل ہو رہا ہے گو بنگلہ دیش نے سوسائٹی میں بگاڑ کی وجوہات جاننے کے بعد ریاست اور مذہب کو جناح اور گاندھی کے سیاسی فلسفے کے تحت دیکھا اور اس کا حل ڈھونڈ کر جمہوری اقدار میں ہم سے آگے بڑھ گیا اب مذاہب اور کمیونٹیز کے درمیان انتہا پسندی تفرقہ بازی اور منافرت کو ہوا دے کر مذہبی اقلیتوں کی بستیوں اور عبادت گاہوں کا گھیراو جلاو انکی عورتوں کی عصمت دری عقوبت خانوں میں ان پر تشدد 76 سال سے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام بھارتی سکھوں کی خالصہ تحریک کی جدوجہد کا کچلنا اور سکھوں کا 40 سال سے قتل عام پر انصاف فراہم نہ کرنا پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو مقبوضہ کشمیر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے دنیا کو سب علم ہے اپنے ایک خطاب میں بھارتی راہنما
” راہول گاندھی کی پارلیمنٹ میں تقریر، قرآن پاک کا حوالہ دیا، درود پڑھا(2 جولائی2024جاویدچوہدری ڈاٹ کام)نئی دہلی بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے لوک سبھا سے خطاب کرتے ہوئے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ۖ پر درود پڑھ لیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حضور ۖ پر درود بھیجتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام عظیم ہستیوں نے عدم تشدد کی بات کی، خوف کو ختم کرنے کی بات کی اور کہا کہ مت ڈرو۔اپنے خطاب میں راہول گاندھی نے کہا کہ بی جے پی رہنما نفرت، خوف اور تشدد پھیلا رہے ہیں، بی جے پی کے لیڈر ہندو ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی نفرت پھیلاتے ہیں۔
راہول گاندھی کے بیان پر بی جے پی سیخ پا ہوگئی اور وزیر اعظم مودی نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر نے پورے ہندو معاشرے پر تشدد کا الزام لگایا ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی سے بیان پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جواب میں راہول گاندھی نے کہا کہ نریندر مودی اور آر ایس ایس پورا ہندو سماج نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بی جے پی ہر وقت خوف پھیلا رہی ہے اور تشدد اور نفرت کو فروغ دے رہی ہے“
اب یہ بات چھپی نہیں کہ اکثریت اقلیت پر کمزور سمجھ کر چڑھائی کر رہی ہے جو کہ بھارت کے لیے واجب نہیں اور اشرافیہ اس سازش میں براہ راست ملوث ہے مقبوضہ کشمیر دنیا میں جبر کے خلاف مزاحمت ایک مذہبی کمیونٹیز کے خلاف سازش ہے جس میں مسلمانوں کونشانہ بنا کر قتل عام 76 سالوں سے جاری ہے۔
ادھر پاکستان میں گزشتہ دنوں وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خطاب کہتے ہیں کہ
”یہاں پہ اقلیتوں کو روزانہ قتل کیا جا رہا ہےمذہب کے نام کے اوپراس ملک کے اندر اقلیتیں غیر محفوظ
ہو چکی ہیں میں اقلیتوں کے مسئلے پر بولنا چاہتا ہوں اور یہ لوگ مجھے بولنے کی اجازت نہیں دے رہے میں ایک نہایت حساس مسئلے پر بول رہا ہوں یہ لوگ مجھے بولنے نہیں دے رہے جس کی وجہ سے پاکستان ساری دنیا میں شرمندہ ہو رہا ہے اور یہ مجھے بولنے نہیں دے رہے یہ اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں ہمیں گالیاں دے رہے ہیں میں جب ایک ایسے سیاسی مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس کے اوپر بھی یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔پاکستان میں کوئی مذہبی اقلیت اس وقت محفوظ نہیں ہے ہمارے اندر ہمارے مسلمانوں کے اندر جوچھوٹے فرقے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں ہیں یہ ایک شرم کی بات ہے ایک ایسی بات ہے جس سے پوری قوم کو شرم سار ہونا چاہئیے لیکن ان کو نہ شرم آ رہی ہے نہ حیا آرہی ہے“
قارئین آگے چل کر اپنے خطاب میں موصوف وفاقی وزیر کہتے ہیں۔
” ہم لوگ ایک قرارداد لانا چاہتے ہیں کہ اس ملکمیں اقلیتیں اس ملک میں محفوظ ہو سکیں ان کا اس ملک میں رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمانوں کا حق ہے یہ ملک کسی اکثریت کا نہیں ہے یہ ملک سارے پاکستانیوں کا ہے چاہے وہ مسلمان ہوں مسیحی ہوں سکھ ہوں یا کسی بھی مذہبی اقلیت سے ان کا تعلق ہو اس ملک میں اس وقت اقلیتیں ایوان کے اندر اس ملک کے اندر اس وقت اقلیتوں کی نمائیندگی ہے ہمارا آئین اقلیتوں کو تحفظ دیتا ہے لیکن عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہاں یہ گروہ کبھی سوات میں قتل کرتے ہیں کبھی سرگودھا میں قتل کرتے ہیں کبھی فیصل آباد آباد میں قتل کرتے ہیں یہ قوم کے لمحہ فکریہ ہے شرم کا باعث ہے اور جب اس ملک اس موضوع پر پاکستان کے سب سے بڑے ایوان میں اگر بات کی جاتی ہے تو یہ اس بات کا گلا گھونٹ رہے ہیں اس آواز کا گلا گھونٹ رہے ہیں تاکہ اس موضوع پر ادھر بات نہ ہوسکےیہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں قومی مفادات کا تحفظ نہیں کر رہے۔
موصوف وفاقی وزیر آگے چل کر کہتے ہیں
”ہمارا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم مذہب کے نام کے اوپر خون بہائیں قتل عام کریں بے گناہ افراد کو قتل کریں آج تک جو لوگ قتل ہوئے انکے متعلق کوئی ثبوت نہیں ہے کہ انہوں نے خدا نخواستہ امتیازی قوانیں کا بہانہ لگا کر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں یہ اس وقت ایوان کا فرض بنتا ہےکہ متحد ہو کے اس بات کے اوپر کوئی متحدہ موقف کا اظہار کرے“
وزیر اطلاعات عطا اللہ تاررڑ نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں مذہبی اقلیتوں کی تشویش کا اظہار کرتے کہا
کہ”میں مینارٹیز پر بات کرنا چاہتا ہوں میں 70 ہزار وٹرز کرسچن ووٹرز کو رپریزینٹ کرتا ہوں میرے حلقے کےجوزف کولونی مریم کولونی بہار کولونی جہاں پر 70 ہزار کرسچن ووٹرز رہتے ہیں جو یہاں سڑکوں پر انصاف کرنے کا ٹرینڈ بن چکا ہے اسے ختم کرنا ہوگا“
قارئین وزیر موصوف آگے جا کر کہتے ہیں کہ”یہ انصاف ہے کہ کسی پہ الزام لگاو اور سر عام اس کو قتل کر دیا جائے نہ مقدمہ قائم کیا جائے نہ عدالت میں ثبوت پیش کیے جائیں کل مینارٹیز کہاں جائیں گیں؟“
قارئین وزیر موصوف نے ایسی صورت حال پر شعر بھی سنائے وہ کہتے ہیں کہ
”کچھ فیصلہ تو ہو کدھر جانا چاہئیے
پانی کو تواب سر سےگزرجانا چاہئیے
ہر بار ایڑیوں پر گرا ہے میرا لہو
مکتب میں اب درد جگر جانا چاہئیے
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مرجاناچاہئیے“
23 جون 2024 ڈان نیوز کے مطابق ”قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تاررڑ وفاقی وزیر قانون کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد میں اقلیتوں کے خلاف واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں اس میں زور دیا گیا کہ اقلیتوں کے خلاف واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائے“
محترمہ مریم نواز وزیر اعلی’ پنجاب کہتی ہیں” سوات میں جو ہوا ہمارے لیے باعث فکر ہے — گلی محلے میں عدالت لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے“
شر پسند عناصرسٹیٹ میں افرا تفری پیدا کرناچاہتے ہیں اور مذہب کے نام پر اقلیتوں کاگھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔
11اگست یوم اقلیت خطے کی تمام مسلمان مسیحی ہندو سکھ اور دیگر کمیونٹیز کے ساتھ وسعت دے کر مشترکہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے خطے میں مطالبے کے ساتھ ساتھ تمام پاک وہند کی مذہبی کمیونٹیز کی آزادی کی آواز کو اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ تمام خطے کے سٹیک ہولڈرز کو ایک بڑا پلیٹ فارم مل سکے
اگر راہول گاندھی راہنما انڈین نیشنل کانگرس بھارتی لوک سبھا میں پاکستان مسلم لیگ نون قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک لمحہ فکریہ پر کام کر رہے ہیں تو تمام خطے کی سیاسی قیادت کو ایک ساتھ کھڑا ہونا ہوگا تاکہ مذہبی اقلیتوں کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے
اقلیتی راہنماوں کو اپنے تحفظ کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت ہے اسمبلی کے اندر اور باہر لابننگ کریں اور اپنی اپنی جگہ اس Vision پر ڈھنگ سےکام کر لیں ورنہ فوٹو سیشنز تو ہم دیکھتے ہی ہیں نہ دھوکہ کھائیں نہ کسی کو کھلائیں ورنہ یہ وقت بھی بعد میں آپ کو نہیں ملے گا۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔