یوم اقلیت” مذہبی اقلیتوں کے پیش نظر مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح کےسیاسی فلسفے کا شاخسانہ

 

تحریر گمیلی ایل ڈوگرہ

تاریخ کے چہرے سے پردہ اٹھتے ہی عیاں ہو جاتا ہے
قوموں کی بہاروں کا منظر کیوں وقف خزاں ہو جاتا ہے

قلم اہل قلم کی زبان ہےپچھلے دنوں میرے قلمکار اور دانشور دوست اعظم معراج صاحب نے مجھے تحریک شناخت کے حوالے سے ٹیلی فون پر بات کی کہ انسانوں کی تفریق و تقسیم مذہب زبان نسل علاقہ یا خطہ کی بنیاد پر دنیا میں ہمیشہ جبلی طور پر ہوتی آئی ہے میں ان کے اس فلسفے کے تحت کہ ان حالات میں وہ پسی ہوئی مسیحی کمیونٹی کی شناخت کے مسئلے کو سلجھانے اور ڈائیلاگ پر کام کررہے ہیں اور مایوس بھی نہیں اسی سلسلہ میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے وہ 18 کتابیں اپنے سکول تھاٹ کے حوالے سےلکھ چکے ہیں اور اپنی منزل کی طرف ساتھیوں کے ہمراہ اپنی کمیونٹی کی نمائیندگی اور پر اعتماد جدوجہد کے درپے خراماں خراماں گامزن ہیں یہ جدوجہد نہ تو سیاسی تحریک ہے نہ این جی او نہ سیاسی پارٹی یہ ایک پسے اور دھدکارے ہوئے طبقے کی سماجی بیداری کی تحریک ہے یہ ایجنڈہ سماجی نا انصافی کی نشاندہی اور بیداری ہے وہ داد کے مستحق ہیں کیونکہ وہ ایک شناخت کے نام سے پسماندہ اور پسے ہوئے طبقے کی ایک امید کی بات کر رہے ہیں واقعی آج مذہبی اقلیوں کی اسی طریقے سے پاک و بھارت میں عوام کی تفریق و تقسیم ہو رہی ہے انکے انکشافات کے مطابق 2018 کی مردم شماری کے تحت 11 لاکھ مسیحی ملک سے غائب کر دئے گئے ہیں جیسے یہ اندیشہ ایم کیو ایم نے بھی اپنے لوگوں کے حوالے سے ریاست سے مطالبات میں کیا ہوا ہے ہماری مشکلوں میں بھارت کے مسیحیوں اور سکھوں پر تشدد اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام ماضی کا 75 سالہ تلخ تاریخی تجربہ رہا ہے مذہبی دہشت گردی جبراً تبدیلی مذہب تعصب ناانصافیاں جانی و مالی تحفظات عبادت گاہوں اور مسیحی بستیوں مندروں اور مسجدوں کا گھیراو جلاو سیاسی سماجی آئینی و قانونی حقوق سے محرومیاں سوشل سکیورٹی خطرے میں معمولات زندگی ہے۔
کل کے شہدائے آزادی ہند کے بھگت سنگھ اور منگل پانڈے اور ان جیسے دیگر محب وطن راہنماوں کے برطانوی نو آبادیاتی سامراج کے خلاف بغاوت کے جھنڈے بلند نہ ہوتے تو متحدہ ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوتا بٹوارے سے قبل جب نو آبادیاتی اسیری سے عوام آزاد ہو رہے تھے تو انکی آزادی کی نئی نوید صرف اور صرف مہاتما گاندھی اور محمد علی جناح رہ گئے تھے
محترم اعظم معراج صاحب کی ملک کے لیے تحریک شناخت کے ہمراہ خدمات کے سلسلے کے ساتھ ساتھ میں متحدہ ہندوستان کی بات ضرور کرنا چاہوں گا کہ اس کے پس منظر میں کونسے سیاسی فلسفے کے تحت عوام قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی کے قائل ہوئے اس سے پہلے کہ امپورٹڈ علامتی جمہورت کے ملک میں رائج ہونے کی بات کریں ہم نو آبادیاتی نظام کی لپیٹ کے لیے علم فلسفہ سے استفادے کی بات کرتے ہیں گاندھی اور جناح نے بغور پڑھ کر قوموں کی تقدیروں کا فیصلہ کیا پڑھ لکھ کر ریاستوں کی جغرافیائی حدود کی قیود عوام کی سماجی و سیاسی بیداری قوموں کی علاقائی ہزاروں سال قبل مسیح سے مذاہب اور خطے کی وابستگی تہذیب و تمدن وغیرہ وغیرہ کیونکہ ایک لیڈر اعلانیہ سیکولر اور دوسراریاست کے اندر تمام مذہبی اقلیتوں کے برابر کے حقوق کےساتھ مذاہب سے نبرد آزما ہونے کے بغیر ریاستی امور چلانے کی بات کر رہا تھا دو قومی نظریہ گو ایک فلسفہ کے تحت تھا لیکن اس نظریے کے تحت قیام پاکستان کی تحریک (خصوصی طور پر مسیحی و دیگر مذہبی اقلیتوں کےبغیر) اس تحریک کا بوجھ مسلمان اقلیت اٹھانے کے قابل نہ تھے اور اس حقیقت کو قائد اعظم محمد علی جناح بھانپ چکے تھے اب ایک ہی راستہ تھا کہ مذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظ اور برابر کے حقوق کے تحت ریاست بنائی جائے اس سلسلے میں قائد اعظم نے مذہبی اقلیتوں سے معاہدات کے نتیجہ میں مذہبی اقلیتوں سے باہم مل کر کامیابی حاصل کرنے کی ٹھان لی اور مسیحیوں نے انکے ساتھ ان پر اندھا دھند اعتماد کر کے تحریک پاکستان کے لیے جان کی بازی لگا دی اور باونڈری کمشن کو مسلمانوں کے ساتھ اعلانیہ طور پر اور زور شور سےشامل کروایا اور متحدہ ہندوستان میں پنجاب کو پاکستان میں شامل ایک قرارداد کے ذریعےکروایا جس میں کاسٹننگ ووٹ کرسچن کمیونٹی کے تھے اور ان حالات میں برطانوی سامراج اور مہاتما گاندھی نے قائد اعظم کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے اور پاکستان بن گیا جس میں مذہبی اقلیتیں برابر کی شہر ی اور حقوق و ملکی وسائل میں برابر مسجدوں مندوروں اور گرجا گھروں میں جانے کی آزادی کا حق مذہبی اقلیتوں کو دیا گیا جسے کوئی ان پر احسان نہ سمجھے یہ انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر لیا اور بانی پاکستان قائد اعظم نے انہیں اعلانیہ دیا جبکہ ریاست پاکستان آج تک نہ تو مذہبی ریاست بن سکی اور نہ اعلانیہ سیکولر ہو سکی مذہبی ریاست میں عدل و انصاف لازم ہے اور سیکولر طرز حکوت کا مقصد ہی عدل و انصاف کی فراہمی ہے جسے انڈیا عوام کو فراہم نہ کرسکا اور یوں عدل و انصاف عوام کو 75 سال بعد بھی نہ ملنا اس پورے خطے یعنی انڈیا اور پاکستان کی بد قسمتی ہے مذہبی اقلیتوں کو حکومتیں اور ریاستی ادارے برابر کے شہری مانتے ہیں لیکن حقوق دینے سے قاصر ہیں۔ اگلا جبر دونوں مذکورہ ریاستوں پر حکومتوں اور اداروں نے ایمپورٹڈ علامتی جمہوریت رائج کر دی جو نو آبادیاتی نظام سے بھی بد تر نظام کا پول بھوک وافلاس اور استیحصال کے ساتھ ساتھ مذہبی تفریق و تقسیم اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان مذہبی اقلیتوں کے خون کی ہولی کا بازار گرم کرنا انسانیت کی بہت بڑی تذلیل ہے سرحد کے اس پار بھارت میں مسلمان و سکھ دیگر شیڈول کاسٹ اقلیت ادھر پاکستان میں مسیحی ہندو سکھ پارسی اور دیگر کمیونٹیز اقلیت ہیں۔
اعظم معراج صاحب کی تحریک شناخت کے حوالے سے انکی فلفسفیانہ اپروچ کو جب میں آزادی ہند اور یونانی فلسفے کے ساتھ جوڑ کر پڑھتا ہوں تومحسوس کرتا ہوں کہ افلاطون سقراط اور ارسطو کےنظریہ ریاست یا مغربی فلسفہ نظریہ ریاست کے مطالعے سے اس کی مماثلت رونماہوتی ہے کیونکہ فلسفہ ہمیں یہ ہی سکھاتا ہے کہ انسانی تاریخ میں انسان کا سوچنا پھر عمل کرنا اور عمل کے بعد اس کا اس عمل پر غور کرنا اور عمل پر مثبت دلائل کا احاطہ کرنا اور منفی رجحانات کو نہ دہرانااور پھر مثبت سوچ کو لے کر آگے بڑھنا حسایت کو فروغ دینا اور پھر اسی حساسیت کے تحت محتاط رہنا اور مطلوبہ فعل یا دوسرے لفظوں میں مشن یا Vision کو عملی جامہ پہنانا اور اپنی تہذیب و تمدن کو فروغ دینا اور وہ عمل یافعل (جس پر ان کا رہنا سہنا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا ملنا جلنا)خواہ وہ خاندانی نسلی یا علاقائی لسانی مذہبی اقتصادی اور سماجی طرز زندگی ہی ہوں انسانوں کے ان افعال و پریکٹس سے اخلاقی اقدار جنم لیتی ہیں اور مذہب بھی کسی حد تک ان افعال کی معاونت سے دور نہیں بعد ازان انہی اقدار کے تحت ریاست کے طرز حکمرانی کو رائج کرنے کی ابتدا ہوتی ہے یہ سلسلہ رسم یا روایت سے شروع ہوتا ہے اور بعد ازاں کسی بھی ریاست کے طرز حکمرانی کا وجود بن جانا انسانی تاریخ کا وطیرہ ہے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کا فلسفہ برصغیر کی ایک مثال ہے۔ جس کے تحت وہ برصغیر میں تمام مذاہب کو رواداری کے تحت باہمی نا اتفاقیوں سے محفوظ کرکے رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کا سامان ضرور تھا اس سلسے میں اس پرتاریخی تنقید بھی ہوئی اور اب بھی ہوتی ہے لیکن اس کے فلسفے کے ادراک سے اہل دانش آج بھی اعظم معراج صاحب جیسی شخصیات کی طرح جدوجہد کے حوالے سے رواداری کی شمعیں لوگ روشن کرتے ہیں ایسےہی فلسفہ کا اظہار گاندھی اور جناح کے وچار تھے
فلسفہ ایک ایسا علم ہے جسے science of sciences کہتے یعنی علوم کا علم اس کا مطلب یہ ہے کہ سائینس کا مطلب ہے جاننا اور فلسفے کا تعلق سوچنے اور وہ بھی کسی منطق کے تحت سوچنے کے عمل کا مطالعہ ہے اب منطق کا مطلب بھی جاننا ہوگا منطق کا مطلب کوئی مثبت اور بامقصد سوچ کے تحت کوئی ایسا کام یا فعل جو کسی مثبت یا با مقصد دلیل کے تحت ہو۔ برصغیر کی دو بڑی قومیں ہندو اور مسلم دو فلسفوں میں تقسیم اسی وقت ہوگئیں جب ایک سیکولر اور ایک مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مل کر ریاست کے وجود کو دیکھتا ہے کیونکہ قائد اعظم کہتے ہیں کہ
”آپ آزاد ہیں آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔آپ کاتعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست سے اس کا کوئی لینا دینانہیں“
(11اگست 1947)
قارئین تاریخی حوالے سے جب ہندوستان کے بٹوارے کا وقت قریب تھا اور دو قومی نظریہ پر عوام اور نو آبادیاتی حکومت کو با خبر کرنے کا دوردورہ تھا اس تاریخی پس منظر کے حوالے سے معروف کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم بعنوان ”پاکستان زندہ باد“ (جو روزنامہ ایکپریس لاہور 6 اپریل 2020کو شائع ہوا)مذکورہ کالم میں جاوید چوہدری لکھتے ہیں کہ”
لارڈ ماونٹ بیٹن ہندوستان کا آخری وائیسرائے تھا یہ مارچ 1947 میں آیا اور جون 1948 تک ہندوستان میں رہا یہ بادشاہ جارج ششم کا کزن تھا وائیسرائے ہندوستان ہونے سے پہلے وہ سرونسٹن چرچل سے ملاقات کے لیے گیا چرچل دانشور بھی تھا اور سیاستدان بھی تھا اور دوسری جنگ عظیم کا ہیرو بھی چرچل نے لارڈ کو مشورہ دیا کی تم جاکر ہندوستان کے تمام لیڈروں سے ملاقات کرو لیکن مہاتما گاندھی سے بچ کر رہنا لارڈ ماونٹ نے کہا کیوں؟ چرچل نے کہا قدرت نےدوسروں کو قائل کرکے اپنے ساتھ ملانے کی بےتحاشہ قوت اسے دے رکھی ہے مجھے خطرہ ہے تم اسےملو گے تو تم اس کے قائل ہو جاو گے لارڈ ماونٹ بیٹن خود بھی مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا وہ مشکل سے مشکل لوگوں کو قائل بھی کر لیتا تھا اس نے قہقہ لگایا اور ہندوستان آگیا وہ ہندوسان آیا اور ہندوستانی لیڈروں سے ملا اور وہ لیڈروں کی فراست اور سادگی نے اسے قائل کر لیا پہلے لیڈر محمد علی جناح تھے اور دوسرے وہ کہتا تھا محمد علی جناح کے دلائل اور ذہانت کا کوئی مقابلہ نہیں جبکہ مہاتما گاندھی کے موقف کی شفافیت دونوں لاجواب وہ کہتا تھا یہ دونوں لیڈر ہندوستان میں امن چاہتےہیں یہ دونوں کشت و خون جنگ و جدل اور مذہب کلچر کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے خلاف ہیں دونوں کا مقصد ایک ہے لیکن طریقہ کار مختلف۔ آگے چل کر جاوید چوہدری صاحب لکھتے ہیں ”قائد اعظم محمد علی جناح کا خیال ہے مسلمانوں کو پاکستان اور ہندووں کو بھارت دو ملکوں میں رکھ کر ہی امن قائم ہو سکتا ہے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مختلف ہیں یہ مرنے تک لڑتے رہیں گے لہذہ ان کو الگ الگ سرحد میں رکھ دیا جائے“
قارئین برصغیر کی دو ممتاز راہنما شخصیات گاندھی اور جناح کے فلسفے کی ہمیں اب سمجھ آجانی چائیے کہ دونوں شخصیات امن کی داعی تھیں جس کو متحدہ ہندوستان کے عوام نے فالو تو کیا لیکن اس کے خاطر خواہ مثبت نتائج پچھلے 75 سالوں سے آج تک بر آمد نہ ہو سکے اس سے پیچھے چلے جائیں اس سے بڑھ کر امن کے خواہاں برصغیر میں مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں مذاہب کے درمیان رواداری کے فلسفے سے دیکھیں تو اس نے خطے کے تمام مذاہب کو باہم اکٹھا کرکے مذہبی تعصب اور نااتفاقیوں پر ایک سوچ دی جس پر اتفاق بھی ہوا اور مذاہب کے درمیان آسانیاں اور روداری نظر بھی آئی ہم نے قرار داد مقاصد کا آغاز ہی بانی پاکستان قائد اعظم کے افکار و فرمودات سے ٹکراو سے کیا جبکہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش بھی قائد اعظم کے وچار کا تجربہ کرنے کے بعد سیکولر طرز حکومت سے آگےبڑھنے لگا اور ایک کامیاب ریاست کا داعی بن گیا۔
طوفاں کی دشمنی سے نہ بچتے توخیر تھی
ساحل کی دوستی نے ڈبو دیا مجھے
قارئین کیا بھارت مسئلہ کشمیر کومہاتما گاندھی کے فلسفے کے تحت حل نہیں کر سکتا؟ کہ امن ہوجائے اور کشمیر میں مذہبی اقلیتوں یعنی مسلمانوں کے گلے نہ کاٹے جائیں سکھوں اور مسیحیوں کو بھارت میں سر حد کے اس پار پر امن اور شانتی کا ماحول دیا جائےحکومتوں اور اداروں کی نیت اگر خدا بدل دے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے ورنہ خطے کی قیادت کی نا اہلی اور بدنامی اور جگ ہنسائی تو ہے ہی۔ UNO اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے آگے واویلا کرنے سے بہتر ہے مہاتما گاندھی کے نیک نیتی کے وچار اور فلسفے پر ایک دفعہ پھر غور کرلیا جائے۔اسی طرح پاکستان بھی مذہبی اقلیتوں کو عدم برداشت کے تحت مذہبی دہشت گردی اقلیتی بستیوں اور عبادت گاہوں کے ذریعے مذہبی اقلیتوں کے لیے ریاست کو نرگ بنانے کے بغیر برابر کے حقوق دینے میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فلسفے سے فائدہ اٹھائے تو پھر یہ کہا جائے گا کہ
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں۔

قائد اعظم اور مہاتما گاندھی کے سیاسی فلسفے کے ہم قدردان ہیں اگر انہیں پڑھ کر اس پر عمل کیا جائے تو دونوں ملکوں کی جگ ہنسائی سے بچا جا سکتا ہےدونوں ملکوں سے اندرونی اور بیرونی ادارے اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ اس کا حل کیا ہے؟ صرف مہاتما گاندھی اور قائد اعظم کی محمد علی جناح کی لاج اور بھرم رکھ کر پسے ہوئےعوام پر جبراً بالا دستی سے اگر تھوڑا ہاتھ ڈھیلا کرکےمذکورہ لیڈرز کے سیاسی فلسفے کے تحت ایک دوسرے کو سمجھا جائے تو معاملات اب بھی سلجھ سکتے ہیں۔

پاک و ہند دوستی زندہ باد

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading