تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
اسلام آباد مارگلہ ہوٹل میں 10 اگست 2023 کی ایک شام مجھے ایک کانفرنس بسلسلہ 11 اگست اقلیت ڈے میں شرکت کا موقع ملامقررین میں سماجی شخصیت میڈم جینیفر جگ جیون شفیق ایڈوکیٹ جناب اسلم خاکی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ سماجی شخصیت پیٹر جیکب سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور دیگر مقررین شامل تھے میں صرف جسٹس منصور علی شاہ کی تقریر کے ایک حصہ پر بات کرونگا وہ کہتے ہیں کہ” میں ہال میں موجود مسیحییوں سکھوں ہندووں پارسیوں اور دیگر کمیونٹیز اور مسلمانوں سے مخاطب ہوں اقلیتیں تو اپنے مسائل اور مشکلوں کو ہمیں پچھلے اڑھائی گھنٹوں سے بتا رہی ہیں اور وہ آبادی کا 4 فی صد ہیں جبکہ ملک کا تقریباً 96 فی صد مسلمان ہیں اور اب ان سے مخاطب ہوں مذہبی اقلیتی کمیونٹیز کے لیے بہتری اور آسانیوں اور مشکلوں کے حل کے لیے 96 فی صد کو غور کرنے کی زیادہ ضروت ہے۔
انہیں چاہئیے کہ وہ مذہبی اقلیتوں کے مسائل اور مطالبات کے تحت انکے لیے آسانیاں پیدا کریں اور انکے کے معاملات نہ الجھائیں یہ انکی ریاست میں بڑی ذمہ داری ہے“
قارئین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مشہور قول ہے کہ ملک کفر سے چل سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر نہیں چل سکتا-اب 96 فی صد کو نیک نیتی سے ریاست سے انصاف کے حصول کے لیے کھڑا ہونا بھی چاہئیے_سانحہ جڑانوالہ کے نتیجے میں یہ نقصان گھیراو جلاو کے نتیجےجو بپھرے ہوئے ہجوم نے کیا اس کا کون ذمہ دار ہے۔کیا کسی جن نے یہ سارا گھیراو جلاو کیا ہے ؟کہ وہ پہنچ سے باہر ہے۔
ریاست کو مجرمان کو سزا دینی ہوگی جیو فرازک رپورٹس اور تفتیش تو پنجاب پولیس کی سپریم کورٹ آف پاکستان نےردی کی ٹوکری میں ڈال دی حالانکہ وہ ایک ذمہ دار ادارہ ہے حقائق کو سامنے لا نے میں کیوں نا کام ہے؟
فاضل جسٹس کے وچار مجھے سپریم کورٹ آف پاکستان کے دیگر چیف جسٹس قاضی عیسی’ فائز سے جب ملتے نظر آئے تو مجھے سانحہ جڑانوالہ کے بعد وہ دن 19 اگست 2023 یاد آ گیا سانحہ جڑانوالہ میں میری ملاقات متوقع چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان سےاس وقت 19 اگست 2023 کو ہوئی جب میں اور پروفیسر انجم اور دیگر ساتھی شخصیات محترمہ فہمیدہ سلیم سی ایس سی راولپنڈی پیس کمیٹی فیصل آباد سول سوسائٹی ممبران ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ننکانہ کے ہمراہ سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین کے گھروں چرچز اور قبرستانوں کی صورت حال کا جائزہ لےچکے تھے اور اس وقت مجھے بطور گائیڈ لوکل انتظامیہ کی جانب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ جسٹس قاضی عیسی’ فائز کو کروانے کے لیے میں حاضر خدمت تھا ایک سال بعد پھر مجھے جسٹس منصور شاہ صاحب کی تقریر کے دوران جسٹس قاضی عیسی’ فائز اور انکی اہلیہ کا یہ دورہ جو نجی اور سر پرائز وزٹ بار بار یاد آرہا تھا کمیونٹی لیڈر ہونے کے تعلق سےمیں نے جڑانوالہ کرسچن کمیونٹی لیڈر آصف مسیح صاحب جو نادرہ کے ملازم بھی ہیں کو ساتھ لیا اور ساتھیوں سمیت جسٹس قاضی عیسی’ فائز جو ابھی متوقع چیف جسٹس آف سپریم کورٹ پاکستان تھے انکو انکی اہلیہ سمیت سانحہ جڑانوالہ کی مسیحی بستیوں جلے ہوئےگھروں اور چرچوں کا دورہ کرواتے رہے وہ انتظامیہ کی لاپرواہیوں اور گستاخیوں پر انکی سر زنش بھی اس شرم ناک واقعے کے جائزے کے دوران کرتے رہے ہم نے جڑانوالہ کی منصفی کے لیے ان سےالتجائیں متاثرین سمیت کیں وہ مسیحی کمیونٹی سے اظہار یک جہتی اور خیر سگالی کے طور پر کرتے رہے انکا اس موقع پر آنا مسیحی کمیونٹی کی تسلی اور صبر کا سبب ضرور تھا۔ وہ متاثرین کے حوالےسے میڈیا پر سانحہ جڑانوالہ کی مذمت بھی ہماری موجودگی میں کرتے رہے اور انکے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی ہمراہ لائے تھے مذہبی و سماجی ہم آہنگی کے حوالے سے بھی صحافیوں اور متاثرین میں لکھی ہوئی ایک تحریر کی کاپیاں ڈلیور کرتے رہے جس کی تفصیلات الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس وقت ملاحظہ ہوئیں۔
ہمیں امید تھی اس دورے کے بعد عدلیہ براہ راست اب سانحہ جڑانوالہ کو دیکھے گی سو موٹو نوٹس بھی لے گی بعد ازاں فاضل جسٹس چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان بھی سانحہ جڑانوالہ کے بعد پروموٹ ہوگئے اور ان سے ہماری سانحہ جڑانوالہ کی منصفی کے حوالے سے توقعات اور زیادہ بڑھ گئیں۔ آخر سپریم کورٹ میں ملزمان کی طلبی بھی انہوں نے ہی کی اور ٹرائل کے لیے کی ہوئی تفتیش پر ریمارکس دئے کہ یہ تفتیشی رپورٹ ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے قابل ہے اور دوبارہ تفتیش کا حکم ہوا اس کے بعد دوبارہ طلبی شاید عمل میں لائی ہی نہیں گئی اور اس پر احکامات بھی صادر نہ ہوئے اور کام لٹکتا ہی گیا ہائی کورٹ لاہور نے تو نہ سانحہ جڑانوالہ پر JIT یا کمشن مقرر کیا نہ کوئی فٹ ڈائریکشن دی-
قارئین 16 اگست 2023 کو سانحہ جڑانوالہ ہوا 10 کلو میٹر کے علاقے میں 36 چرچز جلائے گھرائے گئے 250 گھر جلائے گئے مسیحی قبرستانوں پر حملے کر کے صلیبیں اکھاڑی اور توڑی گئیں ہزاروں بائیبل مقدس اور اناجیل کے نسخے جلا دئے گئے250 گھروں کو لوٹا بھی گیا 6 ایف آئی آرز پولیس کی مدعییت میں درج ہوئیں باقی پرائیوٹ مدعیوں نے بعد ازاں دیگر ایف آئی آرز سانحے کے حوالے سے درج کروائیں تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت جرم کے الزام میں ملزمان کے خلاف ایف آئی آرز درج ہوئیں 3000 ہزار لوگ ملوث پائے گئے 303 کے خلاف چالان پیش کیے گئے اور گرفتار ہوئے اب تک 22 ایف آئی آرز ہوئیں ملزمان کی ضمانتیں ہوئیں یا بے گناہ ہوگئے ٹرائل ا بھی تک نہ مکمل ہیں 11 ملزمان جیل میں باقی ہیں۔ بلوائیوں نے انتظامیہ اور اسسٹنٹ کمشنر پر حملہ کیا چڑھائی کی کیونکہ وہ مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی شخصیت تھی اور عدم برداشت کے تحت سانحہ جڑانوالہ منصوبہ بندی کے تحت ایشو بناکر اور مسجد میں اعلان کرواکر مسیحی بستیوں اور چرچوں پر بربریت کا سماں باندھا گیا۔ مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنےوالے اسسٹنٹ کمشنر بلوائیوں سے بچ کر کہیں محفوظ جگہ پہنچنے میں کامیاب ہو گئےاس کے بعد بلوائیوں نے مسیحی گھرانوں بستیوں گھروں چرچز اور مسیحی قبر ستانوں کا رخ کیا صلیبیں توڑیں بائیبلیں جلائیں گھراو جلاو کیا مسیحیوں پر تشدد کرتے ہوئے جو ہوا وہ پوری دنیا جانتی ہے خواتین نے کھیتوں میں رات گزار کر اپنی جانیں بچائیں۔ پاکستان کی مسیحی و مسلم مختلف شخصیات نے اس سانحے کی بھر پور مذمت بھی کی این جی اوز سول سوسائٹی اور لوکل گورنمنٹ نے امدادی کاروائیاں کیں متاثرین کے کھانے پینے کا بندو بست کیا گیا چرچز کی تعمیر نوع کا اہتمام کرنے کی کوششیں پنجاب حکومت کی جانب سے کی گئیں نگراں وزیر اعلی’ سب اچھا رپورٹ بننے تک کام کرتے رہے لیکن انصاف کی فراہمی بر وقت کرنے سے انتظامیہ حکومت اور عدلیہ حتی’ کہ جڑانوالہ کے عام شہری آج تک منتظر ہیں اور متاثرین انصاف ڈھونڈھ رہے ہیں۔ میڈیا حرکت میں آیا سانحہ جڑانوالہ ایک بدنامی کا ٹکہ بن کر پاکستانی قوم کے ماتھے پر لگ گیا کیونکہ یہ ایک نا قابل تلافی نقصان اور جرم بن کر سامنے آگیا ۔یہ ایک بین الااقوامی سطح پر جنگل کے قانون کی دنیا میں ایک بڑی مثال اور ذہنی تناو اور مایوسی کے حوالے سے تلخ حقیقت ہے پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف سازشوں سے بھری پڑی ہے جس ملک میں الزام علیہ پر ایف آئی آر درج نہ ہو ملزم کا ٹرائل نہ ہو اور اسے بپھرا ہوا ہجوم سزائیں دے کیا جنگل کا قانون پیچھے رہ جاتا ہے؟
پاکستان میں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر پر ظلم نظر آتا ہے کیا جڑانوالہ کے ہم وطن باشندے جو انصاف کے لیے بلک رہے ہیں وہ نظر نہیں آتے؟ انسانیت کا خون مذہب کے نام پر بہانا مسیحی بستیوں اور چرچوں کو جلانا کیا نیک کام ہے؟ کوئی مذہب ایسے خونی کھیل کی کبھی بھی اجازت نہیں دیتا؟ شانتی نگر سانگلہ ہل گوجرہ جوزف کولونی جیسے بے شمار سانحات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے
ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں اور انکی اخلاقی قدر کرتے ہیں۔ سانحہ جڑانوالہ کمزور مذہبی اقلیتوں پر کس کے تشدد و جبر کا نشان ہے؟ یہ جواب سٹیٹ خود دے………………..؟
مقبوضہ کشمیر کمزور مسلمان مذہبی اقلیت پر ہندو بربریت کا نشان ہے اور یہ ہی بربریت اسرائیل فلسطین پر کر رہا ہے۔
ہم دنیا کو کیا بتائیں کہ قائد کے پاکستان کی اقلیتیں کن کے جبر غلبے اور تشدد کا شکار ہیں اور ہمارا آئین انکی جانی اور مالی حفاظت کا ضامن ہے۔ ہم مقبوضہ کشمیراور فلسطین کی آزادی کی بات تو کرتے ہیں لیکن سانحہ جڑانوالہ کے انصاف کی بات نہیں کرتے۔
اقلیتوں کا سانحہ جڑانوالہ کا ایک نعرہ اس کے ایک سال گزرنے کے بعد یوم سیاہ کی تقریب میں لگایا گیا ہے وہ ہے ہمیں جینے دو ہمیں جینے دو۔
بقول شاعر
دعا کرو کہ میری سلامت رہے ہمت
یہ اک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔