تحریر: گمیلی ایل ڈوگرہ
نیشنل مینارٹیز ڈے 2024 کے سلسلے میں بابا فیلبوس کرسٹوفر صاحب ایم پی اے نے پنجاب اسمبلی میں ایک بڑا تاریخی خطاب کیا جس میں جدا گانہ طرز انتخاب کا مطالبہ تمام مذہبی اقلیتی نشستوں کی صوبوں اور وفاق میں حلقہ بندیوں کے ساتھ کر دیا یہ بات سلیکٹڈ ایم پی اے ہونے کا اقرار کرنے کے بعد انہوں نے اقلیتوں پر غیر جمہوری نظام کی نفی کی ہے جو جنرل مشرف دور میں مذہبی اقلیتوں پر جبراً مسلط کیا گیا اور مذہبی اقلیتوں سے کوئی رائے بھی نہ لی گئی اور ایک فار میلٹی کے ذریعے انکو سیاست کے میدان سے نکال دیا گیا مذہبی اقلیتوں کے پرانے زخموں کو بھرنے اور مرہم پٹی کرنے کے لیے یہ خطاب بڑی اہمیت اختیار کر گیا بابا جی کا خطاب اور مذہبی اقلیتوں کا جدا گانہ الیکشنز کے رائج کرنے اور انہیں جمہوری طریقے سے سامنے لانے کے لیے یہ انکی حقیقی آواز اقلیت ڈے کی مناسبت سے میاں محمد نواز شریف وزیر اعلی’ پنجاب محترمہ مریم نواز اور پنجاب اسمبلی تک انکے توسط سے پہنچی ہے شکریہ بابا جی۔۔۔۔۔۔۔
قارئین بابا جی کے یہ گنے متھے چند الفاظ مذہبی اقلیتوں پر ملکی تاریخ کی ایک دکھ بھری داستان ہے کہ مذہبی اقلیتیں 24 سال سے کانٹوں کی سیج پر وقت گزار رہی ہیں اور ان کے ایسے حالات پیدا کرنے والے ذمہ داران کا کسی نے محاصرہ ہی نہیں کیا کوئی امریکہ کوئی برطانیہ کوئی کینڈا بھاگ گیا کوئی سیاست سے ہاتھ کھینچ بیٹھا کوئی خدا کو پیارا ہوگیا جن کو شعور نہیں وہ شہباز بھٹی شہید اور دیگر شخصیات اور این جی اوز پر سوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پرذمہ دار ٹھہراتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں شہباز بھٹی شہید تو اس وقت ابھی شعور کی اس سطح تک شاید نہیں پہنچے تھےکہ ماں کے دودھ کی قسم کھا کر الیکشنز نہ لڑنے کا اعلان کیا بعد ازان الیکشن قومی اسمبلی لڑ بھی لیا بعد ازاں وہ مخلوط الیکشنز کا حصہ بنے اور وفاقی وزیر بنے اس عمل میں سیاسی میچورٹی کا اقلیتیں حقیقی vision سے انحراف اور آمر کو فالو کرنا اور وہ بھی جمہوری روایات کے تحت توہین کو بھی سمجھتی ہیں بہرحال یہ تلخ حقائق ہیں اور ان پر پھر کبھی بات ہوگی آج انکے فالورز شد و مد سے جداگانہ الیکشنز کے خواہاں بھی ہیں یہ وقت نے ثابت کیا کہ مذہبی اقلیتوں کے لیے کونسا طرز انتخاب موزوں ہے ماضی میں این جی اوز پر چرچ کا غلبہ رہا ہے اور کیونکہ چرچ لیڈرز بھی سیاست کے بغیر اپنے وجود کو خطرے میں پانی کےبغیر مرغابی کی طرح محسوس کرتے ہیں اوپر سے غیر ملکی مشنریز نے جو سسٹم قائم کیا اسے ستیاناس کرنے اور اقربا پروری میں یہ ایک مشغلہ ایک مافیا کی شکل ضرور اختیار کر نے لگ گیاجس پر 24 سال سے بے مقصد بحث چل رہی ہے اور اس طرح مذہبی اقلیتوں پر غیر نظریاتی اور غیر منطقی سوچ نے مذہبی اقلیتوں کا لمبا چوڑا نقصان کیا ہےچھوٹے کارکنوں کو مخلوط طرز انتخاب کے رائج ہونے کے لیے ذمہ دار قرار دینا بھی سیاسی شعور کی عکاسی نہیں ہے جن لوگوں کا ابھی سیاست سے دور دور کا تعلق نہیں ان حالات میں انکے ذریعے حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا اس لیے مجھے ماضی میں اس سلسلے کے پس منظر میں جا کر قارئین تک حقائق کو سامنے لانے کی ایک کوشش ضرور ہے راقم الحروف 38 سال سے زیادہ اقلیتوں کی سیاست پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور اس پر قلمکاری کے تحت تجزیہ بھی کرتا آ رہاہےمخلوط الیکشننز کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جانے والے اقلیتی نمائیندگان پر تنقید بھی نہیں کرنی چاہئیےکیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تاریخ میں انکی نسلوں کو بھی لوگ وہ عزت نہیں دیں گے کیونکہ مخلوط الیکشننز میں یہ اسمبلیوں میں بالکل با اختیار نہیں جمہوری طریقے سے آنے والے سیاستدان انہیں اسمبلیوں میں خیرایتی سیٹس پر آنے کی طعنہ زنی کرتے ہیں مخلوط سسٹم کی وجہ سے وہ انہیں کہتے ہیں اگر جدا گانہ الیکشن ہوتے تو یہ کبھی کونسلر کا بھی الیکشن نہیں جیت سکتے تھے انکی ذاتی مالی ترقی تو عوام کے ٹیکسز اور فنڈز سے ہوئی ہے لیکن قوم کو دلدل میں دھنسنے کا سبب بھی یہی ہیں۔مذہبی اقلییتوں کی سیاست کسی vision کے تحت نہیں اس لیے انکے درمیان محض یہ فارمولہ ہے ”جو جانتے ہیں وہ بولتے نہیں جو بولتے ہیں وہ جانتے نہیں“ کامران مائیکل سابقہ سینٹر خلیل طاہر یا عامر جیواہ کھیل داس یا دیگر سیٹنگ ایم این ایز ایم پی ایز یا سینٹرز کی پوزیشننز سیاسی قد میں یہ بابا فیلبوس کے شعور جتنا ان کا قد انکےپنجاب اسمبلی میں مذکورہ خطاب کے بعد نظر ہی نہیں آ رہا کیونکہ انسان کی سوچ کے منتقی معیار سے سیاسی قد کی پہچان ہوتی ہے روایتی سیاست اور کسی vision یا منطق کے تحت سیاست میں ممتاز ہونے میں یہ ہی فرق ہے اور بابا فیلبوس ایم پی اے کم از کم سطو پی کر اسمبلی میں نہیں جاتے اور قوم کی حقیقی آواز کو من عن اسمبلی تک پہنچاتے ہیں وہ چاہ پلوسی اور نام نہاد سرگرمیوں سے بھی آگے بڑھتے نظر نہیں آ رہےعوامی رابطہ میں آگے ہیں قیادت ان سے محبت کرتی اور مطمئین ہے سیاسی شعور بانٹنا ایک مشکل کام ہے۔ میں نے تمام سیاسی نمائیندوں کوقریب سے دیکھا ہے۔ بابا جی نے مذہبی اقلیتوں پر آمریت و جبر کی داستاں کو سنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب مشرف آمریت نے ترقی پر گامزن حکومت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا 1997 میں تخت الٹ دیا تھا۔
آمریت و جبر کا آغاز ہوگیا راقم الحروف کا ایک کالم مشرف آمریت دور میں روز نامہ خبریں 6 مئی 2000 میں شائع ہوا جس میں ”جدا گانہ طرز انتخابات اور اقلیتیں“ موضوع گفتگو تھا مخلوط انتخابات رائج کرنے کی تیاری ہو رہی تھی الیکشن کمشن نے کس کے کہنے پر مخلوط طرز انتخابات کی سمری تیار کی تھی آج تک علم نہیں؟ کوئی حکم آج تک سامنے نہ آسکا حالا نکہ یہ کام آئین میں ترمیم کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا الیکشن کمشن نے آئینی ترمیم بذریعہ اسمبلی قرار داد یابل کے بغیر ایسا کرنے کا پابند ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوا راقم الحروف مخلوط طرز انتخاب کے رائج ہونے کے پس منظر میں آپکو لے کر جانا چاہتا ہوں۔
تاریخ بتاتی ہےکہ میاں محمد نواز شریف حکومت کا تختہ مشرف آمریت نے الٹا دیااور ان پر نواز شرف طیارہ سازش کیس بنایا گیا تو ان حالات میں ان کے اقلیتی ساتھی راہنما آمریت کے ہاتھوں سہمے اور روپوش تھے 6 مئی 2000 کو میں نے قلم کاری اور ادنی’ سیاسی سماجی کارکن اور قلمکار ہونے کے تعلق سےروزنامہ خبریں میں اپنے کالم ”جدا گانہ طرز انتخابات اور پاکستانی اقلیتیں“ کا قومی اخبار میں یوں آغاز کیا کہ
”جنرل مشرف نے (ایک اخباری بیان کے مطابق) کہا کہ جداگانہ الیکشن کے خاتمے کا فیصلہ قومی مباحثے کے بعد کیا جائے گا ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی اقلیتیں جداگانہ الیکشن کے حق میں ہونگی یا اس کی مخالفت میں“
قارئین کتنی عجیب بات ہے کہ الیکشن کمشن سمری پہلے تیار کرتا ہے اور بحث یعنی فارمیلٹی بعد میں اگر بحث ہونا تھی تو سمری میں کونسی جلدی کی ضرورت تھی یہ محض اقلیتوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش تھی۔ اس وقت حالات کیا تھے اور معزول وزیر اعظم کے ساتھی پارلیمینٹیرین کون تھے مسلم لیگ کے حوالے سے دی کرسچن ٹائمز مئی جون 2000 کے راقم الحروف کے دیگر کالم بعنوان ”نواز شریف طیارہ سازش کیس اور مسیحی مسلم لیگیوں کی طوطا چشمی“ شائع ہوا اور جب میاں محمد نواز شریف کا تخت الٹاگیا تو ساتھ ہی مذہبی اقلیتوں کو آمریت کے تحت مخلوط الیکشنز جوغیر جمہوری طریقہ کارکے تحت اقلیتوں پر جبر کیا گیا 6 اپریل 2000 کو میاں محمد نواز شریف معزول وزیر اعظم کو طیارہ سازش کیس میں کراچی کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمر قید کی سزا (بمعہ 20 لاکھ ہرجانہ اور 10 لاکھ جرمانہ کی ادائیگی کی سزا سنائی گئی عوامی سطح پر پاکستان مسلم لیگ نے کوئی بھی ایسا ردعمل نہ دیکھایا جس سے ان کی ہمدردیاں عکس کی جائیں مفادات پرست مسلم لیگی تو خاموش تماشائیوں کی طرح نواز شریف کی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہے راقم الحروف کے مشاہدات کے تحت زیادہ افسوس اقلیتی سیاسی راہنماوں پر جن میں مسیحی سیاسی لیڈروں کاذکر ناقابل فراموش ہے ہمارے مسیحی سیاسی لیڈروں میں سے بھی چند میاں نواز شریف کے چہیتے تھے اور کئی سالوں سے رہے ہیں اس ضمن میں مسیحی برادری کے سیاسی ٹھیکیداروں کا ذکر کرونگا فیصل آباد سے پیٹر جان سہوترہ سابقہ وفاقی وزیراقلیتی امور جانسن مائیکل سابقہ مشیر وزیر اعلی’ پنجاب سائمن گل ایم این اے سرفہرست تھے“
آگے قارئین میرا کالم تاریخی پس منظر میں مذکورہ ان حالات کا تجزیہ یوں ہے کہ”پاکستان مسلم لیگ کے مسیحی اقلیت کے لیڈروں نے جن میں پیٹر جان جانسن مائیکل عادل شریف پیٹر گل سائمن گل طارق سی قیصر روفن جولیس رستم سی قیصر اور دیگر سیاسی قائدین نے پاکستان مسلم لیگ کی ایگزیکٹو باڈی سے بھی زیادہ موجودہ حالات میں بزدلی منافقت اور بے بسی کا مظاہرہ کیا۔
مسلم لیگ کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ایسے لوگوں کی قیادت نے مسلم لیگ میں مسیحی اقلیت کا با عزت مقام خراب کر دیا ہے مسیحیوں کو ابھی مسلم لیگ کی نظر میں شرمندہ ہونا پڑے گا یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ مسیحی اقلیت کے لیڈر ز نے مفاد پرست بزدل اور منافق لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گئے جو سیاسی شعور رکھنے والی عوام کی نظر میں اپنی مقبولیت ہمیشہ کے لیے کھو گئے“ (ماہنامہ کرسچن ٹائمز شمارہ مئی جون 2000)
قارئین 24 سال سے ایک بحث چل رہی ہے کہ مخلوط الیکشنز کیوں رائج کیے گئے اس جبر اور غیر جمہوری نظام کے تسلط پر مزاحمت کرنے والے جان بچاتے پھرتے رہے تھے اور 24 سال سے ہم باہم سیاسی این جی او شامل ہو تو سماجی اور مذہبی فکر و نظر رکھنے والے ایک دوسرے پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔
مجموعی طور پر اقلیت ڈے کے موقع پر بابا فیلبوس کا جدا گانہ الیکشنز کا مطالبہ مذہبی اقلیتوں کا مجموعی مطالبہ ہے جو حلقہ بندیوں کے ساتھ ایک جمہوری موزوں اور ترقی کا سبب معاملہ ہے اس پر غور کرنے اور آگے بڑھ کر جدا گانہ الیکشنز کا مطالبہ بابا جی کی سیاسی بصیرت اور شعوری بیداری
کے ہم قدر دان ہیں اور پنجاب اسمبلی میاں محمد نواز شریف اور وزیر اعلی’ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کا خیر مقدم کرتے ہیں کہ وہ جداگانہ ایکشنز کے حوالے سے مذہبی اقلیتوں کو حقیقی پٹڑی پر لے آئیں اس سے اقلیتیں ان کے جمہوری عمل میں اقلیتوں کا حقیقی کردار پاکستان کی ترقی میں اہمیت کا حامل ہوگا۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔