میرے پینڈ دے لوک سیانے نیں

تحریر:۔گمیلی ایل ڈوگرہ

کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا
”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو
طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ،
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا..
اور کہا ..
یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا
”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،
،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو،
یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.
بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے …
اس کہانی کو پڑھنے کےبعد دیہاتوں کے ماحول پر ہماری گہری نظر پڑتی ہے پچھلے دنوں معروف مسیحی گاوں مریم آباد وزیر اعلی’ پنجاب کی آمد پر مریم آباد کی ثقافتی و روایتی خوبصورتی کے تحت اس گاوں پر میرا ایک عدد کالم شائع ہوا اور آج کل دیہی و شہری علاقوں میں بارشوں کے اس موسم میں مون سون کی رم جھم نے طوفانی بارش کی صورت حال اختیار کر لی۔ ہے
میں سوشل میڈیا پر دیکھ رہا تھا کہ چکنمر 33امرت نگر میاں چنوں کو سوشل میڈیا رپورٹ میں کہ
”چوہدری رحمت نعار کی زیرنگرانی “چوہدری سلامت گروپ” نے پانچ مرلہ سکیم کے جوہڑ پر اپنی مدد آپ کے تحت واٹر پمپ لگوا کر پانچ مرلہ سکیم کے عوام کے لیے آسانی پیدا کر دی۔
تفصیل کے مطابق حالیہ بارشوں نے امرت نگر کے جوہڑ و گلیات کو ندی نالوں میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ پانچ مرلہ سکیم کے “چرچ آف پاکستان ” کے اندر پانی جا چکا تھا۔ پانچ مرلہ سکیم کی گلیات ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی تھیں جس وجہ سے عوام الناس کا جینا محال ہو چکا تھا۔ خواتین و بچوں کے لیے گندے پانی میں سے گزرنا کسی امتحان سے کم نہ تھا ۔ عوام کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ” چوہدری سلامت گروپ” نے چوہدری رحمت نعار کی زیرِ نگرانی اپنی مدد آپ کے تحت واٹر پمپ لگوا کر جوہڑ کا پانی نکلوانا شروع کر دیا-
قارئین33 چک سے ہمارے نوجوان دانشور دوست اور شاعر اے ڈی ساحل منیر بھی ان ہی ساتھیوں کے ساتھ مشغول نظر آتے ہیں بہر حال وہ معززین دیہہ کے ساتھ مل کر کامیاب ہوگئے اور چرچ میں پانی داخل ہونے سے اسے بچا لیا جرچ معاونت کرنے والوں کو خدا اس کا اجر دے آمین۔
دیہاتوں کے لوگ ایک دوسرے کی مدد کے لیے کتنے مہربان ہوتے ہیں قارئین مجھے بھی اپنےگاوں کے حال پر ان حالات می ترس آرہا ہے کیونکہ اس کے پس منظر میں ہماری اس دھرتی سے محبت ہی ہے کہ اس کے حالات پر ہم نالاں بھی ہوتے ہیں۔
قارئین میرا معروف گاوں خوشپور فیصل آباد کی تحصیل سمندری کے گردونواح کے دیگر دیہاتوں میں اپنی ایک پہچان رکھتا ہے کیونکہ یہ علم و ادب کا اس علاقے کا گہوارہ رہا ہے۔ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم منو بھائی جوشوافضل و دین اور دیگر پاکستان کی اہم شخصیات ہمیشہ گاوں میں تشریف لاتی رہی ہیں طالب علمی دور سے ہی ہم ایسی دانشور شخصیات کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں گاوں کی صد سالہ جوبلی کی سینچری پرفارمینس ایوارڈ کی تقریب اور آل پاکستان کرسچن رائیٹر ز کی کانفرنس کی میزبانی بھی پاکستان کرسچن رائیٹرز گلڈ خوشپور کے صدر ہونے کے ناطے سے ہمیں کرنے کا اعزاز حاصل ہےکراچی سے پشاور تک دانشوروں نے اس میں شرکت کی۔ میرے گاوں خوشپور میں ایک آل پاکستان مشاعرہ طالب علمی دور میں ہوا جس کی میزبانی ہمارے حصے میں آئی میرے ساتھی نوید والٹر ان دنوں شاعری سے گہری دلچسپی رکھتے تھے ہم نے باہم مل کر طالب علموں کی نمائیندہ ادبی تحریک حروف اکیڈمی کی بنیاد ڈالی جس کے تحت ایک ادبی تحریک سے طویل عرصہ تک وابستہ رہے آج کل تو مادہ پرستی اور الیکٹرانک میڈیا نے ایسے ماحول کا ٹرینڈ ہی بدل دیا ہےہم اس ادبی تحریک کے بانی تھے بعد ازاں یہ تحریک این جی او کی شکل اختیار کرنے لگی ہمیں جب کباب میں ہڈی کی نظر سے دیکھا جانے لگا تو موقع پرستوں سے وابستگی سے کنارہ کشی کو بہتر سمجھ کر سماجی وسیاسی ادبی سرگرمیوں میں شامل رہے اور تاحال ہیں ان ہی دنوں ایک آل پاکستان مشاعرے کا اہتمام کیا گیا گاوں خوشپورمیں کئی مہینوں تک اس مشاعرے اور موسیقی کے پروگرام کی تیاری کرتے رہے ان دنوں حروف اکیڈمی کے تحت میں حرف نام سے کتاب لڑی کے سلسلے میں راقم الحروف انکشافات کے نام سے کالم لکھتا تھا اس مشاعرے میں لاہور سے ہر دلعزیز شاعرنذیر قیصر اور اسرا زیدی کے ساتھ معروف شعراء فیصل آباد سے انجم سلیمی کے ساتھ اشرف یوسفی شاکر غوری اور دیگر شعراء اکرام تشریف لائے۔ میرے گاوں کے معروف اور اردو و پنجابی کے میٹھے لہجے کے شاعر یوسف پرواز صاحب بھی اس مشاعرے میں تشریف فرما تھے موصوف یوسف پرواز اور نوید والٹر آج کل امریکہ میں مقیم ہیں
1990 کی دھائی کے آخری دنوں کی بات ہےاس تاریخی مشاعرے میں یوسف پرواز صاحب اور تمام دیگر شعراء نے اپنا اپنا کلام سنایا اور بہت زیادہ داد وصول کی۔ گاوں کے سینئیر شاعرو یوسف پرواز صاحب نےایک پنجابی نظم جس کا عنوان تھا”میرے پینڈ دے لوگ سیانے نیں“ پنجابی نظم سنائی اور تاریخی محفل میں گاوں کے لوگوں کی بھر پور داد و تحسین وصول کی
میرے پینڈ دے لوک سینانے نیں
ایناں بھجے موٹھ اگانے نیں
دل نئین مندا پر کی کرئیے
دن ایناں نال لنگھانے نیں

کج مست سیاسی کھاڑے وچ
کج روجے مشن اجاڑے وچ
سب کھبیوں سجیوں کانے نیں
میرے پینڈ دے لوک سیانے نیں

مذکورہ بالا پوری نظم کا ایک بند مجھے ابھی بھی زبانی یاد ہے یوسف پرواز صاحب سے معذرت کے ساتھ کہ انکی اس نظم کی شاید ہمیں اس وقت اتنی سمجھ نہیں آئی تھی
آج اتنے سالوں کے بعد مجھے بڑی شدت سے مذکورہ نظم یاد آرہی ہے
اس نظم کے ایک بند میں پرواز صاحب نے گاوں کی تصویر کتنے سال پہلے کھینچی تھی آج میں اس کو انکے الفاظ کے تحت دیکھوں تو گاوں کے بڑوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کج مست سیاسی کھاڑے وچ یعنی نمبر ایک گاوں کی سیاسی شخصیات دوسری قسم کج رجے مشن اجاڑے وچ دوسری قسم مذہب یا چرچ ایکٹوسٹ اور انکی معاونین شخصیات اور اگے ان کے بارے میں فرماتے ہیں سب کھبیوں سجیوں کانے نیں۔
میں انکی نظم کو آج سمجھتاہوں اور قارئین آج یقینناً آپ بھی سمجھتے ہیں۔
آنجہانی شہباز بھٹی کی شہادت کے بعد انکے بڑے بھائی ڈاکٹر پال بھٹی وزیر اعظم پاکستان جناب یوسف رضا گیلانی کے مشیر بن گئے وہ ہمارے گاوں کی بڑا فخر شخصیت ہیں لیکن وہ شہباز بھٹی کے فالورز کے سیاسی تنازعات کے نتیجہ میں ایک غیر واضح جانشیین اور متنازعہ شخصیت ثابت ہوئے ہم انکا احترام کرتے ہیں انکو متنازعہ بنانے میں انکی سیاسی صفوں کےاندر کی کہانی ہے وہ شاید سیاسی طور پر غلط منصوبہ بندی کے تحت لائے گئے جس میں شہباز بھٹی کے غیر واضح جاننشینوں کی قیادت کے حصے بخرے دیکھنے کا لمبا سلسلہ ملک میں ہمیں نظر آتا ہے اور شہباز بھٹی کے بعد سیاسی سماجی ابتری کے سفر کے یقینناً آغاز کابھی یہ ہی وقت ہے موصوف ڈاکٹر نے (جو شہباز بھٹی کے بڑے بھائی ہیں) کروڑوں روپے کے رواں سماجی پروجیکٹس کورین اور دیگر ملکوں کے ڈونررز کے توسط سے جاری رکھے دو مین پروجیکٹس جو مس مینجمینٹ کے تحت خوشپور کے گلے پڑھ گئے مذکورہ دو پروجیکٹس کرنے کا کبھی کسی نے کوئی مطالبہ گاوں کی کمیونٹی کی طرف سے نہ کیا تھا کچھ چرچ لیڈرز انکی سفارش کے کاغذی طور پر انکے حمایتی ضرور ہونے کا احتمال ہے۔
انہوں نےگاوں کی پختہ انعکاسی اور سڑکوں کےنظام کو بیک وقت اکھاڑ کر اور مسمار کر کے آغاز کیا یہ کروڑوں کی ترقیاتی تعمیرات جو سابقہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی گرانٹس سے لگی ہوئیں تھیں پل بھر میں اسے گاجر مولی کی طرح اکھاڑ دیا گیا صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی اجازت کے بغیر نام نہاد سیورج کے ناقص پروجیکٹ کی بنیاد ڈال دی گئی حالانکہ یہ ہم جیسی سماجی سیاسی ورکرز کی کاوشوں سے یہ پرجیکٹس گاوں کو سابقہ حکومتوں کی جانب سے ملے تھے مذکورہ سیورج پروجیکٹ کو نا مکمل چھوڑ دیا گیا ناقص قسم کی پائپ لائینز پر مٹی تک مقامی باشندوں نے ڈال کر گلیاں اور گزر گاہیں ہموار کیں۔ اور یہ شہباز بھٹی شہید کی شہادت کے بعد گاوں کے باسیوں کے لیے یہ نام نہاد اور ناقص پروجیکٹ ایسا گلے پڑ گیا کہ آج حالت یہ ہے کہ ہر گلی کی سڑک جو مدتوں سے پختہ تھی آج ہر گلی ایک گندھے جوہڑ کا منظر پیش کر رہی ہے اور وہ موصوف ڈاکٹر اٹلی قیام پذیر ہیں اور شہباز بھٹی کی کروڑوں روپوں کی کمیونٹی کی جائیداد پر کبھی فیکٹری کبھی ہسپتال کبھی دیگر نام نہاد پرو جیکٹس کے نام سے اس جائیداد کو زیر استعمال رکھے ہوئے ہیں گاوں کی مجموعی بربادی کی ذمہ داری وہ اپنے ذمہ نہیں لے ہی نہیں رہے ذرائع کے مطابق اس میں کرپشن بھی آڑے آئی جو اس کے آفس سٹاف کی جانب سے سامنے آنے کا احتمال ہے حتی’ کہ ضلع کونسل فیصل آباد کے ریکارڈ میں اس کی انکوائری کی بھی ولج کمیونٹی کی جانب سے استدعا کی گئی لیکن اس پر ابھی تک کاروائی رکی ہوئی ہے واٹر سپلائی پرجیکٹ کی ناکامی کے بعد
اب اس ڈوبتی ہوئی کشتی کو ریورنڈ برادر شہزاد نے سہارا دینا شروع کیا ہے ہم انکے شکرگزار ہیں اور واٹر سپلائی نظام میں بہتری کی امید اب شروع ہوگئی ہے۔
خوشپور کی تاریخ میں ناقص کارکردگی کے حوالے سے کچھ ایسے خاندان متنازعہ ہیں جن پر گاوں اب بھروسہ نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں اگر کھل کر بات کریں تو معززین دیہہ کی پگڑیاں اچھالی جائیں گیں اور ایک خطر ناک سلسلہ شروع ہونے کا احتمال ہے لیکن بستیاں اس وقت اجڑتی ہیں جب ان سےانصاف ختم ہوجائے۔
آج تھانہ کچہری میں گاوں کی معتبر شخصیات سے ہی کمیونٹی لٹ رہی ہے گاوں میں مقدسہ مریم کے میلے پر ویڈیو فلم بنانے والوں سے بھی ہزاروں روپے وصول کیے گئے کون ذمہ دار ہے ؟ الو نہیں انصاف کی عدم فراہمی بستیاں اجاڑ دیتی ہے۔
ڈاکٹر پال صاحب شہباز بھٹی صاحب کے رواں پروجیکٹس کی بجائے انکی بقیہ جائیداد جو شہباز بھٹی کے بعد کمیونٹی کی امانت ہے اسے گاوں کے ناقابل تلافی نقصان کے ازالے کے طور پر گاوں کی گلیوں کو جوگندھے جوہڑوں کے مناظر پیش کر رہی ہیں انکی تعمیر نوع کروا دیں تو گاوں یقینناً انکا تابعدار رہے گا گاوں کی کمیونٹی کا کیا قصور ہے ؟پروجیکٹ ناقص آپ کے اور سزا لوگوں کو کیوں ؟…..کوئی زمینداروں کے نام پر ٹریکٹر کھا گیا کوئی ٹیوب ویل کھا گیا کوئی لیولر کھا گیا اگر کمیونٹی کی جانب سے اداروں کی انکوائری سامنے آتی ہے تو کتنےلوگ اس حمام میں ننگے پائے جائیں گے سمجھ سے باہر ہیں یہ بیگانے مال کا لالچ کرتے ہیں اور لالچی انسان کبھی بھی عزت دار نہیں ہوتے اس لیے بستیوں کو انصاف سے قائم رکھنے کی سوچ کے ساتھ ہمیں اپنے کام میں آگے بڑھنا ہے ہماری لہلہاتی فصلیں اس ملک کو شاداب کرتی ہیں اور ہماری ترقی کی دلیل ہیں انہیں قائم رکھنے کے لیے سب کو مخلص ہونا چاہئیے۔
اپنے ہی گاوں کے شاعر یوسف پرواز صاحب کی نظم کا وہی بند ہمارے راہنماوں کی تنبیہ بھی ہو سکتی ہے
میرے پینڈ دے لوک سیانے نیں
ایناں بجھے موٹھ اگانے نیں
دل نئیں من دا پر کی کرئیے
دن ایناں نال لنگانے نیں
کج مست سیاسی اکھاڑے وچ
کج رجے مشن اجاڑے وچ
سب کھبیوں سجیوں کانے نیں
میرے پینڈ دے لوگ سیانے نیں

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading