تبصرہ نگار: گمیلی ایل ڈوگرہ
تیرہ اکتوبر 2024 کو امرت نگر 133 ایل 16 میں پاکستان کرسچن رائیٹرز گلڈ کے زیر اہتمام ادبی کانفرنس کی. تقریب رونمائی و پذیرائی کتب میں مجھے قلمکاری کے حوالے سے معروف ادیب شاعر دانشور اور کہنہ مشق صحافی سیمسن جاوید کی کتاب پر مقالہ پڑھنے کی ذمہ داری مذکورہ تقریب میں مجھے مرکزی قیادت کی جانب سے سونپی گئی مذکورہ مقالہ حاضرین محفل کی شعوری بیداری اور معلومات کی فراہمی کتاب کی تکنیکی و فنی بنیادو ں کے تحت پذیرائی کا معیار و منزلت اور سماج سدھار پیش قدمی کے تحت ایک تاریخی دستاویز ہے اسےحاضرین محفل کے روبرو پڑھنے کے بعد قارئین کی نذر من و عن پیش کر رہا ہوں۔
چوتھی سے پہلی صدی قبل از مسیح تک علم فلسفہ سے لیکر تمام علوم اور حکمت کے حوالے سے دنیا یونان کی طوطی بولتی تھی اور وہ افلاطون سے سکندر اعظم تک کے ریاست کے فلسفے اور نظریے کے حوالے سے باخبر تھی خواہ ریاست کا Utopian نظریہ ہو یا مابعد الطبعیات کی بات ہو ان حالات میں علم فلسفہ کے بغیر نظریہ ریاست کے مثبت پہلووں کے تحت زندگی گزارنے کے طور طریقے اور جینے کا ڈھنگ نہ جاننے کی مشکل کا شکار ہی نظر آتی تھی قارئین یونان نے پوری دنیا کو نئی امید نئے خوابوں سے روشناس کروایا۔ کیونکہ یونانی فلاسفرز کا موضوع بحث ریاست میں جمہوریت کا رائج کیا جانا ہی تھا دنیا یونان سے بڑھ کر کہیں اور جگہ سےحکمت کے لیے وہ استفادہ نہ کر سکی جو جبر و استیحصال کےخلاف تبدیلی کے نظام کے لیے سیاسی و سماجی بیداری کا ساماں ہو اس طرح فلاسفروں کی لڑی میں افلاطون سے سکندر اعظم تک دنیا کی دیگر کوئی ریاست انکی ثانی اور سپر پاور نہ کہلا سکی اور آج بھی فکرو نظر کے حوالے سے دنیاعلم فلسفہ نفسیات منطق اور دیگر دنیا کے علوم کے تحت ریسیرچ کے درپے نظر آتی ہے کیونکہ انہوں نے science of sciences (یعنی سوچنے کے علم اور وہ بھی اس کے منطقی ادراک کے درپے) دنیا کو سر کر لیا تھا۔
آج وطن عزیز یعنی پاکستان میں رہ کر دنیا سے اس کا موازنہ کرنا اور اپنے پسماندہ طبقوں اور خصوصی طور پر مذہبی اقلیتوں کی بات کرنا اور بھی کٹھن مرحلہ ہے۔
ماوزے تنگ کہتا ہے کہ
”اگر آپ راہنما بننا چاہتے ہیں تو لوگوں میں قیام کے بغیر ایسا ممکن نہیں“
اس کا مطلب ہے حقیقی لیڈر شپ ہی سماج و سیاست اور ریاست کی نبض ہے اور باقی سب کچھ جبر کے زمرے میں آتا ہے اور اقتدار کی جنگ میں کچھ باتیں مخفی رہتی ہیں
سیمسن جاوید نے زندگی کے تقریباً 35 سال (شعوری سفر کے حوالے سے) اپنے لوگوں کے درمیان ان کے دکھ درد مصائب اور مشکلات کاسامنے کرنے کا جو تجربہ و تجزیہ کیا اسے ایک نئی امید کے تحت انہوں نے اپنے لوگوں کو ایک حوصلہ بھی دیا ہے میں ذاتی طور پر انکو 35 سال سے ہی جانتا ہوں کیونکہ وہ میرے ہم عصر ساتھی کالم نگار اور دانشورانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اکثر ہمارا سامنا علم و ادب اور فکر و نظر کے تحت ہی قلمکاری کے توسط سے رہا ہے۔
انکے قلم کی نوک سے جو آواز نکلتی ہے وہ یقینناً یونانی فلسفے طرز کی راہوں کے تعین سےکم نہیں
وہ اپنے قلم سے بے آواز پسماندہ لوگوں کے دکھ کے راگ کو مسلسل 35 سال سے الاپ رہے ہیں وہ شہباز بھٹی شہید پر تشدد کے حوالے سے ریاست کے جبر پر خاموش نہیں ہیں وہ عام آدمی سے لیکر پسماندہ طبقوں کے لیے ہمیشہ فکر مند نظر آئے ہیں وہ اپنے ملک میں طویل عرصہ تک رہ کر اورے پھر باہر برطانیہ میں رہ کر اپنے لوگوں کی بات کرتے ہیں کیونکہ انکی سوچ کی جڑیں ہی پاکستان کے لوگ ہیں ان پر تشدد انکی برداشت سے باہر ہے وہ زور قلم سے ریاست کے حکمران طبقوں آمرانہ رویوں اور مذہبی دہشت گردوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں
گل و خار کے نام سے وہ لوگوں سے محبت اور پیار کی امید لگاتے ہیں اور انکے دکھوں کا ذکر کرتے ہیں جو پھول تک پہنچنے پر کانٹوں کی چبھن کا سامنا کرتے ہیں۔
اگر اختصار سے انکے فکر نظر کا اظہار کروں توگل و خار مذہبی اقلیتوں کے دکھوں کی داستان حیات کی ایک دستاویزی تحریر ہے جسے آنے والی نسلیں پڑھیں تو قوموں کی مشکلوں اور دکھوں کے تحت ہماری اگلی منازل کو طے کرنا اور ان کا مداعوہ کرنا ہمیں آسان لگ رہا ہے اور یہ ساری امید سیمسن جاوید صاحب ہمیں اپنی اس دستاویزی داستاں کے ذریعے لگاتے نظر آتے ہیں۔
تاریخ کے چہرے سے پردہ اٹھتے ہی عیاں ہو جاتا ہے
قوموں کی بہاروں کا منظر کیوں وقف خزاں ہو جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیداری کی لہر ضرور آتی ہےجبر ہمیشہ نہیں رہتا
ملے نہ پھول تو کانٹوں سے دوستی کر لی
اسی طرح سے بسر ہم نے زندگی کر لی
وہ جن کو پیار تھا چاندی سے عشق سونے سے
وہی کہیں گے کہ ہم نے خود کشی کرلی
گل وخار کے بہترین موضوعات ریاست میں نا انصافیوں اور اقلیتی فرقوں سے بد سلوکی کا ایک مقدمہ ہے جسے سیمسن جاوید لڑ رہے ہیں۔ انکے کالموں کے مجموعہ ”گل و خار“ کے تحت موضوعات مضامین یوں ہیں کیا اقلیت ہونا جرم ہے؟شہباز بھٹی کارتھیج کاشہید، آہ کوٹ رادھا کشن کا شہزاد اور شمع،پاکستان میں اقلیتوں کا مستقبل کیا ہے؟ضرب عضب قومی ایکشن پلان کے بعد,صادق خاں کا لندن کا میئر منتخب ہونا تقلید المثال,اٹھارویں ترمیم اور اقلیتیں21 ویں آئینی ترمیم اور مذہبی اقلیت,پاکستان میں مشنری جائیدادکی خرید و فروخت,مذاکرات مسیحی اورسزائے موت,ووٹ کا تقدس،امریکی سالانہ مذہبی آزادی رپورٹ،ڈاونچی کوڈ میں یسوع المسیح کی الوہیت کو چیلنج،برطانوی سیاست میں پاکستانی مسیحیوں کی عدم دلچسپی،11اگست اور 11 ستمبر،کرسمس امن ٹرین،مذہبی انتہا پسندی اور انسانی حقوق،مسیحی نوجوانوں پر 295 سی کے جھوٹے مقدمات،جبراً تبدیلی مذہب اور نکاح کی اذیت،جبراً تبدیلی مذہب اور نکاح اقوام متحدہ کی تشویش، شدت پسندی نفرت کو جنم دیتی ہے
نئے پاکستان کا نعرہ اور مسیحی،ضابطہ اخلاق اور قوانین کا منبع,پاکستان کے سیاستدان،ڈاکٹر جیمس شیرا1946-2024,پاکستانی نثاد اور برطانوی مسیحی اور سیاستدان،یوحنا آباد کا مقدمہ،سانحہ یوحنا آباد کے قیدیوں کی رہائی، بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ,ایس پی سنگھا کا ڈاک ٹکٹ,کیا سیاست دانوں کے لیے شجر ممنوع ہے؟سانحہ جڑانوالہ اور حکمت عملی،سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ عوام کی بھی سیاسی تربیت ضروری ہے،سوچ کے گرداب میں, شدت پسندی قومی سلامتی کے لیے خطرہ،تبدیلی سوچ اور یکجہتی کی ضرورت،تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی،تھائی لینڈ میں پاکستان سائلم سیکر کی مشکلات،امید کی کرن،ظلم ظلم کو جنم دیتا ہے،جتنےبندے سب کے سب ہی چوہدری،ریاست اور مذہب،وفاداری اور زندگی کا تاج،سال 2019 میں سرکار کے تحائف
المختصر معروف دانشور صلاح الدین حیدر ”سیمسن جاوید کی تحریروں پر ایک نظر کے“ موضوع کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”سیمسن جاوید نے ایک سنگین اور پیچیدہ صورت حال کی نشاندہی کی ہے اور اس کے ماخذوں کی تلاش وجستجو میں انہوں نے کرپشن مفاد پرستی اور اقلیتوں کے بعض نمائیندوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ سیمسن جاوید نے مختلف ادوار میں اقلیتوں پر ہونے والے حملوں مثلاً شانتی نگر ,سانگلہ ہل کوٹ رادھا کشن وغیرہ کے واقعات کا جائزہ لیتے ہوئےآگاہ کیا ہے کہ اس خطے میں اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل نہیں“
محترم رضی الدین رضی صاحب فاضل کتاب پر اظہار خیال میں لکھتے ہیں” آنے والے دنوں میں کوئی تحقیق کا طالب علم اگر مسیحی برادری کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر کام کرنا چاہے گا یا انکی خدمات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا چاہے تو یہ کتاب اس کے لیے مدد گار ثابت ہوگی“
ڈاکٹر اختر انجیلی روحانی اور سماجی شخصیت اپنے اظہار خیال میں گل و خار پر لکھتی ہیں کہ ”سیمسن جاوید کے کالموں کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم الحروف اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ آپ محترم کی تحریریں گواہ ہیں کہ آپ اس نقطہ معراج کو متعددبار چھو چکے ہیں لہذہ ”گل و خار“ کا یہ نسخہ جوآپ کے ہاتھ میں ایک ہمعصر صحافی کے مشاہدات اور ان مشاہدات پر ان کے تاثرات کی ایک مصدقہ دستاویز ہے جسے ایک لکھاری نے تصنیف کیا اور ترتیب دیا ہےجو ایک دانشور کہلانے کا حقدار ہے“
معززحاضرین محفل سیمسن جاوید جدید رجحانات کے تحت اپنی صحافتی سماجی قلمکاری کی خدمات بڑے نمایاں انداز میں حقائق کو جانچ کر ان کا تجزیہ کر کے پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے مستقبل کی راہوں کا تعین کرتے نظر آتے ہیں اور جمہوری انداز کے فروغ میں مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے کی جانب پیش رفت کرنے کے مزاج سے اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں وہ مسیحی قوم کی تاریخ کو اپنے خون کو جلاکر امید کی شمع اورقوم کے حقیقی خوابوں کو عام کر رہے ہیں خداوند انہیں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا کرے آمین
دعا گو
گمیلی ایل ڈوگرہ
کالم نگار