دنیا میں آنے والے انقلاب انسان کے فکر و نظراور رائے سے شروع ہوئے جسے بعدازاں نظریاتی جدوجہد سے منسوب کر دیا گیا شعور اور پھر شعوری بیداری کے بغیر انقلاب کاسوچا بھی نہیں جا سکتا اور شعوری بیداری کے لیے ہمیشہ تحریکیں ہی چلائی جاتی ہیں پاکستانی اقلیتوں نے بھی سیاسی تحریک کا آغاز سیاسی پارٹیوں کے ہمراہ جدوجہد کے توسط سے ہی کیا لیکن آمرانہ اور متعصبانہ سوچ نے اقلیتوں کا ناقابل تلافی نقصان کیا کبھی انکے تعلیمی ادارے نیشنل آئیز کیے گئے کبھی انکو غیر جمہوری طرز انتخاب الیکشنز کی بھیٹ چڑھا دیا گیا ان کو قومی دھارے سے الگ رکھنے اور انکی جمہوری اقدار کو دبایا گیا مردم شماری میں انکی تعداد کم ہونے کی بھی نشاندہی کی گئی جسے چیلنج کیا گیا لیکن انکی دادرسی نہ کی گئی حکومتی ایوانوں میں مسلسل نشستیں انکی درست آبادی کے تحت انہیں نہیں دی جارہیں۔ ہمارے پارلیمیٹیرین کی کارکردگی سے مایوس بھی ہونا پڑتا ہے
پاکستان میں جداگانہ الیکشنز جنرل ضیا نے رائج کیے تو فیصل آباد سے ابھی کوئی نمایاں قیادت منظر عام پر بطور پارلیمینٹیرین سامنے نہیں آئی تھی آخری دو جداگانہ الیکشنز میں پیٹر جان سہوترہ ایم پی اے سابقہ وزیر مملکت اور جارج کلیمینٹ ایم این اے پارلیمانی سیکرٹری جیسے نام سامنے آئے لیکن مخلوط انتخابات کی شعوری بیداری کی تحریکیں بھی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔
شہباز بھٹی شہیدخلیل طاہر سندھو پرویز رفیق راقم الحروف اور دیگر ہمعصر ساتھیوں کی سیاسی سماجی اور ادبی ایکٹو ازم کا آغا تقریباً اکٹھے ہی فیصل آباد شہر کی کوکھ سے ہوا بعد ازاں لالہ روبن پروفیسر مشتاق یوسف فادر صدیق سندر اعجاز جیکب پروفیسر مشتاق وکٹر منظور جوری اور دیگر دوستوں میں یہ روابط عام ہوتے گئے وہ دور ہمارا طالب علمی کا دور تھا اور جدا گانہ الیکشنز میں اس دور کی سیاسی سماجی اورمذہبی شخصیات میں پیٹر جان سہوترہ جارج کلیمنٹ انور آرتھر بھٹی کنول سہیل بشپ جان جوزف شہید کے شانہ بشانہ ہماری بیٹھکیں اور مجالس اور جلسہ عام میں ہماری شمولیت اور تقاریر و خطابت ہمارا روزمرہ معمول تھا فیصل آباد میں لیفٹ کی تحریکوں کا اس وقت بڑادور دورہ تھا عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ حنا جیلانی میجر اسحاق فضل حسین راہی انور آرتھر بھٹی اقبال بھٹی غلام نبی کلو کی قیادت میں یہ تحریکیں کسانوں مزدوروں ٹریڈ یونیننز کو ساتھ لے کر چل رہی تھیں۔ 1988 سے1990 تک راقم الحروف جان پال ہوسٹل فیصل آباد میں محو حصول تعلیم کے تحت گریجوایشن کا طالب علم تھا جو کیتھولک ڈایوسس کے ماتحت ادارہ موجود تھا شہباز بھٹی راقم الحروف سے قبل پنجاب میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بننے کے خواہاں رہے لیکن ایف ایس سی میں ہائی میرٹ تک عدم رسائی کے بعد وہ آرٹس گروپ کے تحت گورنمنٹ کالج فیصل آباد(موجودہ جی سی یونیورسٹی ) میں داخل ہوگئے انکے والد محترم ماسٹر جیکب بھٹی کی خواہش تھی کہ وہ بھی انکے بڑے بھائی ڈاکٹر پال بھٹی کی طرح ڈاکٹر بنے لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا راقم الحروف گورنمنٹ اسلامیہ کالج فیصل آباد بھٹی صاحب اور ہمارے ہمراہ معروف شاعر و ادیب عاصم کھنہ اور آج کے کہنہ مشق صحافی ممتاز سہوترہ کے علاوہ شاعر نوید والٹر اور دیگر دوستوں سمیت طالب علموں کی لمبی لسٹ ہے کھنہ صاحب بھی ہمارے ہم عصر طالب علم تھے اور وہ بھی ڈاکٹری کے میرٹ تک عدم رسائی کے تحت میونسیپل ڈگری کالج (خالصہ) فیصل آباد میں گریجوایشن آرٹس گروپ کے طالب علم ہوتے ہوئے داخل ہو گئے اور انہوں نے میڈیکل سائینس کو خدا حافظ کہہ دیا ماسٹر جیمز لعل اور بعد ازاں خلیل طاہر سندھو صاحب ایک طالبعلم شخصیت ہمارے ہوسٹل انچارج رہے وہ ساتھ ساتھ لاء کے طالب علم بھی تھے ہر نئی آنے والی کتاب لا کر ہمیں دیتےپہلے خود پڑھتے اور پھر ہمیں پڑھنے کو دیتے اور ہمارے ہوسٹل میں مطالعہ کا مرکز وہی کتاب ہوتی نصابی کتابیں شاید کالجوں میں ہی ہم پڑھتے تھے جو خلیل طاہر صاحب لاتے وہ منیر نیازی واصف علی واصف کشور ناہید بانو قدسیہ محسن نقوی ڈاکٹر مبشر منٹو نذیر قیصر یوسف پرواز یا دیگر کسی دانشوروں یا عالموں وغیرہ کی ہوتیں اور وہ سینکڑوں کتابیں ہوسٹل کے زیادہ تر طالب علم ضرور پڑھتے تھے بعد ازاں ان کتابوں پر ہم باہم مذکورہ کتاب کے گراں قدر مقاصد پر تبصرے سے بھی ایک دوسرے کو آگاہ کرتے اور شئیرنگ کے سیشننز بھی معمول میں ہوتے تھے اخبارات کا تفصیلاً مطالعہ اور اس پر تبصرہ ہمارےدستر خواں کا موضوع بحث ہوتا اور ادبی سیاسی سماجی یا مذہبی نقطہ نگاہ زیر بحث رہتا راقم الحروف آج یہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے مشنری ادارے جان پال ہوسٹل جس کا وجود اب کیوں ختم ہو گیا ہے؟ کہاں ڈھونڈیں؟ لیکن1980 کی دہائی میں مسیحی کمیونٹی کی سیاسی و سماجی بیداری کی تحریکیں اور شعوری بیداری کے لیے آگے بڑھنے کی اس صورت حال کے تحت تحریکوں کا آغاز ہی جان پال ہوسٹل سے ہوا تھا ہم گھنٹوں گھنٹے ریورنڈ فادر صدیق سندر سے بھی نشستیں کرتے اعجاز جیکب فضل حسین راہی کو ہمارے درمیان لاتے رہےکیونکہ پڑھنے لکھنے اور مباحثوں نے ہم تمام ساتھی طالب علموں کی بہت زیادہ سیاسی و سماجی آبیاری کی اور ہماری شعوری بیداری کی یہ مشق سخن آج بھی جاری و ساری ہےخواہ وہ شہباز بھٹی کی سیاسی بودو باش کی شکل میں تھی خلیل طاہر کی شکل میں تھی پرویز رفیق یا راقم الحروف کی شکل میں تھی یہ بیداری روایتی مقامی مسیحی ادبی سماجی اور سیاسی قیادت کے لیے چیلنج بن گئی فیصل آباد کی مسیحی سیاسی شخصیات کی پاکستان کی دوسرے نمبر پر آبادی کے حوالے سے سیاسی قیادت کا گڑھ رہنے کی وجہ بھی یہی ہے
راقم الحروف اور شہباز بھٹی شہید کا جان پال ہوسٹل میں ایک ہی کمرہ تھا جہاں ہم پہلے دونوں ہم خیال سیاسی ذہین رکھنے والے تحریک چلانے پرسوچنے لگے آہستہ آہستہ یہ کارواں بننے لگا ہم نے پینٹو گراونڈ وارثپورہ میں انہیں دنوں کرسچن لبریشن فرنٹ کے زیر اہتمام جلسہ عام منعقد کیا بعد ازاں خوشپور اور دیگر مقامات پر ہم نے جلسے کیے خلیل طاہر صاحب ہم سے سیاسی اتفاق نہیں کرتے تھے اور ہم پر وقت کے ضیاع کے حوالے سے ہوسٹل انچارج ہوتے ہوئے ہمیں ڈانٹتے وہ طنزاً شہباز بھٹی عاصم کھنہ جسٹن البرٹ اور نوید والٹر کو ڈاکٹر کہہ کر انکا مذاق اڑاتے تھے کیونکہ وہ میڈیکل سائینس سے فرار کی راہیں ڈھونڈ رہے تھے اور آرٹس کے مضامین میں جس میں ادب سیاست مذہب اور سماج کے علم کے جنون کی حد تک دلچسپی لیتے تھے خلیل صاحب نے یہ بات بھانپ لی تھی سیٹھ ولسن اور راقم الحروف آرٹس کے طالب علم تھے پرویز رفیق شبلی کالج کے طالب علم تھے نوید والٹر ندیم والٹر جسٹن البرٹ اکمل زاہد بادشاہ پاہ ایوب پرویز رفیق ندیم بھٹی طارق رزاق ہمارے جونئیر سینئر طلبہ دیگر ساتھیوں کی لمبی چوڑی لاٹ تھی خلیل طاہر صاحب کی ڈاکٹری کی طنز و مزاح سے ہم بال بال بچتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تمام ڈاکٹرز کو سیاست و ادب کے جنون نے میڈیکل سائینس کے رجحان کے قریب ہی نہ جانے دیا اور ہم آرٹس کے طالب علم تھے پیارے دوست ولسن سیٹھ نے جو آجکل سوئٹزر لینڈ پاسٹر ڈاکٹرجسٹن سہیل نیوزی لینڈ اکمل زاہد بادشاہ برطانیہ نوید والٹر امریکہ ممتاز سہوترہ شہباز سپین پاہ ایوب برطانیہ ندیم بھٹی کینڈا میں مقیم ہیں خلیل طاہر نے شہباز بھٹی سمیت میڈیکل سائینس سے فرار ہونے والی مذکورہ لاٹ کو طنزناً سیاسی لیڈر کہنا شروع کر دیا تمام دوستوں نے کہا واقعی بھٹی صاحب آپ اچھے سیاسی لیڈر بن سکتے ہیں ہم اس وقت باہم اکٹھی ڈبیٹ لڑنے کے خواہاں رہتے خلیل طاہر صاحب اس وقت ہمارے ہوسٹل کے انچارج تھے اور ہوسٹل میں بھی ہماری ڈبیٹوں کا تقریباً مقابلہ ہر نشست میں رہتا۔
اسی ہوسٹل سے راقم الحروف جیسے ناچییز ہم خیال ساتھیوں نے شہباز بھٹی شہید کی قیادت پر پہلا اعتماد کرتے ہوئے کرسچن لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی راقم الحروف اور شہباز بھٹی کے ساتھ میٹنگز اور تقاریب میں بھی جاتے بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے جلسوں دیکھنا زندگی کا معمول تھا پرویز رفیق جو کہ ہم سے کلاس میں جونئیر تھے لیکن وہ تحریک کے جنونی جیالے بن گئے بعد ازاں اعجاز شیری لالہ روبن جانسن جوزف لیاقت آشر مجید پطرس اور سینکڑوں سیاسی شخصیات پورے ملک سے اس قافلے کا حصہ بنیں پہلے فیصل آباد بعد ازاں لاہور اور پھر اسلام آباد سی ایل ایف کا کارواں بڑھتا گیا راقم الحروف نے گھریلو مصروفیات اور خاندانی سیاسی تحفظات کے تحت بھٹی صاحب کی عدم توجہ کے نتیجہ میں سی ایل ایف خیر باد کہہ دیا اس پر مذاکرات بھی ہوئے لیکن باہم اکٹھے رہنا ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ناگزیر ثابت ہوا خلیل طاہر سندھو جارج کلیمینٹ شہباز بھٹی پیپلز پارٹی اور راقم الحروف پاکستان مسلم لیگ سے سیاسی تحفظات کے تحت وابستگی سے آگے بڑھنے لگے اسکے بعد 90 کی دہائی کے بعد آج تک جان پال ہوسٹل کے طلبا ہی کے توسط سے پاکستان کے اقلیتوں کی سیاسی بیداری پر کام ہوا اور اسی ہوسٹل سے ہی شہباز بھٹی شہید کل تک وفاقی وزیر اور خلیل طاہر آج سینٹر مسلم لیگ نون سےحکومتی ایوانوں کا حصہ ہیں
اعجاز جیکب اور لالہ روبن ق لیگ میں شہباز بھٹی سے پروفیسر مشتاق وکٹر سابقہ ایم این اے کو شمولیت کے لیے لے گئے جس کا سب کو بڑا دھجکا لگا اور دونوں سیاسی شخصیات کو بعد ازاں کسی سیاسی پارٹی یا تحریک میں دوبارہ کرسچن لبریشن فرنٹ اور آل پاکستان مینارٹیز الائینس میں وہ مقام نہ مل سکا شہباز بھٹی شہید کے بعد نوید عامر جیوہ ایم این اے تو اسی تحریک کی شناخت کے تحت معمول میں بن گئے جبکہ خلیل طاہر سابقہ صوبائی منسٹر بھی رہے وقت گزرتا گیا لیکن شہباز بھٹی جیسی سیاسی ورتھ قائم کرنے میں اب بھی سب ناکام ہیں سیاسی لابننگ عوام اور حکومتی ایوانوں اور لیڈر شپ میں کرنے میں ان کا کوئی آج تک ثانی پیدا نہیں ہوا راقم الحروف نے طاہر نوید چوہدری سابقہ ایم پی اے جاویدمائیکل سابقہ ایم پی اے نوید عامر جیواہ ایم این اے خالد گل راہنما ایپما ڈاکٹر پال مشیر وزیر اعظم پاکستان پرویز رفیق سابقہ ایم پی اے ندیم بھٹی اکمل بھٹی شمعون گل سے انکی باہمی نشستوں اور مذاکرات کی بات کی کہ خود ساختہ الائینسسز سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے اس سلسلے میں خطابت وتحریر کے توسط سے بھی اپنا اظہار رائے دیا لیکن سب نےاس ایشو کے حوالے سے مایوس کیا شہباز بھٹی شہید کے وفادر شاگردوں میں سے پرویز رفیق نے انکے بعد تحریک کی کمان سنبھالنے کی کوشش ضرور کی لیکن اس کا راستہ باقی تمام سینٹرل ایگزیکٹو باڈی نے دانستہ طور پر روکا اور ڈاکٹر پال بھٹی کو لے کر آگے بڑھے اور وہ شہباز بھٹی کے پرٹو کول کو قائم نہ رکھ سکے آج اب اگر اعجاز جیکب اور لالہ روبن پرویز رفیق کو نئے فورم مینارٹیز رائیٹس موومینٹ MRM میں مخلص ہو کر نئی تحریک کے لیے ساتھ ہیں تو خوشی ہوئی ہے لالہ روبن اقلیتی برادری کے مسائل کے حل اور مطالبات کو لے کر آگے بڑھنے اور باقی ساتھی بھی اس قافلے سے ذاتی انا کو ترک کرکہ مسیحیوں کو visionary سیاست کے دائرے میں لے آئیں تو اقلیتی عوام کے اچھے دن اور مستقبل روشن ہو سکتا ہے اور ان کا تلخ تجربہ قوم کی راہوں کو تعین کرنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے ادھر خلیل طاہر صاحب کو بھی نون لیگ کے روبرو سولو فلائیٹ پر اکتفا نہیں کرنا چائیے اور سیکنڈ لائین لیڈر شپ کے لیے منصوبہ بندی اور فکر و نظر کے لیے کام کرنا چائیے جس قوم کےپاس وسائل شعور اور جدوجہد کا جذبہ بھی ہو اور وہ قوم کے حقوق حاصل نہ کرسکے تو اس قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔