کوئی بھی ریاست ہو وہ اپنے شہریوں کے لیے ماں کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ عوام کے جانی اور مالی تحفظ کے تحت ایک آئین سے بندھی ہوتی ہے اسی طرح ہمارا ملک پاکستان بھی ہے۔آئین پاکستان تمام شہریوں کے جانی و مالی تحفظ کا ضامن ہے کیونکہ یہ ہمارا اپنی ریاست کے ساتھ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے اور یہی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی منشا بھی تھی مذہبی اقلیتوں سے حسن سلوک میں ریاست آئین پاکستان اور قائد اعظم کے افکار و ارشادات مخلص ہیں لیکن آج مذہبی بنیاد پرست اور انتہا پسند سوچ عملی طور پر اقلیتوں سے تعصب و منافرت کے درپے ہے ان کا تحریک پاکستان اور قیام پاکستان سے کوئی عمل دخل نہ تھا اب یہ منفی سوچ کے تحت پنجاب میں کمزور اقلیتی طبقوں پر تشدد و قتل و غارت عام ہو رہی ہے جس سے حکومت انتظامیہ عدلیہ اور مقننہ ہر روز باخبر ضرور ہے لیکن اس پر کوئی لائحہء عمل یاحکمت عملی اس صورت حال میں اقلیتوں کو محفوظ بنانے کے حوالے سےان کے پاس نہ ہے امتیازی قوانین کے رائج ہونے کے نتیجہ میں مذہبی اقلیتوں پر الزامات لگا کر انکو پریشان و مایوس کرنا اور ان سے مذہبی دہشگردی کرناروز کا معمول بن جانے سے بھی یہ واقف ہیں لیکن جو چیزیں کنٹرول سے باہر ہوں اس پر کلیدی عہدوں پر براجمان شخصیات ہوں انکو ایسے حالات میں مذہبی اقلیتوں کے مسائل و مطالبات کی سر دردلینا چاہئیےجبری مذہبی تبدیلی سے یا تشدد کے ذریعے مذہبی اقلیتوں سے زیادتی اور نا انصافی کوئی نئی کہانی نہیں ہے ایسے مذہبی اقلیتوں کے واقعات کے بعد انتظامیہ اور عدلیہ انہیں انصاف فراہم نہیں کرتے حالانکہ مذہبی اقلیتوں کی قیام پاکستان کے لیے قربانیاں بہت نمایاں ہیں برصغیر میں مسلمانوں کا دو قومی نظریہ ناکامی سے دوچار تھا لیکن اس کی کامیابی کا سہرا مذہبی اقلیتوں کے نام ہے جنہیں قائد اعظم نے شانہ بشانہ ساتھ چلنے پر برابر کے حقوق انہیں دئے آج بھی فوج میں 70 فیصد قربانیاں مذہبی اقلیتوں کی اس ریاست میں ہیں۔
قارئین سونیا آشر ایم پی اے و پارلیمانی سیکرٹری پنجاب اپنی ایک سوشل میڈیا ایکٹوٹی میں لکھتی ہیں کہ ”بے حد شکر گزار ہوں اپنی قائد چیف منسٹر آف پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ کے جنہوں نے سونیاآشر پارلیمانی سیکرٹری انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب کی 11-08-2024 کو تقریر میں درخواست کی گئی تھی کے مسیحیوں اور مینارٹی کے لئے کوئی ایسا سنٹر بنایا جائے جہاں پر مینارٹی اپنی درخواست دے سکے اور اس درخواست پر میری قائد میری لیڈر چیف منسٹر آف پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے مینارٹی کے لئے ورچوئل سینٹر کا قیام کر دیا ہے“
راقم الحروف موصوفہ ایم پی اے و پارلیمانی سیکرٹری پنجاب کی اس جدوجہد اور کاوشوں کے ہم قدر دان ہیں اور محترمہ مریم نواز شریف وزیر اعلی’ پنجاب کی مذہبی اقلیتوں کے مسائل اور مطالبات کے تحت انکی ترقی اور فلاحی منصوبہ جات کو تشکیل دینے کے سلسلے میں اپنے اظہار تشکر کے حوالے سے موصوفہ نے اس سے متعلق پنجاب اسمبلی کے مطلوبہ خطاب کو بھی شیئر کیا ہے۔
گومحترمہ مریم نواز شریف سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور عوامی مسائل اور انکے مطالبات کو اچھے طریقے سے سمجھتی بھی ہیں
سونیا آشر صاحبہ کے جذبے کی ہم قدر کرتے ہیں کہ انہوں نے اقلیتوں کے مطالبات اور مسائل کے تحت بروقت مذہبی اقلیتوں کے جانی ومالی اور ناقابل تلافی نقصان کے حوالے سے انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کے لیے اسمبلی میں درد بھری آہوں نالوں اور سسکیوں سے لبریز معاملہ کو اپنے تقریری بیان میں پنجاب اسمبلی میں اٹھایا جس کے نتیجے میں تمام پنجاب اسمبلی کے اقلیتی ممبران کی کاوشیں بھی شامل ہونگی مریم نواز شریف وزیر اعلی’ پنجاب نے یقینناً اس درخواست یا تقریری بیان پرعمل درآمد کو ممکن بنانے پر ورچوئل سینٹر کا ایک اچھا آئیڈیا دیا ہے جس پر کام شروع ہو گیا ہے
قارئین مذہبی اقلیتوں کےلیے انصاف کی فراہمی ممکن بنانے میں صرف انتظامہ پر یہ بات چھوڑنا اور وہ بھی مانیٹرنگ کے بغیر ناممکن ہے جبکہ عدلیہ بھی انتہا پسندوں اور بااثر شخصیات کے ہاتھوں ماضی میں مغلوب دیکھی گئی ہے اور اس سلسلے میں مذہبی اقلیتوں کو انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کے حوالے سےحکومتی مشنری پورے ملک میں ان حالات میں ناکام نظر آتی رہی ہے جب تک تشدد زیادتی نانصافی تعصب تنگ نظری عدم برداشت منافرت اور بد نیتی کے تحت ٹرائل رو دھو کر عدالتوں تک پہنچتا ہے تب تک مذہبی اقلیتوں کا ناقابل تلافی نقصان کثرت سے ہو چکا ہوتا ہے پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے لیے اداروں کی بالکل کمی نہیں ہے حکومت کے ذیلی اداروں میں انتظامیہ عدلیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت کی بھر مار ہے پھر بھی ملک کی مذہبی اقلیتیں عدل و انصاف کے لیے بلبلا رہی ہیں اور یہ صرف اقلیتیں ہی نہیں عام غریب آدمی بھی ناانصافی اور انصاف کی فراہمی ناممکن ہونے پر آنسو بہا رہا ہے۔
وزیر اعلی’ پنجاب کے لیے مذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظ کے حوالے سے تجاویز میں چند عملی اقدامات زیر غور ہیں جن کومذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظات کے تحت اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ نواز بشمولدیگر ترقی پسند پارٹیز آئین کےتحت مذہبی اقلیتوں کے لیے برابری کے حقوق پر یقین رکھتی ہیں۔ ان میں مذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظ کو ریاست میں ممکن بنانے پر چند تجاویز زیر غور ہیں ملاحظہ کیجئیے۔
1-مذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظ کی مانیٹرنگ کلیدی عہدوں پر براجمان شخصیات کے تحت برائے راست مانیٹرنگ کرنے کے بغیر ناممکن ہے جس کی بروقت اور مسلسل ہر روز کی رپورٹ بھی کلیدی عہدوں پر براجمان شخصیات کولینا ہوگی اس سلسلے میں وزیر اعلی’ کے عہدے کے ساتھ مذہبی مینارٹیز ایڈوائزر ٹو پرائم منسٹر ایڈوائزر ٹو وزیر اعلی’ اور کو آرڈینیٹرز ٹو گورنرز کے عہدوں کو بھی اسی دفتر میں ڈیسک کی شکل میں آفیشلی لانا ہوگاکلیدی عہدوں کے بغیر سماج کے بگڑے ہوئے عناصر سے کون نپٹ سکتا ہے؟ اس سلسلے میں اسٹبلشمینٹ بھی ان عہدوں کی راہنمائی اور معاونت میں حصہ ڈال سکتی ہے اگر یہ سسٹم وزیر اعلی’ مریم نواز مخلصانہ طور پر اپناتی ہیں تو اقلیتی ایم پی ایز ایم پی ایز ایم این ایز اور سینٹرز کی ایک مذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظات کے تحت انکی مستقل بنیادوں پر مانیٹرنگ ٹیم تشکیل کی شکل اختیار کر جائے گی اور یہ ایک بااختیار ٹیم کلیدی عہدوں کی ممد و معاونت ثابت ہوگی
2- مذہبی اقلیتوں کے نمائیندگان کے لیے ہر کلیدی عہدے کے دفتر میں معاونت کے لیےباقاعدہ مذہبی اقلیتی ڈیسک قائم کرنے اور ڈیسک کے ایڈوائزرز اورکوآرڈینیٹرز کے ذریعے رپورٹ لینے اور موقع ملاحظہ کے تحت انتظامیہ اور عدلیہ کے لیےاحکامات جاری کرنے کا اختیار بھی مانیٹرنگ ٹیم کے ذریعےسونپا جانا مناسب ہوگا ان میں صدر پاکستان وزیر اعظم پاکستان تمام صوبائی وزراء اعلی’ تمام گورنرز اس طرح انتہا پسندی کی لہر اور مذہبی اقلیتوں پر بلا وجہ تعصب اور منافرت کے تحت دباو ڈالنے کے تحت انتشار پیدا کرنے والے عناصر اور انصاف کی فراہمی کو فوری اور ممکن بنانے والے انتظامی اداروں کی براہ راست مانیٹرنگ بھی (متعلقہ ٹیم کے ذریعے) ہوتی رہے گی۔
3-اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کے لیے ہیلپ لائین یا کمپلین سیل یا نئی ایپ آن لائین کی سہولت بھی فراہم کی جانا ضروری ہے تاکہ متاثرین کی جانب سے بروقت کاروائی کے لیے درخواست آسانی سےموصول ہو سکے۔
قارئین موجودہ نظام میں پنجاب کے اقلیتی وزیر رمیش سنگھ اروڑہ پچھلے دنوں اسمبلی میں چرچز سکیورٹی ڈیٹا اور دیگر معلومات پنجاب اسمبلی کو فراہم کرنے میں ناکامی پر آئیں بائیں شائیں سے کام چلا رہے تھےجس پر سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے انکی سرزنش کے حوالے سے ہم سب پہلے ہی باخبر ہیں
سابقہ منسٹر پنجاب اعجاز اگسٹین موجودہ ایم پی اے کے سابقہ تجربہ سے بھی اس سلسلے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا کہ مذہبی اقلیتوں کے جانی و مالی تحفظات کے حوالے سے کیا ممکن ہے عمانوایل اطہر جولیس بابا فیلبوس شکیلہ آرتھر اور دیگر ایم پی ایز بھی ورچوئل سینٹر کے قیام پر حکومت کے شکر گزار ہیں اور اس کا اظہار کر رہے ہیں سندھ اسمبلی پختون خواہ اسمبلی بلوچستان اسمبلی بھی متوجہ ہو نوید سہوترہ ڈپٹی سپیکر سندھ بھی اس تحریر کے توسط سےوزیر اعلی’ پنجاب کےلیے مذکورہ بالا تجاویز پر غور کریں اور سندھ میں مذہبی اقلیتوں کے استفادے کے لیے سنجیدہ ہوں اور اقلیتی پارلیمیٹیرین پارٹی پالٹیکس کے علاوہ اپنے حقوق اور مطالبات کے تحت مل کر اور سنجیدگی سے مذہبی اقلیتوں لیے عوامی اور سیاسی حلقوں میں اسمبلیوں سمیت لابنگ بھی کریں تاکہ آپ کا اسمبلیوں میں ٹھہرنا مذہبی اقلیتوں کے لیےخوش آئیند اور بامقصد ہو۔
زندگی بھر نہ ہوا ختم قیامت کا عذاب
ہم نے ہر سانس میں برپا نیا محشر دیکھا
دکھ ہی ایسا تھارویا تیرا محسن ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔