ایم ایس رانا کی سانحہ گوجرہ کے پس منظرمیں لکھی کتاب ”بھوک ہمارا مذہب“ پر تبصرہ

تحریرگمیلی ایل ڈوگرہ

یکم اگست سے رواں مہینے کا آغاز ہو گیا ہے 11 اگست یوم اقلیت 14 اگست یوم آزادی لیکن یکم اگست سانحہ گوجرہ کے نتیجہ میں غیر انسانی رویوں اور مذہبی دہشت گردی کی خون کے آنسو رلانے والی داستان بھی بار بار یاد آتی ہے جو ہمیں ہمیشہ اداس کر دیتی ہے اور اسے یاد کرنے کادن بھی یکم اگست ہےسانحہ گوجرہ کے شہیدوں کی یادوں سے وابستہ تقریبات کی گوجرہ کی تازہ رپورٹنگ سوشل میڈیا پر دیکھی تو دل خون کے آنسو رویا ہنستے بستے سماج کے منہ پر یکم اگست 2009 کو منافق اور شر پسند عناصر نے کس طرح؟ تھپڑ مار کر اور مذہبی دہشت گردی کرکے مسیحی برادری کو دکھی اور شہید کرکے اور سینکڑوں گھروں کو خاک اور راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا اور ان زخموں کے نشانوں پر ہر سال اگست کے آغاز پر ہی پھر نظر پڑ جاتی ہے لیکن دانشوروں کی نظر سے ایسے حالات پیدا کرنے والی قوتیں کبھی بھی نہیں بچ سکیں کیونکہ ایسے سانحات کے بعد شر پسندوں کی عدالت تحریکوں اور تحریروں کے توسط سے ایسے زخموں اور گھاو کو کبھی بھی چھپایا نہیں جا سکتا۔
قارئین مجھے سانحہ گوجرہ کے پس منظر میں نوجوان دانشور محمد سبطین رانا ایڈووکیٹ کی بھی آج یاد آئی کیونکہ انکی کتاب ”بھوک ہمارا مذہب“ میں نے پڑھی اور انہوں نے اس کتاب کے ذریعے یہ حوصلہ دیا کہ
ظلم تو پھر ظلم ہےبڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہےٹپکے گا تو جم جائے گا
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے

قارئین آج پھر مجھے یہ تحریر بار بار یاد آئی اور میں نے اس کتاب میں سانحہ گوجرہ کے پس منظر میں اس تاریخی تحریر پر اظہار خیال کرنا قومی پریس کے ذریعےمناسب سمجھا۔
نہایت محترم محمد سبطین رانا دلیر بے باک نڈر اور حساس طبعیت کے نوجوان دانشور ہیں وہ گوجرہ بار کے وکلاء میں بڑی اہمیت کی حامل شخصیت ہیں وہ گوجرہ بار کے سابقہ جوائینٹ سیکرٹری بھی 2014 میں رہ چکے ہیں میرے بہت ہی پیارے دوست ہیں رائیل نیوز سماج ٹی وی کے اینکر رہ چکے ہیں مذہبی و سماجی ہم آہنگی پر انکی خدمات قابل قدر ہیں گوجرہ امن کمیٹی کو بھی لیڈ کرتے ہیں انٹر نیشنل این جی او سی ایس سی کے ساتھ مل کر امن و ہم آہنگی کے ٹرینر رہے ہیں انکے سپیجیجز آل اور پنجاب سنے جاتے ہیں ہیومین رائیٹس لیبر رائیٹس وومن رائیٹس جیسی مزاحمتی تحریکوں میں بھی پیش پیش رہے ہیں انکی پی ٹی آئی کے ساتھ افیلی ایشن بھی ہے جنہیں جاگیردارانہ طویل مناپلی قائم رکھنے والی شخصیات پیچھے دھکیل کر اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں اس سلسلے میں ان پر ایف آر بھی درج ہوئی لیکن گوجرہ میں اس شخصیت کو بہت زیادہ عزت شہرت اور سرفرازی ملی ہوئی ہے اور سماجی و سیاسی حلقوں میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ ویثن کالج کے پرنسپل ہیں اور لاء کے پروفیسر بھی ہیں۔
قارئین مصنف ایم ایس رانا کی کتاب کے بیک ٹائیٹل پر مذکورہ کتاب کی روگردانی کے بعد سینئر رپورٹر City41 چینل رمضان مرزا فیصل آباد رقم طراز ہیں
”گھٹن کے اس ماحول میں ”بھوک ہمارا مذہب ”گوجرہ کے ہزاروں باسیوں اور لاکھوں پاکستانیوں کی آواز ہے سانحہ گوجرہ کے پس منظر میں لکھی گئی یہ کتاب 2009 میں ہونے والے انسانیت سوز واقعہ کی غماز تو ہے ہی ساتھ ساتھ ہی لکیر کے فقیر اور بھیڑ چال کا حصہ بننے والے شہریوں کے لیے ایک پیغام ہےکہ خدا را کسی بھی معاملہ کی تحقیق کے کے بغیر کسی گروہ کی ہاں میں ہاں ملا دینا ہر گز با شعور قوموں کا شیوہ نہیں لکھاری نےمحتاط رویہ اپناتے ہوئےکئی تلخ حقائق نہایت ہی شائستہ انداز میں بیان کیے ہیں“
مصنف کتاب کے پیش لفظ میں سانحہ گوجرہ کے حوالے سے اپنی کتاب ”بھوک ہمارا مذہب“ میں رقم طراز ہیں کہ
”میں نے تو معاشرے کی ایک بنی بنائی کہانی کو محض قلمبند کیا ہے یہ کہانی ہمارے معاشرہ کی ہر گلی محلہ اور شہر میں بکھری پڑی ہے اور ہمارے ارد گرد کسی طرح سے سفر کر رہی ہے میں نے تو محض اس کہانی کو ذرا زیادہ گہرائی میں جا کر محسوس کیا ہے اور اپنے مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھا ہے اس کہانی کو میں نے اتنا زیادہ قریب سے دیکھا تھا کہ ایک مقام ایسا بھی آیا کہ اس کہانی کے کرداروں کو زیادہ قریب سے دیکھ کر میں خوفزدہ ہو گیا ہمارے سماج کے بظاہر معزز ترین کردار کبھی اپنے اندر اتنے ظالم چہرے چھپائے بیٹھے ہوئے ہیں کہ اگر ہر عام آدمی کے سامنے وہ چہرے بے نقاب ہو جائیں توانسانیت کو خود سے خوف آنے لگے کس طرح سےبعض لوگ مذہب کے نام کو اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرتے ہیں اپنی سیاست یا اپنا کاروبار چمکانے کی خاطر کس طرح مذہب کی آڑ میں جذباتی لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلا جاتا ہے سماج کے معززین عام آدمی کی لاشوں پر کس طرح سودے بازی کرتے ہیں اور عام آدمی کس قدرجاہل اور بے وقوف ہوتے ہیں معاشرے کے ان سب بھیانک پہلووں کا عکس اس کہانی میں ملے گا“
آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ

میرا دین کسی خاص مسجد کسی خاص امام مسجد یا پھر کسی خاص مدرسے یا مولوی تک محدود نہ ہے بلکہ میرا دین وہ دین ہے جس نے مسجد کے اندر بھی غیر مسلموں کو داخل ہونے کی اجازت دی تھی جس نے ذات پات رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر ظلم و زیادتی اور تفریق کرنے سے سختی سے منع فرمایا تھا جس نےانسانیت کو امن کا ایسا پیغام دیا تھا کہ نہ صرف مسلمان بلکہ غیر مسلم بھی اس پیغام پر جھوم اٹھے تھے“
قارئین جیسے سرفراز بزمی فلاحی اپنے شعر میں کہتے ہیں۔

ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہء تکبیر بھی فتنہ

قارئین پسماندہ کمیونٹیز کو سیاسی مذہبی اور سماجی شخصیات کبھی جمہوریت کبھی مذہب کبھی سماج کے نام پر اکسانے پر انکا ہمیشہ استیحصال کر رہی ہیں۔
ایم ایس رانا وہ قلمکار ہیں جو سماج کے اندر کمیونٹیز کے درمیان گروبندی فرقہ واریت و منافرت پھیلانے والوں کےمخالف ہیں اور وہ عوام کو ایسی قیادت سے محتاط رہنے کی ترغیب دیتےہیں۔
انہوں نے اس کتاب کو سانحہ گوجرہ کے بعد لکھ لیا لیکن اس کی باقاعدہ اشاعت 2017 میں ہوئی انہوں نےانتساب اپنے دادا صوفی محمد یعقوب کے نام لکھا اور اپنی اہلیہ کا حوصلہ افزائی کے لیے بھی شکریہ ادا کیا۔

محبت کا اک ایسا شجر لگایا جائے
ہمسائے کے گھر میں بھی جس کا سایا جائے
قارئین مصنف نے ”بھوک ہمارا مذہب“ کی کہانی کو فرضی کرداروں کے تحت پیش کیا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام گوجرہ کے ایک نواحی گاوں کے غیر مسلم پر لگ جاتا ہے اور کم بختی شہر کی کرسچن بستی کی آجاتی ہے
سانحہ گوجرہ کے نتیجے میں آٹھ کرسچن گیھراو جلاو سے شہید اور سینکڑوں گھروں کو راکھ بنا دیا گیا اور یہ سب مذہبی جذبات بڑھکا کر مسلمانوں کو مسیحیوں کے خلاف گیھراو جلاو کروایا گیا جیسے ڈاکٹر بشیر بدر لکھتے ہیں۔
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
قارئین کتاب کے دسویں باب میں مصنف لکھتے ہیں
اب نوازشات کاوقت آگیا قرآن پاک کی بے حرمتی والے واقعہ میں کس حد تک سچائی تھی اور کتنا جھوٹ تھا کسی کو پوری طرح علم نہ تھا ماسوائے طالب مسیح اور اس کے خدا کے۔لیکن اس سارے واقعہ میں کرسچن مظلوم اور مسلمان ظالم قرار پائے۔لہذہ اب ضروری تھا کہ مسیحیوں کو نوازا جانا اور مسلمانوں کو زیر عتاب لایا جاتا پھر وہی ہوا۔اچھو مسیح کو باہر کا ویزہ مل گیا طالب مسیح کو محفوظ طریقے سے یورپ بھیج دیا گیا اور نعیم مسیح کہ جس نے بار روم میں صلح کے نام پر سب سے پہلے بھگدڑ مچائی تھی اس کا بھی ویزہ لگ گیاتھاجو مکانات جلے تھے وہ پھر پکے مکانات بن گئے کوریاں گاوں کے کچے مکانات بھی پکے بن گئے“
آگے چل کر رانا صاحب لکھتے ہیں
”دوسری طرف پولیس اپنی دائری مکمل کرنے کی خاطر بہت سے بے گناہ مسلمان لیکن غریب مسلمانوں کو گرفتار کرکر تھانوں میں بند کر رہی تھی ۔جن مسلمان علماء نے بڑی بڑی لچھے دار اور ایمان افروز تقریریں کی تھیں اور عوام کے جذبات کو اپنی مرضی کے ساتھ جنت اور دوزخ کے مناظر دکھا کے بھڑکایا تھا اور ہنگامہ بپا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا تھا انکے ساتھ پولیس ڈائیلاگ کر رہی تھی جبکہ ان تقریروں پر محض واہ واہ کرنےوالے غریب مسلمانوں پر دہشت گردی کے مقدمات ہو رہے تھے اور یہاں پر خاموش تما شائی پکڑے جارہے تھے عادل کی خوش قسمتی کہ وہ بھی تقریر کر کے لیڈر بن چکا تھا لہذہ اس کا نام کسی ایف آئی آر میں درج نہ ہوا۔
قارئین گوجرہ ماضی میں امن کا گہوارہ رہا ہے لیکن مذہبی جنونیت اور فرقہ واریت پھیلانے والوں نے اپنا ہی شہر برباد کر کے جگ ہنسائی کا موقع لوگوں کو دیا جسے مصنف آئیندہ بے صبری اور مایوسی پھیلانے والے سازشی عناصر کو نہایت محتاط رہنے اور سوسائٹی کے ذمہ داران کو اپنے ہی شہر میں امن اور محبت سے معاملات کو دیکھنے اور انکو احسن طریقے سے تشدد کے بغیر حل کرنے کے کوشش کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قارئین اکثریتی مذہب اگر گروہی اعتبار سے بڑا ہے تو ان ذمہ داریوں میں اقلیتی مذاہب کی حفاظت اور تحفظ کی ذمہ داریاں بھی ان پر لگی ہوئی ہیں جوانہیں نبھانا ہونگی اور یہ ہی ذمہ دارایاں 11 اگست 1947 کی تقریر میں بانی پاکستان نے اکثریت اور اقلیت کے لیے حقوق و فرائض کی شکل میں ہمیں عطا کیں۔
قارئین المختصر محمد سبطین رانا نے سانحہ گوجرہ کے پس منظر میں ملک پاکستاں کو یہ کتاب ”بھوک ہمارا مذہب“ لکھ کر سماجی سیاسی اور مذہبی حلقوں میں ایک منطقی سوچ کے تحت زندگی گزارنے پر زور دیا ہے بیداری کے اس عمل میں دلائل کے بغیر زندگی کو گزارنے کو وحشیانہ کردار ادا کرنے کے عمل سے منسوب کیا ہے اس سلسلے میں وہ سماج مذہب اور ملک کے لیے سانحہ گوجرہ جیسے تمام سانحات کو خطرہ کی گھنٹی بجاکر بیدار رہنے پر زور دیتے نظر آرہے ہیں۔
آدم ہے باپ سب کا تو کیسی تمیز نسل
انسان نہیں الجھتے کبھی ذات پات میں

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading