آج کل کی تعلیم اور اس کے لوازمات

 

تحریر : امتیاز ایم بھٹی

جدت کے اس دور میں تعلیم کے میدان میں بھی بے پناہ ترقی ہوئی ہے بلا شعبہ تعلیم نے ہی انسان کو شعور اور جلا بخشی ہے آج کل جہاں تعلیم حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے وہاں مفلس اور غیر ترقی یافتہ لوگوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اس کے لوازمات کو پورا کرنا ہے پچھلی دو دہائیوں میں فیشن پسند لوگوں اور سکولز مالکان یا تعلیمی اداروں کے رئیسوں نے تعلیم کے ساتھ ایسے عوامل شامل کیے ہیں جن کی وجہ سے غریب اور مڈل کلاس فیملیز کے لیے بچوں کو تعلیم دلوانا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا ہے

آئیے مشاہدہ کرتے ہیں

فیسز اور یونیفارمز : پرائمری اور مڈل کلاسز کی فیسوں کی انتہا ہے نام نہاد سکولوں کی فیسز پلے گروپ سے ہی ہزاروں میں ہیں اگر والدین فیسز برداشت کر بھی لیں تو باقی سکولز یونیفارمز ٹائز , بیچز , شوز , اور باقی چیزیں جو تقریبا تین ماہ بعد تبدیل کرنی پڑتی ہیں وہ بھی سکولز اپنی مرضی کے داموں والدین کو مہیا کرتے ہیں آپ سکولز کے باہر سے کچھ خرید کر سکولز میں استعمال نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اس کی اجازت نہیں ہوتی ہے اس میں بھی سکولز انتظامیہ کا مفاد شامل ہوتا ہے یہ بازار سے ہول سیل پہ خریدی گئی چیزوں کو دو سے تین گنا زیادہ ریٹ پہ بیچتے ہیں

کاپیاں کتابیں اور اسیسریز : سکولز نہ صرف علم فروخت کر رہے ہیں بلکہ کاروبار کا اڈہ بھی بن چکے ہیں سکولز کاپیوں کتابوں کے نام پہ والدین کو لوٹتے ہیں پینسلیں , ربڑیں , شاپنرز ریزرز , کاپیاں , جیومیٹریز , بیگز بھی فروخت کرتے ہیں جس پہ سکولز کے مونوگرام اور نام لکھے ہوتے ہیں پیپر فنڈز , ونٹر اور سمر وکیشنز کی مد میں بھاری معاوضہ لیتے ہیں اس طرح والدین کا مالی اور ذہنی استحصال کیا جاتا ہے

پارٹیز اور پروگرامز : آئے دن سکولز میں کوئی نہ کوئی فنکشنز رکھے جاتے ہیں جیسے مدر ڈے , فادر ڈے, عید ملن پارٹی , پکنک, ٹیچر ڈے , کلچر ڈے , انڈیپینڈنس ڈے , سالانہ فنکشنز یہ سب فنکشنز کے لیے بچوں کو گھر سے ہزاروں روپے لانے کا کہا جاتا ہے بچے والدین کو تنگ کرتے ہیں اور مجبوراً والدین کو یہ سب کرنا پڑتا ہے بچوں کو سبھی اہم دنوں کی آگاہی دینا اچھی بات ہے پر اس طرح اہم دنوں کے فنکشنز کے نام پر لوٹنا غلط بات ہے
:کھانے پینے اور برینڈ کی نمائش
صاحب استطاعت فیملیز نے بچوں کے لنچ میں سبزیوں والے سالن , انڈا , اور روٹی یا پرانٹھے کی بجائے فاسٹ فوڈ مثلا پیزا , شوارما , کباب , بیکری آئٹمز اور دوسری مہنگی چیزیں ایڈ کر دی ہیں اس سے مڈل فیملی کے بچے نہ صرف احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں بلکہ والدین سے ان سب چیزوں کی ڈیمانڈ بھی کرتے ہیں جو مہنگائی کے اس دور میں ان کی پہنچ سے بہت دور ہوتی ہیں 90s کی دہائی تک کچھ سادہ دور تھا جس میں بچے اچار پرانٹھے سے بھی لنچ کر کے خوش ہو جایا کرتے تھے اور سادہ پہن کر بھی گزارا کر لیتے تھے اب بچے رچ فیلوں کو دیکھ کر والدین کو تنگ کرتے ہیں جن کی کمریں پہلے ہی منگائی نے توڑ رکھی ہیں

کیا اقدامات ہونے چاہیے؟
پڑھائی کے علاوہ تقریبا سکولز کے تمام فنکشنز پہ پابندی ہونی چاہیے
گورنمنٹ کو پبلک سکولز کی سہولیات بڑھانی چاہیے تاکہ وہاں بھی انرولمنٹ بڑھ سکے اس سے عام لوگوں کے بچے بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکے گے.
بچوں کی کاپیاں , کتابیں , اور اسیسریز والدین جہاں سے مرضی خرید سکیں اسطرح وہ بازار سے بارعایت اور سستی چیزیں بھی خرید سکے گے
وردی کے بغیر سکولز میں بچوں کو آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تا کہ ایک جیسا لباس ہونے کی وجہ سے تفریق ختم ہو سکے
بچوں کو سکولز میں فاسٹ فوڈ لانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے تحقیق نے بھی ثابت کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ مضر صحت اور بیماریوں کا سبب ہے دوسری طرف اس سے ایسے بچوں کا بھی پردہ رہ جائے گا جو افورڈ نہیں کر سکتے ہیں اساتذہ کو سبزیوں , دالوں , فروٹز , اور گندم کی روٹی کی اہمیت واضح کرنی چاہیے تاکہ مضبوط اور مستحکم قوم پروان چڑھ سکے
صرف غیر نصابی سرگرمیوں میں کھیلوں اور ورزش کی اجازت ہونی چاہیے اس سے بچوں کی جسمانی اور زہنی پرورش ہو سکے

ان باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے تاکہ مفلس اور مڈل فیملیز کے بچوں کے والدین بھی سکون کی سانس لے سکیں کہا جاتا ہے کہ ” کلاس رومز قوموں کے مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں ” ہمیں ایسے کلاس رومز یا سکولز بنانے چاہیے جس سے ہمارے پیارے ملک کے بہترین مستقبل کا فیصلہ ہو سکے.

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading