تنبیہ
تحریر: جاوید یاد
ایک بات بڑی مشہور ہے کہ جب کوئی استاد کسی شاگرد سے خوش نہیں ہوتا تو اسے کلاس میں پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا دیتا ہے۔اور اسے کوئی تنبیہ بھی نہیں کرتا۔اور جس سے وہ خوش ہوتا ہے اسے وہ آگے والی سیٹ پر بیٹھتا ہے اور اسے بار بار تنبیہ بھی کرتا ہے۔ایک دور تھا جب کوئی بزرگ تنبیہ کرتا تھا تو سننے والا خوش بھی ہوتا تھا اور شکریہ بھی ادا کرتا تھا۔اور تنبیہ پر عمل بھی ہوتا تھا ۔اور اس عمل سے اس بزرگ کی دعائیں بھی ساتھ ساتھ چلتی تھیں ۔لیکن اب دور یہ آ گیا ہے کہ تنبیہ کرنا دشمنی مول لینا اور اپنی شخصیت کو مجروح کرنے کے مترادف ہے ۔اور اب تو بات یہاں تک آ گئی ہے کہ کسی اور کی تنبیہ تو درکنار اپنے ماں باپ کی تنبیہ بھی بوجھ لگتی ہے۔ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ تنبیہ کے جواب میں’ ماں آپ کو نہیں پتہ’ یا’ ابو مجھے سب معلوم ہے’،نتجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ عملی ذندگی میں ناکام ہو رہے ہیں،تعلیمی میدان میں مار کھا رہے ہیں۔ازدواجی زندگیاں ڈپریشن کا شکار ہیں،لڑکیاں ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوئے ہی ان کی طرف سے تنبیہ کا پلو سسرال جاتے ہی کھال دیتی ہیں۔اپنے بنائے ہوئے اصولوں اور اپنے بنے ہوئے ٹائم ٹیبل پر عمل کرنا پسند کرتی ہیں جس کا نتیجہ ناکامیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
تنبیہ ہونا اور ہوتے رہنا بے حد ضروری ہے،کیونکہ تنبیہ ایک ایسا عمل ہے جس پر انسان عمل کرے یا نہ کرے چند لمحوں کے لئے سوچتا ضرور ہے۔تنبیہ کا عمل خواب میں بھی ہوتا ہے اور جاگتے ہوئے ہوش میں بھی، یہ عمل روز اول سے جاری ہے۔آدم اور حوا سے لے کر انبیاء اکرام اور عام انسانوں تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
کلام خدا ہمیں بتاتا ہے کہ خدا جسے پیار کرتا ہے اسے تنبیہ کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جب ہم پر کوئی تنگی ،مصیبت ،پریشانی یا بیماری آئے کے خدا ہمیں پیار نہیں کرتا،تنبیہ تو اس کی محبت کا ثبوت ہوتی ہے۔کیونکہ وہ ہی ہمیں ہر پریشانی سے نکالتا ہے ۔اس لئے تنبیہ کو سننا،سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور اسے اپنی ذندگی میں اپنانا ہی خدا کی فرما برداری ہے
بس یہی بات سوچنے کی ہے۔۔۔۔۔۔مگر کب سوچیں گے ؟