تحریر: جاوید یاد

میں اس دن سرگودھا ہی میں تھا جس دن وہاں توہین مذہب کی یلغار ہوئی۔اور ایک مسیحی جو مدتوں سے اس جگہ رہ رہا تھا جس کا جینا مرنا ان کے ساتھ تھا،جو اس کی خوشی غمی کے ساتھی تھے اور جن کا ایمان یہ تھا کہ کسی غیر مسلم کے آنسو پونچھ کر جنت کے دروازے کھولتے ہیں کسی کمزور پر ظلم کرکے نہیں۔۔۔۔۔۔ہاں جنہیں تم کمزور سمجھتے ہو وہ کمزور نہیں،ہاتھ ان کے بھی ہیں۔۔مارنے کو انھیں بھی کچھ مل سکتا ہے،پتھر اٹھانے کی طاقت ان میں بھی ہے،بندوق چلانا انھیں بھی آتا ہے،لیکن انہوں نے یہ سب سیکھا ہی نہیں۔ان کے مذہب نے انہیں صرف محبت کرنا سیکھایا ہے،صبر اور برداشت کرنا،حلیم اور فروتن رہنا۔اینٹ کا جواب پتھر سے دینا انہیں آتا ہی نہیں۔۔ناجانے تم کس احمقوں کی جنت میں رہتے ہو، کان کھول کر سن لو جنت اس مسیحی کو ملے گی جس نے کربلا کے میدان میں بیبیوں کے سروں پر چادر ڈالی تھی۔جنت ان بیبیوں کو ملے گی جو حق وباطل کی جنگ میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر زخمیوں کو پانی پلاتی رہیں۔یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ حسد اور کینے کی زد میں کر ایک بزرگ شہری کو اینٹوں اور پتھروں سے چور کر دو اس کے گھر کو آگ لگا دو اور اس گھر کی بیبیاں ننگے سر باہر بھاگیں اور اس کا خون پسینے سے بنایا ہوا کاروبار تباہ و برباد کر دو۔تم نے قرآن پاک پڑھا ہے کبھی، اس میں فرمان کی گئی باتوں پر عمل نہ کر کے توہیں مذہب تو تم کرتے ہو۔۔۔۔اور مجرم دوسروں کو ٹھہراتے ہو۔ مسیحی لوگ نہ صرف اپنے بلکے ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج تک تم توہین مذہب ثابت نہیں کر سکے۔

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading