تحریر: محمد آصف
سانحہ رحیم یار میں ایک 12 پولیس کے شہدا کی خبر سن کر دل دھک سا رہ گیا 12 خاندان اجڑ گئے بچے یتیم ہو گئے ماؤں کے بیٹے وطن پر قربان ہو گئے
اور ایسے علاقے میں جہاں پر دن دیہاڑے ڈاکو دنداتے پھرتے تھے اس علاقے کے پولیس کے آفسران اس بات سے بے خبر تھے یا ان کی نااہلی کہ لیں ایسے کرمنل علاقے میں پولیس والوں کے پاس جدید دور کا اسلحہ تو کجا لائف جیکٹس تک دستیاب نہیں تھیں
دوسری جانب کچے کے ڈاکو جن کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا اور ان کی سرکوبی کیلئے جب آپریشن شروع ہوا تو پھر اس آپریشن کا مکمل کیوں نہیں ہونے دیا گیا ؟؟
ویسے تو اس ریاست کے کرتا دھرتا لوگوں نے “ڈیجیٹل دہشت گردی”کی جدید اصطلاح سے بھی متعارف کروا دیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کیلئے یہ سب سے خطرناک ڈیکلیئر بھی ہو چکے
مگر کچے کے ڈاکوؤں نے اس ریاست کے اندر اپنی ایک ریاست بنا رکھی ہے وہ آئے روز ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں اور اب تو ان کی دیدا دلیری دیکھیں سکیورٹی کے اداروں پر بھی حملے کرتے جا رہے ہیں
کیا عام عوام کا سوال پوچھتا بنتا نہیں ہے ان کچے کے ڈاکوں کی پشت پناہی کون کر رہا ہے؟
ایک ایٹمی پاور اور سیکورٹی سٹیٹ کی حیثیت بس اتنی سی رہ گئی ہے اب یہ چور ڈاکوؤں کے آگے بھی بھیگی بلی بن کر کھڑی ہو گئی ہے یا دال میں کچھ کالا ہے ؟
کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف دہشت طرز کا آپریشن کیوں نہیں کیا جا سکتا کیا وزیر اعلی پنجاب نے ان کی سروں کی قمیت لگا دی مگر کیا ان کے خلاف آپریشن رد الفساد طرز کا آپریشن نہیں کیا جانا چاہیے ؟
ان کچے کے ڈاکوؤں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی ایکشن ہونا چاہیے ان کو پاس راکٹ لانچرز سے کے کر بکتر بند گاڑیاں موجود ہیں مگر اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی سخت گیر کارروائی نہیں ؟؟کسی مہذب ملک میں ایسا واقعہ ہوا ہوتا تو اب تک جانے کیا کچھ ہو جاتا مگر اس ریاست کی ترجیحات میں عوام کی سیکورٹی سے زیادہ کچھ اور چیز معنی رکھتی ہے
آخر جب تک عوام و پولیس والے ان کے ہاتھوں یرغمال ہوتے رہیں گے آخر کب تک آخر کب تک؟
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔