تحریر:آصف امین

ہال سی ایس ایس آفیسرز سے بھرا ہوا ہے تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک موٹی ویشنل اسپیکر صاحب اسٹیج پر جلوا افروز ہوتے ہیں حاضرین کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہیں اور چند جذباتی باتوں میں ایک فقرہ بولتے ہیں “یہ سب آپ کی ماں کی دعا کا نتیجہ ہے”
جب یہ فقرہ سامعین کی سماعتوں سے ٹکراتا ہے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے اور کچھ سی ایس ایس آفسیرز کی آنکھیں تو باقاعدہ اشک بار ہو جاتی ہیں
تو جناب والا اس ایک جذباتی جملے سے موٹی ویشنل اسپیکر صاحب نے اپنے پیسے کھرے کر لیے ہیں اور تمام آفسیرز کو یقین دلایا ان کی کامیابی کیوں کر ممکن ہوئی
آئیے! منطقی طور پر اس جذباتی جملے کا جائزہ لیتے ہیں
دعا کی افادیت و اہمیت سے کسی کو مذہبی انسان کو کوئی انکار نہیں اور ماں جیسی عظیم ہستی کی دعا اس سے تو قطعی طور پر انکار نا ممکن لیکن! اگر سی ایس ایس آفیسرز کی کامیابی ان کی ماؤں کی دعا سے منسوب ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے
کیا صبح سے شام تک ہوٹل پر کام کرنے والے بچے کی ماں اس کی کامیابی کیلئے دعا نہیں کرتی ؟؟؟
یا ایک بہترین اور قابل امیدوار کی سلیکشن کسی کمپنی کے انٹرویو میں اس سبب نہ ہو سکی کیوں کہ مدمقابل امیدوار کی سفارش اور پیسے نے اپنا کام دیکھا دیا
حالانکہ انٹرویو میں فیل ہونے والے نوجوان کی ماں نے ہر نماز میں دعا مانگی اور بیٹے کو صبح گھر سے روانہ کرتے وقت اس کا منھ چوم کر ڈھیروں دعا دے کر اس کو روانہ کیا
ماں مشرق کی ہو یا مغرب کی وہ اپنی اولاد کیلئے ہر وقت دعا ہی مانگتی رہتی ہے تو پھر ہر امیر ماں کی دعا قبول کیوں اور غریب ماں کی دعا رد کیوں ہو جاتی ؟
تو کیا ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز اس فقرے سے غریب ماؤں کی دعا کا مذاق نہیں اڑا رہے ؟

تو حضور والا انسانی نفسیات ہے ہم لوگ احساسات و جذبات کے رو میں بہہ جاتے ہیں احساسات و جذبات منطق کی نسبت پر اثر ہوتے لہذا ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز حضرات چند جذباتی فقروں کو اس طرح استعمال کرتے کہ ہم بھی اپنی کامیابی و ناکامی پر جذباتی ہو کر ان کی بتائی ہوئی منطق پر من و عن یقین کر لیتے ہیں
ضرورت اس امر کی ہے اگر آپ موٹی ویشنل اسپیکرز کو سنتے ہیں تو ان کی باتوں کا علمی و منطقی تنقیدی جائزہ لیں
موٹی ویشنل اسپیکرز اپنے سب مخاطبین کو ایک ہی چھڑی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر بندے کو ایلون مسک ، ایک کھلاڑی یا ایک کامیاب بزنس مین بنانے کا مصمم ارادہ کر چکے ہوتے ہیں (حالانکہ ان کی اکثریت خود عملی زندگی میں ناکام ہوئی ہوتی ہے) اور سطحی جذباتی باتوں سے ہمیں متاثر کرتے ہیں اور اپنا کاپی شدہ منجھن ہر فورم پر کامیابی سے بیچ رہے ہوتے ہیں
کسی کی زندگی اگر آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو اور آپ کو وہ شخص کامیاب بھی لگتا ہو تو لامحالہ آپ اسے رول ماڈل سمجھ کر اس کی تقلید کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی لئے ماضی میں گزری بڑی شخصیات کی آپ بیتیاں میرے جیسے طالب علموں کیلئے ہمیشہ مشعل راہ بنی رہیں
مشاہیر زمانہ کی کامیابیوں کا موٹی ویشنل اسپیکرز حضرات نے جو پیمانہ بنا رکھا ہے ان سے ایک علمی و تحقیقی آدمی ہرگز متاثر نہیں ہوسکتا
البتہ اپنی غیر منطقی باتوں سے جذباتی لوگوں کی واہ واہ خوب سمیٹتے ہیں اور سمیٹ رہے ہیں
ضرورت اس امر کی ہے ہمارے موٹی ویشنل اسپیکرز حضرات کو عوام الناس کے جدید مسائل اور ہر کسی کے ذہنی سطح کے مطابق آکر موٹی ویٹ کرنا چاہیے اور کتب بینی کا ذوق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے مگر ان گفتار کے قاضیوں سے دور دور تک اس کی قوی امید نہیں ہے
کسی نے کیا خوب کہا ہے: “زندگی میں پیسے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ” اس بات بتانے کے بھی موٹی ویشنل اسپیکرز حضرات ٹھیک ٹھاک پیسے لیتے ہیں

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading