تحریر :آصف امین
بیان کرنے والے ماضی و حال کے بیان کرتے ہیں ایک انسانی دور تھا جب انسان ہر چیز کو بغیر پکائے کھا جایا کرتا تھا اس دور کے انسانوں کے معدے بھی زود ہضم تھے قبل از تاریخ کا انسان گھاس کو ویسے ہی کھا جایا کرتا تھا جیسے آج کل جانور چارا کھاتے ہیں-
یہ دور انسانی ارتقاء کا اولین دور تھا
پھر انسان نے حادثاتی طور پر آگ دریافت کی آگ کیسے دریافت ہوئی یہ بھی ایک الگ کہانی ہے-
قصہ مختصر جب آگ دریافت ہوئی تو حضرت انسان نے اپنی گزشتہ خوارک کی عادت ترک نہ کی بلکہ اپنی خوراک کو پکا کر کھانا شروع کر دیا-
مگر بنی نوع انسان کو جو گھاس کھانے کی لت لگ چکی تو اس کو ترک کرنا اتنا آسان نہیں تھا-
انسان نے گھاس کو پکا کر کھایا اور پکی گھاس کے مزے نے اس کو الگ سی مسرت و خوشی عطاء کی-
چوں کہ انسان اب ارتقائی عمل سے گزر رہا تھا اور اپنے ماضی کی گھاس جس سے اسے ایک خاص قسم کا انس پیدا ہو چکا تھا اس سے بھی قطع تعلق نہیں کر سکتا تھا لہذا اس کا نام گھاس سے تبدیل کر کے “گاس ” رکھ دیا اور منطقی طور پر اس نام کو ثابت کرنے کے لیے اس وقت کے کسی ماہر خانساماں نے دو تین گھاسوں کو ایک ساتھ ملا کر ایک نئی ترکیب سے بنایا “سرسوں کے پتے,بٹو ،پالک وغیرہ اور اس خاص ڈش کا نام “گاس ” رکھ دیا گیا
اس خانساماں کی اس خاص ڈش کی واہ واہ پورے عالم میں چار سو یوں پھیل گئی جیسے آج کل کوئی وائرل ویڈیو پھیل جاتی ہے
مشرق کے لوگ بالعموم اور برصغیر کے لوگ بلخصوص زیادہ روایات پسند ہیں لہذا انہوں نے اس خاص ڈش کو جس کا نام گاس تھا اسے اپنی پرکھوں کی امانت سمجھ کر سینے سے لگا لیا اور یہ خاص ڈش نہ صرف ہر گھر کی زینت بنی بلکہ سردیوں کی بھی خاص سوغات بن گئی اور اس کا پکانا ہر گھر میں فرض عین ٹھہرا
مشہور مؤرخ جناب حاجی چن دین اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں
“یہ خاص ڈش جس کا نام گاس تھا ہر خاص و عام گھر کی زینت تھی وادی سندھ سے لے کر کرشنا و رامائن بدھ مت غرض یہ کہ برصغیر کی ہر تہذیب میں اس سوغات کا ذکر “گھاس ،ساگھ ،ساگھس “وغیرہ کے ملتے جلتے ناموں سے موجود ہے تغیر و تبدل سے اور حوادث زمانے میں اتارا چڑھاؤ آتے رہے فاتح قوموں مفتوح بنی مفتوح قوموں فاتح بنی اس ڈش کا نام گاس سے سا گ پڑ گیا مگر حیرت کی بات یہ ہے اس کو بنانے کی ترکیب میں پھر بھی گھاسوں کا مرکب ہی موجود رہا قرینہ قیاس ہے گاس سے ساگ نام کی تبدیلی ویسے ہی کسی غلام قوم نے کی ہو گی جو کسی فاتح قوم سے مرعوب ہوئی ہو گی جیسے ہم اہل مغرب سے مرعوب ہو کر اور کچھ نہیں تو ان کے جیسا بننے کے چکر میں ہر شعبہ زندگی میں مغربی چربہ استعمال کرتے ہیں “
حوالہ: قوموں کے کرتوت
ماہر آثار قدیمہ وادی سندھ کو دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کہتے ہیں اور یہ تہذیب کیسے تباہ و برباد ہوئی اس کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک مشہور رائے یہ بھی ہے کہ جب آریاؤں نے وادی سندھ پر حملہ کیا تو اس وقت وادی سندھ کے عوام ساگ پکانے کے عمل میں مشغول و مصرف تھے اور انہوں نے کہا کہ ساگ کھا کر ہی دشمن کا مقابلہ کریں گے ساگ پکانے کا عمل ابھی پایا تکمیل تک نہیں پہنچا تھا کے دشمن نے کو آن دبوچا اور وادی سندھ کے باسی ساگ کے چسکے کی بدولت شکست کھا بیٹھے
وادی سندھ سے ملنے والے برتنوں میں ساگ کے نمونے کافی تعداد میں برآمد ہوئے ہیں اس دور کے اکثر خطوط میں بھی اس سوغات کا ذکر ملتا ہے
ابن بقوقہ اپنی کتاب میں اس سوغات کا ذکر خیر کرتے ہوئے راقم طرز ہیں
“اگر چہ یہ مشکل ترین مرحلہ ہے پہلے کھیتوں میں جا کر ایک ایک شاخ کو توڑ کر اکھٹا کیا جاتا ہے اور پھر اس کو پورے ایک دو دن میں پکایا جاتا پھر اس کو ختم کرنے کے لیے مسلسل سات دن کھایا جاتا ہے یعنی کل ملا کر دس دن اس سوغات پر لگانے والی قوم سے آپ ترقی کی امید رکھ سکتے؟ ہرگز ہرگز نہیں
اقوام عالم میں صرف یہی فارغ البال قوم ہے جو ساگ پکانے اور کھانے کے عمل میں پورا ہفتہ ضائع کر سکتی ہے تو پھر ہم کیوں نہ کہیں اس قوم کی تنزلی میں ایک بڑا کردار اس سوغات کا بھی ہے ”
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
مزہ ساگ کے کھانے کا جس کو پڑا
اس نے ہر کام سے ہاتھ دھویا کیا
اگر ہمسائے آپ کے گھر میں ساگ کے ساتھ مکھن اور باجرے و مکئی کی روٹی بھی بھیجتے ہیں تو وہ حقیقت میں آپ کے “ماں جائے” ہیں مگر اگر وہ صرف آپ کو ساگ بھیجتے ہیں تو دراصل وہ اپنا ساگ ختم کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں اپنے ہمسائے کی اس قبیح حرکت کے خلاف اس کے دروازے کے سامنے جا کر با آواز بلند “او او و و و ” بول کر آپ اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکتے ہیں
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔