تحریر: آصف امین

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ پاکستان کی سیاست میں انصاف کو مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہو، اور بدقسمتی سے، یہ امید کم ہے کہ یہ آخری بار ہوگا۔ جب تک مقتدرہ کی سوچ میں تبدیلی نہیں آتی اور “سلیکٹو جسٹس” کا نظریہ ترک نہیں کیا جاتا، پاکستان میں آئین، قانون اور عوامی رائے کو دبانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ قومی سلامتی اور احتساب کے نام پر ہر اس شخص کو دیوار سے لگا دیا گیا جس نے مقتدرہ کی پالیسیوں سے اختلاف کیا۔ پاکستان کی سیاست میں کئی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے اس رویے کے کرب کو جھیلا۔ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا عمران خان، تاریخ نے بار بار مقتدرہ کے سامنے اختلاف کرنے والوں کے لیے ایک جیسی داستانیں لکھی ہیں۔
حالیہ دنوں میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو سزا سنائی گئی، لیکن تجزیہ کرنے والے اس فیصلے کو انصاف سے زیادہ انتقام کا نام دے رہے ہیں۔ 190 ملین پاؤنڈ کے کیس میں عمران خان کی کابینہ کے دیگر ارکان اور ملک ریاض جیسی طاقت ور شخصیت کا ذکر تک نہیں جب کہ عمران خان کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ فیصلہ ایک واضح سوال پیدا کرتا ہے کیا یہ احتساب تھا یا عمران خان کو سیاسی طور پر غیرموثر بنانے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ؟

جب احتساب کا عمل ایک خاص سمت میں ہوتا ہے اور صرف ان لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے جو مقتدرہ کے بیانیے سے اختلاف کرتے ہیں، تو عوام کے لیے یہ باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انصاف کا نظام آزاد اور غیرجانبدار ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا، نواز شریف کو ملک بدر کرنا، اور اب عمران خان کو نشانہ بنانا، یہ سب اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست کیسے مقتدرہ کے اثر و رسوخ کے تابع ہے۔
اگر کوئی سیاستدان آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، یا ریاستی اداروں کی جواب دہی کی بات کرتا ہے، تو وہ جلد ہی “قومی سلامتی” یا “احتساب” کے نام پر دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔
سلیکٹو جسٹس نہ صرف انصاف کے نظام بلکہ ملک کی سالمیت کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ جب طاقتور افراد قانون سے بچ نکلتے ہیں اور کمزوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تو اس سے معاشرتی بےچینی، انتشار، اور بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے، اور معاشرے میں ایک ایسی فضا جنم لیتی ہے جہاں انصاف ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔
پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں:

 عدلیہ کی آزادی: عدلیہ کو مکمل طور پر آزاد اور غیرجانبدار بنایا جائے تاکہ ہر فیصلے میں انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔
. شفاف احتساب: احتساب کے عمل کو غیرسلیکٹو بنایا جائے، تاکہ کسی بھی فرد یا ادارے کو قانون سے بالاتر نہ سمجھا جائے۔
. مقتدرہ کی مداخلت ختم ہو: ریاستی ادارے سیاست سے علیحدہ رہیں اور اپنی آئینی حدود میں کام کریں۔
. عوامی شعور کی بیداری: عوام کو بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ اپنے نمائندوں کا احتساب خود کر سکیں اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کریں

عدل کی تیغ کسی مجرم پہ نہ چلی
ہر بار مظلوموں کا لہو بولتا رہا
پاکستان کے سیاسی حالات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ کب رکے گا؟ کیا ہم واقعی ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکیں گے جہاں قانون کی حکمرانی ہو، یا ہمیشہ سلیکٹو جسٹس کے اس جال میں پھنسے رہیں گے؟ عوام کے لیے یہ وقت جاگنے کا ہے۔ انہیں سوال کرنا ہوگا، اپنے حقوق کا شعور حاصل کرنا ہوگا، اور اپنے نمائندوں سے جواب دہی کا مطالبہ کرنا ہوگا۔
اگر یہ خاموشی برقرار رہی تو پاکستان کے مستقبل کے لیے اندھیرے بڑھ سکتے ہیں۔
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں؟
ستم کی کہانی، جفا کے فسانے

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading