بھیک سے خودداری تک

 

تحریر: آصف امین

ہماری زمین زرخیز ہے، ہاتھ محنتی ہیں، دماغ تخلیقی ہیں، مگر پھر بھی ہم محرومی کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ہر بجٹ، ہر پیکج، اور ہر حکومتی اعلان ہمیں مزید اس بھنور میں دھکیل دیتا ہے جہاں ہم دوسروں کے سہارے جینے کے عادی ہو چکے ہیں۔ اس سال حکومت پاکستان نے 20 ارب روپے رمضان پیکج کے لیے مختص کیے ہیں، گویا دسترخوان پر ایک اور لنگر چن دیا گیا ہے، جہاں قوم کو قطار میں کھڑا کر کے چند کلو آٹے، چینی اور گھی کا محتاج بنایا جائے گا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ غریبوں کی مدد کے نام پر بھیک تقسیم ہو رہی ہو۔ کبھی بے نظیر انکم سپورٹ، کبھی احساس پروگرام، کبھی انصاف راشن، اور اب یہ رمضان پیکج—مگر سوال یہ ہے کہ ان تمام امدادی منصوبوں نے ہمارے معاشرے میں کیا تبدیلی پیدا کی؟ کیا غربت کم ہوئی؟ کیا لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ترغیب ملی؟ نہیں، بلکہ اس کے برعکس، محنت کی جگہ انتظار نے لے لی۔ کام کرنے کی بجائے لوگ حکومت کے اعلانات کی راہ تکتے ہیں کہ کب کوئی نیا پیکج آئے گا، کب چند ہزار روپے ملیں گے، اور کب دوبارہ یہ چکر چلے گا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کسی حکومت نے آج تک معیشت کے اس بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے بھیک بانٹنے کے بجائے صنعتیں کھڑی کیں، پیداوار بڑھائی، اور لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے۔ مگر پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے—یہاں صنعتیں لگانے کے بجائے فلاحی منصوبے متعارف کروائے جاتے ہیں، جن کا مقصد وقتی تسکین کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ ہم اپنے ملک کو اسلام کا قلعہ کہتے ہیں، مگر ہماری معیشت غیر مسلموں کے قرضوں اور مسلم ممالک کے عطیات پر کھڑی ہے۔ جیسے ہی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یا کسی برادر اسلامی ملک سے قرض یا امداد ملتی ہے، پوری قوم خوشی کے شادیانے بجانے لگتی ہے، حالانکہ یہ خوشی ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ قرض کی رقم چند ماہ میں ختم ہو جاتی ہے، پھر وہی پرانا سوال کھڑا ہو جاتا ہے—اور دو، اور دو!

ایک مدبر لیڈر کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم کو غربت کے دلدل سے نکالنے کے لیے دیرپا اقدامات کرے، مگر ہمارے حکمران عارضی شہرت اور وقتی واہ واہ کے اسیر بن چکے ہیں۔ پانچ پانچ ہزار روپے بانٹ کر خود کو مسیحا کہلوانے والے درحقیقت معیشت کے قاتل ہیں۔ وہ چند دن کے لیے لوگوں کی مشکلات کم تو کر دیتے ہیں، مگر انہیں خود کفیل بنانے کا کوئی بندوبست نہیں کرتے۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اگر یہی اربوں روپے جو راشن یا نقد امداد کی صورت میں بانٹے جاتے ہیں، انہیں کسی پیداواری منصوبے میں لگایا جائے تو کیا ہو؟ اگر ہر مستحق خاندان کو راشن دینے کے بجائے ایک سلائی مشین دے دی جائے، تو وہ اپنے لیے روزگار پیدا کر سکتے ہیں۔ اگر ہر گاؤں میں چھوٹے چھوٹے پیداواری یونٹ بنائے جائیں، جہاں مقامی لوگ کام کریں، تو کتنے ہی خاندان خودکفیل ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ حقیقی حل ہے جو قوم کو بھکاری پن سے نکال کر خودداری کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔

پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ نوجوانوں کے پاس کاروبار شروع کرنے کے لیے سرمایہ نہیں۔ اگر حکومت واقعی معیشت کی بہتری چاہتی ہے، تو اسے ان نوجوانوں کے ساتھ اشتراکی کاروبار کرنا چاہیے۔ یعنی حکومت سرمایہ فراہم کرے اور نوجوان محنت کریں، اس سے کاروبار بھی بڑھے گا، معیشت بھی ترقی کرے گی، اور بیروزگاری میں بھی کمی آئے گی۔ یہ وہ ماڈل ہے جسے چین، ترکی اور ملائیشیا جیسے ممالک نے اپنایا اور آج دنیا میں اپنی معاشی خودمختاری کا ڈنکا بجا رہے ہیں۔ مگر پاکستان میں ہر حکومت صرف اس فکر میں رہتی ہے کہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ایسی اسکیمیں متعارف کروا دے جن سے وقتی داد و تحسین حاصل ہو سکے۔

یہ روش ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ جب تک ہم بھیک مانگنے کی عادت سے نجات نہیں پائیں گے، اس وقت تک ہماری معیشت کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اصل کامیابی اس دن ہوگی جب ہم کسی عالمی مالیاتی ادارے یا کسی دوسرے ملک سے ملنے والی امداد پر جشن منانے کے بجائے اپنے وسائل پر فخر کریں گے۔ جب ہم کسی حکومت سے راشن کی توقع رکھنے کے بجائے اپنی محنت سے خود اپنا راشن خریدنے کے قابل ہو جائیں گے۔ جب لنگر، راشن، اور امداد کی جگہ خودداری، محنت اور پیداواری معیشت ہمارا شعار بنے گا۔

ورنہ یہی حال رہے گا، کچھ ارب روپے عوام میں بانٹ کر ان کی وقتی ضروریات پوری کر دی جائیں گی، کچھ لوگ شکریہ ادا کریں گے، کچھ واہ واہ کریں گے، اور پھر چند ماہ بعد وہی فقرہ گونجے گا—اور دو، اور دو!

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading