تحریر: منظور راہی
سِسکتے اور خوف سے گھبرائے ہوئے اپنی ذات میں گم سْم یہ لوگ ہر سْو گردن جھکائے کھڑے ہوئے نظر آئیں گے یہ لوگ بول بھی سکتے ہیں اور سْن بھی سکتے ہیں مگر تعداد میں کچھ کم ہیں یہ زدہ چہرہ انمیا میں مبتلا اپنی آنکھیں ہر طرف گھماتے رہتے ہیں۔ میں شہر کے چوراہے پر کھڑا یہ سب منظر دیکھتا ہوں ہر روز طلوع ہوتا سورج اِن پر آگ برستا ہے، سخت سردی سے اِنکے جسموں کو نیلا کر دیتی ہے یہ لوگ بولتے نہیں ایک لمبی سی آہ بھرتے ہیں بول بھی سکتے ہیں اور سْن بھی سکتے ہیں۔ مگرلمحہ فکریہ ہے کہ اِن سے کوئی بات بھی نہیں کرتا، میں ہر روز شہر پر کھڑا یہ منطر دیکھتا رہتا ہوں کہ اچانک ایک روز بادیش سا بْزرگ میرا ہاتھ پکڑ کر چلو بیٹا میں آج ایک شہر کی سیر کرواتا ہوں اْس شہر کا نام شہر معاشرہ ھے اِس معاشرے شہر کی بہت سی تصویروں سے ملواوْں گا یہ چلتے پھرتے لوگ دیکھ رہے ہو اْور میں نے اثیات میں سر ھلا دیا یہ لوگ بولتے بھی ہیں اور سنتے بھی مگر اِن لوگوں کی سوچ کو اِن کی ذات میں ہی دفن کردیا جاتا ہے۔کیا یہ ظلم نہیں؟ آوٴ چلیں اِن لوگوں کی آوازیں ہر روز ایک نیا پیغام لے کر جاگتی ہیں میں تمہیں اِس شہر جس کا نام معاشرہ ہے بہت سی جگہوں شہر معاشرہ کی سیر کرواوٴں گا۔ تاکہ تم یہ سب کچھ اِس شہر کا دیکھ سکو اور پھر اپنے اندر جینے کا حوصلہ پیدا کرو۔ میں بیٹا تمہیں وقت سے پہلے مرنے نہیں دوں گا اور پھر میں نے ہمت کر کے بادیش بْزرگ سے سوال کیا۔ کیا میری بھی کوئی اِس شہر معاشرہ میں گھر، مکان اور زمین ہے تو بادیش بْزرگ لوے حدِ نظر دْور تک زمین دیکھ رہے ہو یہ تمام کی تمام ہر فرد کے لیے ہیں مگر افسوس کے تم یہ زمین حد نظر جو سر سبز ہے کھیت ہے، کھلیان ہیں تم دیکھ سکتے ہو یہ تمہاری نہیں ہے۔
تمہارے حصہ کی یہ سر سبز زمین اِس شہر کے بڑے قوت اور طاقت ور لوگوں نے تم سے چھین لی ہے کیونکہ تم کمزور ہو بول نہیں سکتے اور شہر معاشرہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ خدا کرے کہ یہ سن بھی نہ سکیں۔ بادیش بزرگ میرا ہاتھ تھام کر یہ سب کچھ مجھے دیکھا رہا تھا۔اِس شہر معاشرہ میں بسنے والے لوگوں کو کیوں خیال نہیں کہ کسی دوسرے کا خیال کریں تاکہ دوسرے لوگ بھی جی سکیں۔
بادیش کہنے لگے بیٹا اگر جس روز اِن کو خیال آگیا تو اْس روز آپ اور ہم جیسے لوگ بول بھی لیں گے اور سن بھی لیں گے مگر تو تمہاری کمزوری ہے۔ بھْوک و افلاس بےبسی میں جی رہا ہوں بہت بیمار ہونے کو ہوں۔ اور بْزرگ کہنے لگے مجھے علم ہے کہ تمہارے اپنےاِس شہر معاشرہ میں ایک ہسپتال جو تمہیں ادویات دیں۔ پر میں نے پوچھا کہ یہاں پر ہسپتال ہے تو بْزرگ کہنے لگے میں تمہیں وہ بھی دیکھاوْں گا چند قدم آگے چلتے رہے۔ ایک بوسیدہ سی عمارت تھی بزرگ فرمانے لگے یہ ایک چھوٹا سا ہسپتال ہے صرف اِس کے ماتھے پر ہسپتال لکھا ہے۔ میں نے کہا اندر تو جانوروں کا اصطبل ہے خاموش ہو جاوْ اِس شہر کا نام ہے معاشرہ۔ جو لوگ اِس معاشرہ شہر طاقت ور لوگ ہیں وہ بیمار نہیں ہوتے اگر بیمار ہوگئے تو علاج کے اِس شہر سے کوچ کر جاتے ہیں سمجھے۔ یہ ہی طاقت ور لوگ جو ہسپتال میں انسان کو داخل نہیں ہونے دیتے اپنے مال ڈنگر باندھتے ہیں سْن لو یہ لوگ جو باہر چلے جاتے ہیں یہ طاقت ور لوگ ہوتے ہیں لمبی عمر پاتے ہیں۔ یہ بڑی عمارتوں میں اپنے والے تمہاری زمین، تمہارا حصہ تم سے چھین کر اپنی عمارتوں میں صنم کرتے ہیں
اور تمہیں میں کیا کیا بتاوْ۔ بیٹا آپ کو ابھی بہت کچھ اِس شہر کا دیکھنا ہے۔
کیا کبھی ہم بھی سکول پڑھنے کے لیئے جائیں گے۔تو بادیش بْزرگ فرمانے لگے خاموش رہو سکول کا نام تم اپنے لبوں پر مت لاوَ تمہیں زندہ درگو کر دیا جائے گا اِس شہر معاشرہ نے سکول بنائے ہیں۔ اْس میں اور آپ نہیں پڑھ سکتے اِس میں زندہ لوگ پڑھتے ہیں جن کے پاس ہر چیز موجود ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پڑھنا لکھنا ہے ہمارا اوْپرایک ایک عذاب اور شجرہ مسنوعہ ھے ہم سے بہت دور ہے اِس کے لیئے روپے پیسے کہ ضرورت ہوتی ہے۔ تو سنو میں ایک طاقت ور لوگ کے ہاں ملازم تھا بلکہ آپ مجھے غلام کہے، وہ طاقت ور اچھے لفظ سچے پیارے ہوتے تھے مجھ سے سْن کر کبھی کبھار پیٹنا شروع کر دیتے تھے آپ نے پان والے کی دوکان ضرور دیکھی ہوگی میں نے کہا جی۔ تو بْزرگ کہنے لگے میں نے کسی سے سْن رکھا تھا کہ اسے پنواڑی کہتے۔ ایک روز میرا مالک کہنے لگا کہ جاوْ پان لے کر آوٴ میں پان لینے گیا تو دوکان بند تھی۔ میں نے بڑی شائستگی سے آ کر عرض کی اور کہا کہ پنواڑی کی دوکان بند ہے تو میرے مالک کا غصہ بڑا گیا وہ مجھے جان سے مارنے لگے کہ تم نے پنواڑی کا لفظ کہا سے سیکھا ہے اگر تم چند ایسے لفظ پڑھ کے اور بول سکے تو پھر تم میرے پاس نہیں رہو گےتمہیں بھی بس ایسے ہی دیکھنا چاہتا ھوں اِس لیئے تو ہم سکول اس شہر میں بننے نہیں دیتے شکر ہے کہ ہمارے بچے تو پڑھ لکھ کر جب آئیں گے تو یہاں پر آکر حکمران بنے گے۔
اگر ہم اِن کے سامنے کوئی سوال کریں تو ہماری جھونپڑیوں کو رات میں جلا دیتے ہیں آنے والے وقت کی انتظار کی بھی کوئی حد ہوتی ہے بْزرگ کہنے لگے ہمیں صرف جینے کے اپنی صحت اور کچھ کر گزرنے کے لیئے پڑھنا اور لکھنا پڑے گا مگر ہمارے پاس تو پینے کا صاف پانی بھی نہیں، جس کی وجہ سے بہت سی جان لیوا بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آگے چلو میں تمہیں اِس شہر معاشرہ کی ایک اور تصویر دیکھاتا ہوں جہاں پر محکوم لوگوں کے گھروں پر اپنی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ سنو میں تمہیں شہر معاشرہ مکمل طور پر نہیں دیکھا سکتا مگر ہمیں سب کو آگے بڑھنا ہے محنت سے لگن سے خْود کو تیار کر کے بڑھنا ہے۔ بیماریوں کو اپنی سوچ و خرد سے شکست دینا ہے ہم سب گونگے بہرے نہیں مگر سِسکتے بِلکتے ضرور ہیں نہیں ہم سنتے بھی ضرور ہیں بول بھی لیتے ہیں مگر ہمارے بول صاف ہوتے ہیں اور کم بھی مگر ہمارے لفظ گونگے اور بہرے ہرگز نہیں ہوتے۔ ہاں مگر کچھ لوگ تحریر کرتے وقت شاید بھْول جاتے ہیں کہ اِن کے لفظ، گونگے اور بہرے ہیں۔ بادیش بابا میرا ہاتھ تھام کر نئی منزل کی جانب چلا پڑا۔